صوبائی حکومت کا مسئلہ؟

جمیل مرغز  بدھ 23 جنوری 2019

سابقہ کالم میں 18ویں ترمیم پر بعض حلقوں کے تحفظات کا جائزہ لیا گیا تھا ‘آج اس مسئلے کا ایک الگ نقطہ نظر سے جائزہ لینے کی کو شش کریں گے ‘یہ بات بھی کی جا رہی ہے کہ صوبوں کی صلاحیت کم تھی اور ان کو اختیارات زیادہ مل گئے ہیں‘یہ دانشور اور سیاست دان صوبوں کی محبت میں یہ بات نہیں کر رہے بلکہ ان کے دل میں چور ہے۔

اصل سوال یہ ہے کہ مرکزیت پسند حضرات کو صوبوں اور خاص کر اٹھارویں ترمیم سے کیا پریشانی ہے؟میرے خیال میں چند مسائل ایسے ہیں جو مضبوط مرکز کے حامیوں کو منظور نہیں ہیں‘ان میں تعلیم کا مسئلہ خاص کر مطالعہ پاکستان اور پاکستان کا نظریاتی تشخص ‘صوبوں کاC NFایوارڈ میں حصہ بڑھانا ‘جس کی وجہ سے مرکز میں دفاع اور دیگر غیر پیداواری  اخراجات کے لیے رقم کم پڑ گئی ہے۔تیسرے ”Unity of Command”کا طریقہ کار اور فلسفہ۔

ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ملک کے حکمران طبقات کو کسی طور چین نہیں آرہا‘جمہوریت ہو تو ان کو مارشل لاء اور ٹیکنوکریٹ حکومت یاد آتی ہے ‘پارلیمانی نظام ہو تو ان کو صدارتی نظام پسند ہوتا ہے ‘بڑی مشکلوں سے صوبوںکو کچھ حقوق ‘وفاقیت کے اصولوں کے تحت ملے ہیں تو اب ان کو سالمیت پاکستان کی ضمانت ’’مضبوط مرکز اور کمزور صوبوں‘‘ میں نظر آتی ہے‘خدا ان کے دلوں کو چین نصیب کرے ‘تاکہ یہ جمہوری نظام کو چلنے دیں ۔

اس وقت پاکستان کے سیاسی اور باخبر حلقوں میں یہ افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ نہ صرف اٹھارویں آئینی ترمیم کو ختم کیا جا رہا ہے بلکہ پاکستان میں ایک دفعہ پھر موجودہ پارلیمانی نظام کی جگہ صدارتی نظام حکومت قائم کرنے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے ‘ان تبدیلیوں کے لیے بعض حلقے جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف کی طرح کے ریفرنڈم کی خبریں بھی دے رہے ہیں‘بلکہ ایک دوست نے تو 2019کو پارلیمانی نظام اور اٹھارویں ترمیم کے خاتمے کا دعوے بھی کیا ہے۔بعض تجزیہ نگار تو یہ دلیل دے رہے ہیں کہ چونکہ پارلیمنٹ نے تبدیلی لانی ہے اور وہاں حکومت کو مطلوبہ دو تہائی اکثریت حاصل نہیں ہے اس لیے تبدیلی نا ممکن ہے ۔

یہ سادہ لوح دوست ماضی سے سبق حاصل نہیں کرتے۔یہاں کون سی تبدیلی آئینی طریقے سے آئی ہے ‘ہمارے آئینی ادارے ان آمرانہ اور غیر آئینی اقدامات کا کیا بگاڑ سکے ہیں‘ جو اب بگاڑ سکیں گے۔ایک دوست نے بڑا اچھا تجزیہ کیا ہے کہ اسٹبلشمنٹ کو ایک دفعہ پھر ملک کا نظام بدلنے کی سوجھی ہے‘تحریک انصاف کے سلیکشن کا مقصد ہی اس منزل کا حصول ہے‘ عمران خان اور ان کے وزراء اور مشیر جس طرح محنت سے مسلسل حزب اختلاف کے ساتھ محاذ آرائی کے ذریعے حالات کو بگاڑنے کی کوشش کر رہے ہیں ‘ادھروزیر اعظم نے پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کیا ہواہے ‘یہ سب اس لیے کہ کل کوئی عقل کل آکر اعلان کردے کہ ’’ میرے عزیز ہم وطنو!آپ نے دیکھ لیا کہ پیپلز پارٹی‘مسلم لیگ کے بعد اب تحریک انصاف کی حکومت بھی نہیں چل سکی اور نہ ہی مسائل حل کرسکی ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے پارلیمانی نظام میں یہ صلاحیت نہیں کہ وہ مسائل حل کرسکے‘اس لیے ہمارے پاس اور کوئی راستہ نہیں کہ ملک کے بہترین مفاد میں آئین کو معطل کرکے کچھ عرصے کے لیے نیا نظام لایا جائے اور ملک میں رائج ناکام پارلیمانی نظام کوبہترین صدارتی نظام میں بدلا جائے‘اس مقصد کے ریفرنڈم کے ذریعے عوام کی رائے معلوم کی جائے گی ‘صدارتی نظام کی مندرجہ ذیل خوبیاں ہیں‘‘۔اس اعلان کے فوراً بعد ہمارے سادہ لوح عوام سڑکوں پر نکل کر ناچیں گے اور شام کو حلوہ کی دیگیں پکائیں گے ‘یہ الگ بات کہ چند سال بعد اسٹبلشمنٹ پھر سیاسی پارٹیوں کو حکومت بنانے کی دعوت دے گی‘ جس طرح ماضی میں ہوتا رہا ہے۔خیر یہ تو بیچ میں بحث ذرا لمبی ہوگئی ‘اٹھارویں ترمیم کے سلسلے میں موجودہ حکومت کے اہم افراد کے بیانات مسلسل آرہے ہیں‘ وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ’’18ویں ترمیم وفاق پر ایک بوجھ ہے‘‘۔وفاقی وزیر اطلاعات جو حکومت کے ترجمان بھی ہیں نے کہا ہے کہ 18ویں ترمیم پر نظر ثانی ہو سکتی ہے ‘اسٹبلشمنٹ کے حلقوں کی طرف سے اس ترمیم کے بارے میں منفی رائے کا اظہار کیا جا چکا ہے۔

آئیے ذرا 18 ویں ترمیم کی مخالفت کی وجوہات پر نظر ڈالیں۔18ویں ترمیم کے تحت سب سے بڑی تبدیلی جو حکمرانوں کو گراں گزری ہے وہ تعلیم کے شعبے کو مکمل طور پر صوبوں کی تحویل میں دینا ہے۔تعلیم کا شعبہ شروع سے صوبائی دائرہ اختیار میں دیا گیا تھا ‘اس عمل میں جو خامیاں تھیں وہ 18ویں ترمیم کے تحت دور کر دی گئیں‘اس میں سلیبس (Carriculum) کا شعبہ بھی صوبوں کے حوالہ کرنے کا مسئلہ سب سے زیادہ متنازع بنادیا گیا ہے‘ حکمران چاہتے ہیں کہ یکساں نظام تعلیم اور کورس کی تدوین کا اختیار ان کے پاس ہو ‘ایک ریٹائرڈ جنرل صاحب کا انٹرویو پڑھا ‘ان کا کہنا تھا کہ ’’تعلیم کا شعبہ صوبوں کو دینے سے ملک انتشار کا شکار ہوجائے گا۔

صوبے تعلیم کے کورس میںسیکولر اور نیشنل ازم جیسے مسائل لاکر ملک کا اسلامی تشخص اور نظریہ پاکستان کو ختم کردیں گے‘‘۔یہ حقیقت ذہن میں رکھنی چائیے کہ موجودہ صوبے بعض استثناء کے ساتھ ان قومیتوں پر مشتمل ہیں جو ہزاروں سالوں سے  یہاں آباد ہیں‘ان صوبوں کی اپنی تاریخ ہے اور ان کے اپنے ہیرو ہیں۔پاکستان کے حکمرانوں نے قومیتوں کی تاریخ اور ان کے ہیروز کو تعلیم سے نکال دیاہے‘مطالعہ پاکستان کے نام سے جو کچھ پڑھایا جاتا ہے ‘وہ عجیب ہے۔

انگریزی سامراج اور اس سے قبل مغل حکمرانوں کے خلاف آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والے قومی ہیروز کا ذکر نہیں ہے‘ صرف مسلم لیگ نے تو سامراج سے آزادی کی جنگ نہیں لڑی تھی ‘چھوٹی قومیتوں کے بہت سے رہنماء بھی اس جنگ میں شامل تھے ‘پختون علاقے جنگ آزادی کی اصلی میدان تھے لیکن سرکاری تاریخ میں‘ فقیر ایپی‘عمرا خان جندول‘حاجی  صاحب ترنگ زئی‘کاکاجی صنوبر حسین ‘خوشحال خان کا کا‘ مولانا عبدالرحیم پوپلزئی اور دیگر مجاہدین آزادی کا ذکر تو کیا باچا خان‘عبدالصمد خان اور خدائی خدمتگار تحریک کا بھی ذکر نہیں‘پنجاب کے دلا بھٹی،علامہ مشرقی، بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں سمیت بہت سے ہیروز کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔

عجیب بات یہ ہے کہ تحریک پاکستان کے رہنماؤں کو بھی تاریخ سے خارج کردیا گیا ہے جیسے کہ سندھ کے جی ایم سیّد‘بنگال کے بھاشانی اور سہروردی وغیرہ ‘آخر تاریخ کے ساتھ یہ مذاق کیوں کہ ہمیں پڑھایا گیا کہ سکندر اعظم نے ہندو راجہ پورس کو شکست دی ‘یونان کے الیگزنڈر کو خواہ مخوا سکندر بناکر ہیرو بنانے کی کوشش کی گئی۔ سراج الدولہ اور ٹیپو سلطان سمیت دوسرے سامراج دشمنوں کی بہادری اور شخصیت کی تعریف بجا مگر دوسروں کو نظر انداز کرنا کیا معنی رکھتی ہے؟۔تمہی بتاؤ کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے؟‘اس کے علاوہ پاکستان کو بنانے کا بنیادی مقصد قائد اعظم نے اپنے 11اگست 1947کی تقریر میں فرما دیا تھا‘انھوں نے واضح طور پر ایک فلاحی اور سیکولر پاکستان کی بات کی تھی ‘اس تقریر کو سنسر کرکے بلیک آؤٹ کردیا گیا ہے اور خواہ مخواملک پر قرار داد مقاصد نافذ کردیا گیا۔

اب خوف ہے کہ کہیں یہ سارا سچ صوبے اپنی تعلیمی نصاب میں شامل نہ کرلیں۔مسلم لیگ کے علاوہ کمیونسٹ پارٹی ‘بھار ت نوجوان سبھا ‘مزدوروں‘ کسانوں‘کرانتی دل‘خدائی خدمت گار تحریک کے علاوہ خیبرپختونخوا کے پہاڑوں اور قبائلی علاقوں میں لڑنے والے مجاہدین آزادی کو نظر اندا زکرکے یکساں نظام تعلیم کے نام پر فراڈ کیا جا رہا ہے ‘یکساں نظام تعلیم کا کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ‘اسلامی تعلیمات ‘ سوشل اور فزیکل سائنس میں کوئی اختلاف نہیں ہے اور نہ ہی مرکز نے کوئی نیا فارمولا ایجاد کیا ہے ‘اختلاف کی بنیاد نظریاتی اور تا ریخ کا تصور ہے ‘ہر قومیت کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنی قومی تاریخ سے اپنی آیندہ نسل کو آگاہ کرے ‘اس سے پاکستان کی سالمیت کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا‘مرکز بڑی خوشی سے سماجی اور فزیکل سائنس کو پورے پاکستان پر نافذ کرے ’کس نے روکا ہے؟۔آخر جغرافیہ‘ اکنامکس‘سیاسیات‘ لسانی مضامین‘فزکس ‘کیمسٹری ‘بیالوجی ‘ معدنیات کے مضامین میں کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟۔

اسی طرح ملک کے حقیقی مقتدر حلقوں کی طرف سے اس ترمیم کے بارے میں منفی رائے کا اظہار کیا جا چکا ہے ‘اس ترمیم کے ذریعے کنکرنٹ لسٹ ختم کرکے بہت سے محکمے صوبوں کے اختیار میں دے کر صوبوں کے دائرہ اختیار کو بڑھا دیا گیا ہے ‘اس طرح ٹیکسوں سے وصول ہونے والی کل آمدنی سے صوبوں کو ملنے والا حصہ بڑھ گیا ہے ‘اس کی وجہ سے مرکز اور مرکز کے تحت چلنے والے چند محکمے خصوصاً دفاع‘ مالی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں‘ان کی طرف سے صوبوں کو پہلے کے مقابلے میں زیادہ فنڈز ملنے کی مخالفت کی جا رہی ہے‘ حالانکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ مرکزی محکمے اپنے اخراجات میں کمی کریں۔

خاص کر ایٹمی صلاحیت کے بعد اسلحے کی دوڑ کی کوئی ضرورت نہیں‘اب اختیارات صوبوں سے بھی نیچے تقسیم ہونا چائیے۔اس ترمیم سے جنرل ضیاء اور جنرل مشرف کی طرف سے آئین کی بگڑی شکل کو بھی پارلیمانی بنایا گیا ہے ‘یہ تبدیلیاں بھی بعض عناصر کے عزائم کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں‘خاص کر صدارتی نظام کے حامی بڑے بے چین ہیں۔اب تو 1973کے آئین میں مزید وفاقیت کی ترامیم کی ضرورت ہے ‘اسی لیے نئے عمرانی معاہدے کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے ‘اب جمہوریت دشمن عناصر کو آئین اور جمہوریت کے ساتھ مزید مذاق بند کرنا چائیے ورنہ 1971کے حادثے کو تاریخ کی کتابوں سے نکالنے سے حقیقت تبدیل نہیں ہوسکتی یاد رہے کہ صوبے مرکز کی پیداوار نہیں بلکہ ان  صوبوں کی منظوری سے پاکستان وجود میں آیا ہے‘ اس لیے بھی ماں کے حقوق زیادہ ہوتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔