ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں تھی

انتظار حسین  جمعرات 18 جولائی 2013
rmvsyndlcate@gmail.com

[email protected]

کوئی ایک بچہ‘ کوئی ایک استاد‘ کوئی ایک کتاب کوئی ایک قلم پوری دنیا کے نقشہ کو بدل سکتا ہے۔ ملالہ نے بہت صحیح کہا۔ باون تولے پاؤ رتی سچی بات مگر شرط یہ ہے کہ لوگ پڑھ سکیں اور سمجھ سکیں کہ قلم نے کیا لکھا ہے اور کتاب میں کیا کچھ ہے اور استاد کیا کہہ رہا ہے۔ سو اس بی بی نے ٹھیک کہا کہ اپنے ذاتی دکھ کو بھول کر اپنی ساری کوششیں تعلیم کے فروغ کے لیے وقف کرنے کی ٹھانی ہے۔ ہماری حالیہ تاریخ میں سرسید احمد خاں کے بعد یہ دوسرا موقعہ ہے کہ تعلیم کی اہمیت کو اس طرح سمجھا گیا ہے اور اپنی درد مندی اور خلوص کے ساتھ اس کے لیے آواز اٹھائی گئی ہے۔ ادھر پشت پر ایک عمر کا تجربہ اور بزرگی کی طاقت تھی۔ یہاں پشت پر معصومیت کی طاقت اور خداداد بصیرت ہے۔

خیر ملالہ پر تو اس وقت بہت گفتگو ہو رہی ہے۔ کل تک اس کی ہمت و جرأت پر شاباشی مل رہی تھی، اب جب اقوام متحدہ کے اس خصوصی اجتماع میں جو یوم ملالہ کی تقریب سے منعقد ہوا تھا، اس نے تقریر کی تو اس کی سمجھ اور بالغ نظری پر یار آفرین کر رہے ہیں اور حیرت و مسرت سے سوچ رہے ہیں کہ ع

ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں تھی

یہ خراج تحسین علامہ اقبال نے اس عرب لڑکی فاطمہ بنت عبداللہ کو پیش کیا تھا جو طرابلس کی جنگ میں غازیوں کو پانی پلاتی ہوئی شہید ہوئی تھی اور اب ملالہ اس خراج کی مستحق نظر آ رہی ہے؎

یہ کلی بھی اس گلستانِ خزان منظر میں تھی
ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں تھی

ہاں تو ہم یہ کہہ رہے تھے کہ ملالہ پر تو اس وقت پاکستان میں کتنے چھوٹے بڑے اور پاکستان سے بہت بڑھ کر دنیا کے اکابرین انگشت بدنداں ہیں اور داد کے ڈونگرے برسا رہے ہیں۔
مگر صاحبو‘ تھوڑی داد اس بچی کو بھی ہم دے لیں جس نے اقوام متحدہ کی طرف سے اس مبارک موقع پر جاری ہونے والا وہ ایوارڈ حاصل کیا ہے جس کا لمبا سا نام یوں ہے گلوبل ایجوکیشنز یوتھ کریج ایوارڈ۔ ہمارے اخبارات تو اتنی خبر دے کر نبٹ گئے کہ ہندوستان کی ایک کمسن لڑکی کو یہ انعام ملا ہے۔ لیکن جب ہم نے سنا کہ یہ لڑکی رضیہ سلطانہ ہے اور میرٹھ سے اس کا تعلق ہے تو ہمارے کان کھڑے ہوئے ع

از کُجا می آید ایں آوازِ دوست

ارے ملکہ رضیہ سلطانہ کے بعد اس سرزمین پر اب کونسی رضیہ سلطانہ نمودار ہوئی۔ اور پھر کہاں سے نمودار ہوئی ہے۔ میرٹھ سے ع

کبھی چھوڑی ہوئی منزل بھی یاد آتی ہے راہی کو
ارے یہ تو وہی میرٹھ ہے جہاں ہم پڑھ لکھ کر جوان ہوئے تھے۔

تاریخ کی بوالعجبیوں کا کیا پوچھتے ہو۔ کل تک ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے ایک تھے۔ تقسیم کے بعد ایک سے دو ہو گئے۔ ہم پاکستانی وہ ہندوستانی مسلمان یعنی ہم ادھر‘ وہ ادھر۔ اے ادھر والو‘ اب تم جانو‘ تمہارا کام جانے۔ یہاں ہم اپنی قسمت سنواریں گے۔ ویسے جس رنگ سے ہم اپنی قسمت سنوار رہے ہیں وہ تو ظاہر ہی ہے۔ ادھر ان کا پنپنا ہمیں مشکل نظر آ رہا تھا۔ تحریک پاکستان کے نام پر بڑھ بڑھ کر نعرے لگانے کی پاداش میں وہ اپنا بہت کچھ کھو چکے تھے۔ مگر جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے۔ پتہ چلا کہ اب بھی ع

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی

دیکھیے ان کے بیچ سے ایک بچی نمودار ہو کر کہاں سے کہاں تک پہنچی ہے۔ ہم سمجھ رہے تھے کہ میرٹھ شہر سے اس کا تعلق ہو گا۔ ارے نہیں۔ میرٹھ ضلعے میں کوئی گاؤں ہے ننگل کھمبہ۔ وہاں کی زیادہ آبادی مسلمانوں کی ہے۔ غریب غربا دیہاتی مسلمان۔ اسکول کالج کو وہ کیا جانیں۔ وہاں ایک کاروبار ان کی دسترس میں ہے۔ فٹ بال بنانے کی انڈسٹری کا مرکز شاید کہیں آس پاس ہے۔ یہ لوگ فٹ بالوں میں ٹانکے لگاتے ہیں اور اس کاروبار سے اپنا پیٹ پالتے ہیں۔ اپنے بچوں بچیوں کو بھی اسی کام پہ لگا دیتے ہیں۔ اور ان کے بل پر اپنی روزی میں اضافہ کرتے ہیں۔ رضیہ سلطانہ ابھی پانچ برس کی تھی کہ اسے اسی کاروبار میں جوت دیا گیا۔ مگر خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ وہاں ایک تحریک ’بچپن بچاؤ اندولن‘ کے نام سے شروع ہو گئی۔ اس کے کارکن اس گاؤں میں بھی پہنچے اور لوگوں سے کہا کہ اپنے بچوں بچیوں کو اسکول میں بھیجو کہ وہ پڑھ لکھ کر آدمی کے بچے بنیں۔ مگر انھوں نے صاف انکار کر دیا کہ کیسا اسکول کیسی تعلیم۔ ہمارے بچے اچھے بھلے کام سے لگے ہوئے ہیں۔ انھیں کام سے لگا رہنے دو۔

مگر رضیہ سلطانہ تو سچ مچ کی رضیہ سلطانہ نکلی۔ کیا کیا جتن کر کے وہ اپنے نا سمجھ ماں باپ کے پھندے سے نکلی اور اسکول میں داخلہ لے لیا۔ وہاں اس نے تیزی سے پڑھ لکھ کر ایسا ہنر دکھایا کہ وہاں جو بچوں کی ایک پنچایت بچہ پارلیمنٹ کے نام سے قائم ہوئی اس کی وہ صدر چنی گئی۔ کوشش کر کے کتنے بچوں کو اس نے ’چائلڈ لیبر‘ کے جال سے رہائی دلائی اور تعلیم کی راہ پر لگایا۔ واہ واہ شاباش لڑکی واہ واہ تو جواں مردوں سے بازی لے گئی۔ حتی کہ ملالہ کے طفیل تیرا بھی نام چمکا اور اقوام متحدہ سے تو نے کتنا بڑا انعام حاصل کر لیا۔ اور ہندوستانی مسلمانوں کو ایک فخر کا موقعہ دیا۔ فخر سا فخر۔ عجب ثم العجب ع

ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں تھی

اب ہماری حیرت کا سبب سنو۔ اب سے پہلے متحدہ ہندوستان میں جب مسلمانوں میں تعلیم نسواں کی تحریک شروع ہوئی تھی تو وہ خاص طور پر تین بڑے شہروں میں اس کا چرچا تھا… مسلمانوں کا تعلیمی شہر علی گڑھ۔ دلی۔ لاہور۔ سرسید احمد خان تو لڑکوں کی تعلیم پر آ کر رک گئے تھے۔ ان کے ایک مرید تھے شیخ عبداللہ۔ شیر کشمیر شیخ عبداللہ نہیں۔ ویسے یہ شیخ عبداللہ بھی کشمیری ہی تھے۔ سری نگر سے نکل کر لاہور ہوتے ہوئے علی گڑھ پہنچے۔ پھر وہیں کے ہو رہے۔ انھوں نے مرشد سے بڑھ کر قدم اٹھایا اور یہ ٹھانی کہ صرف لڑکے ہی کیوں تعلیم حاصل کریں۔ لڑکیاں تعلیم کے زیور سے کیوں محروم رہیں۔

اس تحریک کو کچھ بااثر خواتین کی بھی حمایت حاصل ہو گئی مثلاً عطیہ فیضی مولانا ابوالکلام آزاد کی بہنیں آبرو بیگم اور فاطمہ بیگم۔ اور سب سے بڑھ کر بیگم بھوپال۔ اور لو کسی شاعر نے ایک شعر لکھ کر انھیں ایک نعرہ دیدیا ؎

اصلاح قوم آپ کو منظور ہے اگر
لڑکوں سے پہلے ماؤں کو تعلیم دیجیے

مگر اب یہ کیسا انقلاب ہے کہ ادھر ہندوستان میں علی گڑھ بھی خاموش ہے اور دلی بھی جامعہ ملیہ کے باوصف خاموش ہے۔ ادھر لاہور‘ کراچی اور اسلام آباد کی تعلیم یافتہ خواتین بھی پیچھے رہ گئیں۔ دور افتادہ مقامات سے کمسن لڑکیاں نکل رہی ہیں۔ سوات سے ملالہ۔ ادھر ہندوستان میں میرٹھ کے ایک گاؤں کے رضیہ سلطانہ۔ بڑوں سے مایوس ہو کر اب ہم دور افتادہ پسماندہ بستیوں سے نمودار ہونے والی بچیوں کی طرف پر امید نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ علامہ اقبال نے تو اپنے جوانوں سے امیدیں وابستہ کی تھیں ؎

محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند

لیکن اب جوان پیچھے رہ گئے۔ معمولی گھرانوں سے نکلی ہوئی کمسن لڑکیاں ستاروں پہ کمند ڈال رہی ہیں۔ اب امید بھری نظریں ان پر مرکوز ہیں ع
معلوم نہیں دیکھتی ہے تیری نظر کیا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔