سندھ کو پیچھے دھکیلنے کی کوشش

نصرت جاوید  جمعرات 18 جولائی 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

میں نے ممتاز بھٹو صاحب کو ہمیشہ دور سے دیکھا ہے۔ کبھی ان سے ملاقات کا شرف حاصل نہیں ہوا۔ 1975ء میں جب اسلام آباد منتقل ہوا تو وہ سندھ کے وزیر اعلیٰ نہیں رہے تھے۔ اس صوبے میں لسانی فسادات کے بعد وزیراعظم نے انھیں وفاقی کابینہ میں شامل کر لیا تھا اور وہ کبھی کبھار اسلام آباد کے ایک مہنگے ہوٹل میں دوستوں کے ساتھ کھانا کھایا کرتے تھے۔

جنرل ضیاء کا مارشل لاء لگا تو وہ کچھ برسوں بعد علاج کروانے کے نام پر لندن منتقل ہو گئے۔ اپریل 1986ء میں جب محترمہ بے نظیر بھٹو نے وطن لوٹ کر جمہوریت کی بحالی کے لیے جدوجہد کرنا چاہی تو انھوں نے سردار مینگل وغیرہ کے ساتھ مل کر لندن کے اخباروں کے لیے طویل مضامین لکھے جن میں اس بات پر زور دیا جاتا کہ پاکستان میں جمہوریت کی بحالی اصل مسئلہ نہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس ملک کے چاروں صوبے ایک فیڈریشن میں اکٹھے رہ بھی سکتے ہیں یا نہیں۔ ان کا یہ خیال تھا کہ پاکستان کو صرف کنفیڈریشن کے ذریعے ہی متحد رکھا جا سکتا ہے۔ پاکستان لوٹنے کے بعد وہ اس کنفیڈریشن کے قیام کے لیے کچھ جلسے وغیرہ کرتے اور لمبے چوڑے بیانات دیتے رہے۔

میں نے آخری بار انھیں 1995ء میں کراچی ایئرپورٹ پر دیکھا تھا۔ ایک صحافتی کام کے سلسلے میں لاڑکانہ جا رہا تھا۔ مجھے ایئرپورٹ پر لاڑکانہ کے ایک مقامی صحافی مل گئے اور ان کی وساطت سے اس شہر کے رہنے والے چند نوجوان بھی۔ ہم آپس میں جلد ہی بے تکلف ہو کر باہمی ہنسی مذاق میں مصروف ہو گئے تو اچانک ممتاز بھٹو ہال میں داخل ہوئے۔ انھیں دیکھتے ہی ان نوجوانوں کی تقریباً گِھگی بندھ گئی۔ سارے بڑے عجلت میں ان کی طرف لپک کر بڑھے اور ان کے گھٹنوں کو سر جھکا کر چھونا چاہا۔ ممتاز بھٹو بڑی بے اعتناعی سے تھوڑا رُک کر آگے بڑھ گئے۔ پتہ نہیں کیوں مجھے یہ منظر کوئی بھلا نظر نہ آیا۔

اس منظر کو دیکھتے ہی مجھے یاد آ گیا کہ میں ایک دن سندھ کے مرحوم وزیر اعلیٰ جام صادق علی کے اسلام آباد والے گھر میں ان کے ساتھ اکیلا بیٹھا تھا اور ضد کر کے جاننا چاہا رہا تھا کہ انھوں نے 1970ء کی دہائی میں صوبائی وزیر کے طور پر ممتاز بھٹو اور غلام مصطفیٰ جتوئی کے ساتھ کام کیا تھا۔ ان دونوں کے اندازِ حکمرانی میں کیا فرق تھا۔ اپنی حیثیت میں خود ایک بڑے نام والے خاندان کے جام صادق علی بادشاہ آدمی تھے۔ غلام مصطفیٰ جتوئی کو انھوں نے ایک بڑا شریف انسان مگر بہتر منتظم قرار دیا۔ مگر ممتاز بھٹو کے بہت سارے قصے مزے لے لے کر سناتے رہے۔ سب سے زیادہ مزے کی کہانیاں وہ تھیں جہاں ممتاز صاحب کو کسی کا بڑا نسلی کتا پسند آ جاتا اور وہ جام صاحب کو اس کے حصول پر مامور کر دیتے اور جام صاحب کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ انھیں لوگوں کو کسی بھی بات پر آمادہ کرنے کے سارے گُر آتے تھے۔

سردار فاروق خان لغاری مرحوم نے جب محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت برطرف کی تو اس کے بعد ہونے والے انتخابات سے چند روز پہلے غالباً 5 جنوری 1997ء کو انھوں نے کچھ صحافیوں کو اپنے ہاں مدعو کیا۔ میں بھی وہاں موجود تھا۔ اس دن لغاری مرحوم ہمارے سامنے اپنا دل کھول کر رکھتے نظر آ رہے تھے۔ میں نے موقعہ سے فائدہ اُٹھا کر جاننا چاہا کہ انھوں نے بے نظیر بھٹو کو فارغ کرنے کے بعد سندھ کو ممتاز بھٹو کے حوالے کیوں کر دیا۔ جواباََ اس وقت کے صدر نے صرف اتنا کہا کہ ’’پیپلز پارٹی سندھ میں انتخابات کے دوران بڑی بدمعاشی کرتی ہے۔ اسے صرف ممتاز بھٹو ہی قابو کر سکتا ہے۔‘‘

ممتاز بھٹو لوگوں کو اپنے قابو میں کیسے رکھ پاتے ہیں اس کا تھوڑا سا اندازہ مجھے ان دنوں ہوا جب میں جنرل مشرف کے رچائے ریفرنڈم کے دنوں میں دو دن لاڑکانہ میں رہا۔ وہاں پیپلز پارٹی کے کئی ازلی مخالفین نے مجھے ممتاز بھٹو کی ’’دہشت‘‘ کے بارے میں بھی بہت ساری کہانیاں سنائیں۔ بہرحال مجھے اس کالم میں ممتاز بھٹو کی ’’دہشت‘‘ کو اُجاگر نہیں کرنا۔ میرے لیے اہم بات یہ ہے کہ نواز شریف صاحب اور ان کی جماعت آج کل آصف علی زرداری کا متبادل ڈھونڈ رہی ہے۔

فضاء کچھ اس طرح کی بن رہی ہے کہ نیا صدر بھی سندھ سے منتخب کروایا جائے۔ سید غوث علی شاہ اس حوالے سے بہت تگڑے امیدوار سمجھے جا رہے تھے۔ مگر شاید ان کی انکساری اور گوشہ نشینی مسلم لیگ نواز کے ان لوگوں کو پسند نہیں آ رہی جو پنجابی والے ’’گج وج‘‘ کے ساتھ راج کرنا چاہ رہے ہیں۔ ’’کھڑاک‘‘ پیدا کرنے کے خواہاں مشیر ممتاز بھٹو کو پروموٹ کر رہے ہیں۔ ان کے مسلم لیگی پرستاروں کو شاید گمان ہے کہ ممتاز بھٹو ایوانِ صدر چلے گئے تو آصف علی زرداری پاکستان میں رہے بھی تو نواب شاہ اور کراچی تک محدود ہو جائیں گے۔ لاڑکانہ جانے سے گھبرائیں گے۔ ایسا ہو گیا تو’’ادھی فریال‘‘بھی شاید بتدریج بھٹو کے شہر پر اپنا سیاسی کنٹرول ختم کرنے پر مجبور ہوجائیں گی۔ ان کی جگہ ’’بھٹو کے اصلی وارث اپنا حق پا لیں گے۔‘‘ یہ تو ظاہر سی بات ہے کہ پدری نظام کے اصولوں کے مطابق ’’بھٹو کے اصل وارث‘‘ بلاول نہیں ذوالفقار جونیئر یا فاطمہ بھٹو ہو سکتے ہیں۔

میں ذاتی طور پر کسی شخص کے خاندانی شجرے کو سامنے رکھ کر اس کی سیاست کا جائزہ لینے سے قاصر ہوں۔ درباری سیاست میں یہ کام کرنے کے لیے ایک مخصوص قوم صدیوں سے ہمارے خطے میں موجود ہے۔ مجھے تو افسوس صرف اس بات کا ہے کہ سندھ سے پاکستان کا آیندہ صدر چنتے ہوئے ہمارے رائے ونڈ والے بادشاہ گر یہ کیوں طے کر بیٹھے ہیں کہ سندھ میں صرف وڈیرے ہوتے ہیں یا ان کے ہاری۔ درمیان کا کوئی طبقہ موجود نہیں اور اگر موجود بھی ہے تو اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ اس کالم میں بڑے عرصے سے بہت تواتر کے ساتھ میں یاد دلاتا رہتا ہوں کہ سندھ میں صرف کراچی اور حیدر آباد ہی نہیں اور بھی کئی سارے شہر اور قصبے ہیں۔ وہاں رہنے والوں کی سوچ بھی پاکستان کے دوسرے شہروں اور قصبوں میں رہنے والوں جیسی ہے۔ سیاسی شعور تو شاید ان میں باقی پاکستانیوں سے کہیں زیادہ ہے۔ نواز شریف او ر ان کی جماعت کو اب اس شعور اور ان کے دلی جذبات کو دریافت کر لینا چاہیے۔ اسلام آباد تیسری مرتبہ آکر سندھ کو 1990ء کی دہائی میں دھکیلنا بڑی زیادتی کی بات ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔