خون ِخاک نشیناں

عبدالقادر حسن  بدھ 23 جنوری 2019
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

دو روز سے کچھ سمجھ نہیں آرہا، نہ تو اخبار پڑھنے کو دل کر رہا ہے اور نہ ہی ٹیلی ویژن دیکھنے کو طبیعت مائل ہو رہی ہے، ذہن ماؤف ہے جب بھی میری دونوں پوتیاں ہنستی مسکراتی میرے پاس سے گزرتی ہیں یا مجھ سے اپنے معصومانہ سوال اور خواہشات بیان کرتی ہیں تو میری آنکھوں کے سامنے ان دونوں بچیوں کی تصاویر آجاتی ہیں جو ابھی کل پرسوں کے اخبار میں شایع ہوئی ہیں اور وہ دونوں معصوم بچیاں شادی کی خوشی میں خوبصورت گرم اور نرم کپڑے پہنے بیٹھی ہیں اور اس بات سے بے خبر ہیں کہ ان کی دنیا لوٹ لی گئی ہے، جن نرم اور شفیق ہاتھوں نے وہ کپڑے ان کو پہنائے تھے۔

ان کو سجایا سنوارا تھا، ان کی پونیاں بنائیں تھیں اور تیاری کے بعد پیار بھری نظروں سے ان کو دیکھا تھا وہ شفیق ہاتھ اور پیار کی وہ آنکھیں ان سے کہیں بہت دور چلی گئی ہیں اور ان شفیق ہاتھوں کا لمس وہ اب زندگی بھر محسوس نہیں کر سکیں گی۔ انھی شفیق ہاتھوں نے ان پھول سی معصوم بچیوں کو کتنے پیار اور چاؤ سے شادی میں شرکت کے لیے تیار کیا ہو گا اور ہنسی خوشی ایک دوسرے کی گود میں شرارتیں کرتے ان کا سفر جاری تھا جو شادی کے ان مسافروں کا آخری سفر شمار ہوا۔

ماں کی محبت اور چاہت اور مامتا کے انمول جذبے نے جس طرح ان معصوم بچیوں کی پیدائش سے پہلے اپنے پیٹ میں حفاظت کی ان کی خاطر اپنا آرام تیاگ دیا، ان کی پیدائش کے بعد ان کی چھوٹی چھوٹی خواہشوں پر اپنا سب کچھ نچھاور کر دیا۔

ان کے مستقبل کے لیے اپنے دل میں کیسے کیسے خواب سجائے مگر جب وقت آیا تو وہ سب خواب اور خواہشات چند لمحوں میں ان وحشی درندوں نے چکنا چور کر دیے جو ہمارے ہی ٹکڑوں پر پل رہے ہیں، عوام کے ٹیکسوں کے پیسے سے ان کو تنخواہیں ادا کی جا رہی ہیں تا کہ وہ عوام کے مال و جان کا تحفظ کریں لیکن جب محافظ ہی درندگی پر اتر آئیں تو عوام کیا کریں تو وہ صرف یہی فریاد کر سکتے ہیں کہ پیسے لے لو ہمیں مت مارو کیونکہ ان درندوں کو عوام جانتے ہیں کہ ان کا اوڑھنا بچھوڑنا سب پیسہ ہے، اس لیے اپنے بچوں کی حفاظت کے لیے مجبور باپ نے ان درندوں سے آخری اپیل یہی کی کہ جو چاہے لے لو لیکن ہمیں مت مارو مگر اس مجبور اور بے بس باپ کی بات پر ان درندوں نے کان تک نہ دھرے اور اندھا دھند گولیاں برسا دیں جو ان بے گناہ پاکستانیوں کے جسموں کے آر پار ہو گئیں۔

ایک بچی کو سب سے زیادہ گولیاں لگیں کیونکہ وہ بچی بڑی تھی اور ماں کی نرم اور گرم آغوش اس کو اپنے اندر سمیٹے سے قاصر تھی لیکن دو چھوٹی معصوم بچیاں اور بیٹے کو ماں نے اپنی آغوش میں چھپا لیا اور خود گولیاں کھا کر اپنی جان اپنے بچوں پر نچھاور کر گئی۔ مامتا نے سردیوں کے ٹھنڈے موسم میں اپنی پھول سی بچیوں کو ان درندوں سے بچانے کے لیے اپنی گرم آغوش میں چھپا لیا۔ ماں جیت گئی درندے ہار گئے لیکن ان درندوں کو بچانے کے لیے فوراً مزید درندے میدان میں کود پڑے ہیں اور اب مختلف تاویلیں کی جا رہی ہیں، حکومت ان درندوں کو بچانے کے لیے ڈرائیور کو دہشت گرد قرار دے رہی ہے، اگر صرف ڈرائیور ہی دہشت گرد تھا تو اس کے ساتھ باقی خاندان کا کیا قصور تھا۔ حکومت متاثرہ خاندان کے لیے کروڑوں کی امداد کا اعلان کر رہی ہے کیا یہ کروڑ وں روپے ماں باپ کا نعم البدل ہو سکتے ہیں۔

کیا ان بچیوں کے دل و دماغ سے وہ منظر ختم کیا جا سکتا ہے جب ان کے سامنے ان کے بابا، ماں اور بڑی بہن کو گولیوں سے بھون دیا گیا کیا یہ منظر وہ زندگی بھر بھلا پائیں گے۔ ایسے ہی کئی سوال ہیں جو سامنے کے ہیں لیکن ان کا جواب کسی کے پاس بھی نہیں۔

ہمارے وزیر اعظم اس واقعے پر صدمے میں ہیں اور افسردہ ہیں وہ اس ملک کے چیف ایگزیکٹو ہیں ان کی ذمے داری شہریوں کو تحفظ فراہم کرنا بھی ہے ان کے مال و جان کی حفاظت بھی ہے لیکن جناب وزیر اعظم صرف صدمے سے کام نہیں چلے گا اس طرح کے صدموں سے بچنے کے لیے آپ کو عملی اقدامات کرنا ہوں گے آپ جس تحریک کے بانی ہیں اس کا نام ہی انصاف ہے اور پاکستان کے عوام نے آپ کو ووٹ آپ کی ملک کے لیے مخلصانہ شخصیت کو مدنظر رکھ کر دیے ہیں سیاست کا بازار تو چلتا ہی رہتا ہے اس میں آپ کے ساتھی بہت ہیں لیکن عوام ایسے ساتھی ہیں جنہوں نے آپ کو اس منصب تک پہنچایا ہے اور یہ ساتھی اب آپ سے اپنے ووٹوں کا حساب مانگتے ہیں۔ یہ دردناک واقعہ ہمارے وزیر اعظم اور ان کی حکومت کے لیے ایک ٹیسٹ کیس بھی ہے۔

اس سے پہلے گزشتہ حکومت میں ماڈل ٹاؤن میں جس بربریت کا مظاہرہ کیا گیا تھا اگر اس واقعے کے ملزموں کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا جاتا تو آج وقوع پذیر ہونے والے اس طرح کے کئی واقعات سے بچا جا سکتا تھا لیکن ہر اہم موقع پر مصلحتیں آڑے آ جاتی ہیں اور بڑے لوگ کٹہروں میں کھڑے ہونے سے بچ جاتے ہیں جس کا نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ ہمارے گاؤں میں جب کبھی فضاء دھندلی ہوتی تھی یعنی گرد آلود ہوتی اور یہ گردو غبار کچھ وقت کے لیے فضاء میں موجود رہتا تو ہمارے بزرگ مرد اور خواتین یہ کہتے کہ اللہ خیر کرے کہیں نہ کہیں کوئی بے گناہ قتل ہو گیا ہے جس کی وجہ سے آسمان بھی گرد آلود ہو گیا ہے۔

آج میں یہ دیکھتا ہوں کہ بے گناہوں کی ایک طویل فہرست جو قتل ہو رہے ہیں اور ان بے گناہوں کا قتل گرد آلود فضاء کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے لیکن ہم ان بے گناہ قتلوں سے کوئی سبق حاصل نہیں کر رہے اور ابھی یہ بھی معلوم نہیں کہ اور کتنے بے گناہ قتل ہونے جا رہے ہیں اللہ تعالیٰ ہم پر رحم کریں تا کہ پاکستان کی گرد آلود فضاؤں کا خاتمہ ہو۔

یہ خون ِ خاک نشیناں تھا رزق ِخاک ہوا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔