وردی کا مورال ضروری یا قانون کی بالادستی؟

مہتاب عزیز  جمعرات 24 جنوری 2019
جب ان کے ماما بابا اور بہن پر گولیاں چلائی گئیں ہونگی تو ان پر کیا گزری ہوگی۔ فوٹو: انٹرنیٹ

جب ان کے ماما بابا اور بہن پر گولیاں چلائی گئیں ہونگی تو ان پر کیا گزری ہوگی۔ فوٹو: انٹرنیٹ

یہ گزشتہ ہفتے کی بات ہے، بچوں نے بہت ضد کی کہ انہوں نے برف دیکھنی ہے۔ مری جانے کو دل نہیں مانتا۔ اس لیے گاؤں جانے کا پروگرام بنا لیا۔ بچوں نے خوب تیاری کی۔ راستے میں کھانے پینے کے لیے ڈھیر سارا سامان خرید لیا۔ ہنسی خوشی گپ شپ لگاتے سفر کٹ رہا تھا کہ کہوٹہ کے قریب سڑک پر پولیس کا ناکہ نظر آیا۔ عین ناکے پر پہنچے تو سپاہی نے اچانک رکنے کا اشارہ کر دیا۔ گاڑی کی رفتار آہستہ تھی لیکن پیچھے موجود گاڑی کو رستہ دینے کے لیے رُکتے رُکتے ناکہ پچاس ساٹھ قدم پیچھے رہ گیا۔

گاڑی سائیڈ پر پارک کرکے بیک مرر میں دیکھا تو پولیس اہلکار تیزی سے گاڑی کی جانب آ رہا تھا۔ معلوم نہیں کہ وہ بندہ ہی بہت مہذب تھا یا اُس نے گاڑی پر لگا ہوا چینل کا اسٹیکر دیکھ کر انتہائی مہذب رویہ اپنایا۔ قریب پہنچ کر سلام کرنے کے بعد کہا سر آپ نے کمپیوٹرائز نمبر پلیٹ نہیں لگائی ہوئی۔ اُسے بتایا کہ اس ماڈل کی نمبر پلیٹ ہی مینول آئی ہے، اب کمپیوٹرائزڈ جاری کی جا رہی ہیں لیکن ایکسائز آفس جانے کا وقت نہیں ملا، اس لیے نئی نمبر پلیٹ حاصل نہیں کر سکا۔ اُس نے کہا ’’کوشش کریں جلد تبدیل کروا لیں، تکلیف معاف! اللہ حافظ‘‘۔

ہمارے معاشرے میں پولیس کی شبیہ ہی اتنی گھناؤنی بن چکی ہے کہ پولیس وردی میں ملبوس ہر سپاہی اور افسر خونخوار دکھائی دیتا ہے۔ گاڑی آگے چلی تو میں نے محسوس کیا کہ بچے پہلے کی طرح چہک نہیں رہے، کچھ خاموش سے ہوگئے ہیں۔ میں نے ماحول خوشگوار بنانے کی بہت کوشش کی لیکن کم عمر بچے بار بار پوچھتے رہے کہ اگر پولیس ہمیں روک لیتی تو؟ کیا ہمیں جیل میں بند کر دیتے؟ برف باری سے لطف اندوز ہونے اور رات کا کھانا کھانے کے بعد کمبل اوڑھ کر بیٹھے تو اچانک چھوٹا بیٹا کہنے لگا ’’بابا آپ نے نمبر پلیٹ کیوں تبدیل نہیں کرائی؟ واپسی پر پولیس دوبارہ تو نہیں روک لے گی؟‘‘

میں سمجھا سمجھا کر تھک گیا کہ دیکھو پولیس صرف گندے لوگوں کو پکڑتی ہے، اچھے لوگوں سے تو پولیس والے بہت پیار سے بات کرتے ہیں۔ پولیس والے کبھی بھی کسی کو بلاوجہ تنگ نہیں کرتے۔ چھوٹے بچوں سے تو پولیس والے انکل بہت زیادہ پیار کرتے ہیں۔ جس نے غلط کام نہ کیا ہو اُس سے تو پولیس بہت عزت سے بات کرتی ہے۔ کوئی معمولی غلطی ہو بھی جائے تو پولیس کچھ نہیں کہتی۔ یا معمولی سا فائن کر دیتی ہے، جس طرح آپ کے اسکول میں غلطی پر فائن کیا جاتا ہے۔ میری پے در پہ وضاحتوں کے بعد بچے خاموش تو ہو گئے، لیکن صاف محسوس ہو رہا تھا کہ مطمئن ہرگز نہیں ہوئے۔

اب پرسوں سے بچے مسلسل مجھ سے پوچھ رہے ہیں کہ ساہیوال میں کیا ہوا؟ کیا وہ واقعی بُرے لوگ تھے، اس لیے پولیس نے انہیں مارا ہے؟ آپ نے کہا تھا کہ پولیس والے بچوں کو پیار کرتے ہیں، اُس گاڑی میں تو چھوٹے بچے تھے، ایک بچی تو فیڈر پی رہی تھی۔ ان بچوں میں سے ایک کے ہاتھ اور دوسرے کی ٹانگ پر گولی لگی ہے۔ اُنہیں کیوں مارا ہے؟ ان سب نے کیا غلط کام کیا تھا جس کی وجہ سے پولیس نے انہیں مار دیا ہے؟ میرے پاس ان کے کسی سوال کا جواب نہیں۔ میری آئیں بائیں شائیں سے بچے مزید الجھ گئے۔

آج جب آفس کے لیے نکلنے لگا تو چھوٹے بیٹے بیٹی نے گاڑی کی چابی چھپا لی۔ کہنے لگے ’’بابا، آپ گاڑی لے کر نہ جائیں، بائیک پر چلے جائیں۔‘‘ میں نے کہا بیٹا ! آپ کو معلوم ہے باہر مسلسل بارش ہے، ایسے میں بائیک پر جاتے ہوئے بھیگ جاؤں گا۔ ویسے آپ کو کہیں جانا ہے جس کے لیے آپ کو گاڑی چاہئیے؟ کہنے لگے ’’نہیں بابا ہمیں کہیں نہیں جانا، گاڑی بھی نہیں چاہیے‘‘۔ پوچھا بیٹا! پھر آپ نے چابی کیوں چھپائی؟ بیٹا انتہائی معصومیت سے بولا ’’بابا آپ نے ابھی تک نمبر پلیٹ تبدیل نہیں کرائی، کہیں پولیس آپ پر بھی فائرنگ نہ کر دے۔ اس لیے آپ بائیک پر ہی آفس چلے جائیں‘‘۔

میری آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔ میں نے دونوں کو اٹھا کر گلے سے لگایا اور ماتھا چوما۔ کچھ بولا اس لیے بھی نہیں کہ میری رندھی ہوئی آواز سُن کر بچے مزید نروس نہ ہو جائیں۔ ویسے میرے پاس کہنے کو کچھ تھا بھی نہیں۔ خود اپنی یہ حالت ہے کہ ان بچوں کی یہ تصویر دیکھ کر آنسو روکے نہیں رُکتے۔ بار بار یہی خیال آتا ہے کہ ساہیوال کے اُن ننھنے بچوں نے بھی تو پولیس کے ظلم کی کہانیاں سُنی ہونگی۔ یہ بھی تو اپنے والدین سے ایسے ہی سوال کرتے ہونگے؟ ان کے ماما بابا بھی تو پولیس کے حوالے سے ان کا خوف دور کرنے کی اسی طرح کوشش کرتے رہے ہوں گے۔

پرسوں جب یہ اپنے گھر سے تیار ہو کر چاچو کی شادی میں شرکت کے لیے نکلے ہونگے تو کتنے خوش ہوئے ہونگے۔ انہوں نے بھی چپس کے پیکٹ، جوس کے ڈبے اور کولڈ ڈرنکس ساتھ لیے ہونگے۔ یہ بھی تو راستے میں ماما بابا کے ساتھ خوب چہک رہے ہوں گے۔ پھر جب پولیس نے ان کی گاڑی کو اچانک روکا ہوگا تو یہ کتنے سہم گئے ہونگے۔ جب ان کے ماما بابا اور بہن پر گولیاں چلائی گئیں ہونگی تو ان پر کیا گزری ہوگی۔ جب اپنی ماما کا گرم خون ان کے کپڑوں اور چہرے پر گرا ہوگا تو ان کی کیا کیفیت ہوئی ہوگی۔ جب بھائی کی ٹانگ اور بہن کے ہاتھ پر گولی لگی ہوگی تو یہ کتنا تڑپے ہونگے۔ جب انہیں والدین کے تڑپتے جسموں سے نوچ کر الگ کیا گیا ہوگا تو ان کی کیا حالت ہوئی ہوگی؟ جب انہیں پولیس موبائل میں ڈالا کر والدین سے دور لیجایا جا رہا تھا تو یہ کیا سوچ رہے ہوں گے؟ جب پولیس اہلکار انہیں زخمی حالت میں پیٹرول پمپ پر بے یار و مددگار چھوڑ کر فرار ہوئے تھے تو وہ ایک ایک پل کیسے گزارا ہوگا؟ اپنے زخموں کی تکلیف انہیں زیادہ محسوس ہوئی ہوگی یا والدین اور بہن کی موت کی اذیت؟ جب انہیں بار بار میڈیا نمائندوں کو اپنے والدین کے قتل کی کہانی سُنانا پڑی تو ان کی کیا کیفیت ہوئی ہوگی؟

سوچتا ہوں تو دماغ کی شریانیں پھٹنے لگتی ہیں۔ پورے وجود پر کپکی طاری ہو جاتی ہے۔ بے بسی اور غصہ آپس میں گڈمڈ ہو کر لاچاری کی حدیں پھلانگتے ہیں تو اس کیفیت کو کوئی بھی نام دینا ممکن نہیں رہتا۔ پھر خیال آتا ہے کہ صرف سوچ سوچ کر یہ حالت ہو رہی ہے۔ تو جن پر یہ سب بیت گیا اُن کی حالت کیا ہو گی۔ خلیل اور ذیشان کے بھائی، احباب اور رشتہ دار کس ناقابل بیاں اذیت و کرب میں ہوں گے۔ کیا ننھنے عمیر، منیبہ اور حادیہ کبھی یقین کر لیں گے کہ پولیس صرف گندے لوگوں کو مارتی ہے؟ کیا ان کا ریاست اور ریاستی اداروں پر کبھی اعتماد پیدا ہو سکے گا؟ عمیر، منیبہ اور حادیہ کی طرح میرے اپنے بچے اور میرے پاکستان کے دیگر لاکھوں بچے جو دو روز سے ظلم کی داستان دیکھ اور سُن رہے ہیں، کیا وہ یقین کر لیں گے کہ پولیس صرف گندے لوگوں کو مارتی ہے؟ اچھے لوگوں سے تو پولیس والے بہت پیار سے بات کرتے ہیں۔ پولیس والے کبھی بھی کسی کو بلاوجہ تنگ نہیں کرتے۔ چھوٹے بچوں سے تو پولیس والے انکل بہت پیار کرتے ہیں۔ جس نے کوئی غلط کام نہ کیا ہو اُس سے تو پولیس بہت عزت سے بات کرتی ہے۔

ان لاکھوں بچوں کو یقین نہ آیا تو ہماری اگلی نسل کا مائینڈ سیٹ کیا ہوگا ؟ وہ ریاست اور اس کے اداروں کے بارے میں کن خیالات کے حامل ہوں گے؟ آج حکومت، ریاست اور ریاستی اداروں کو سوچنا ہوگا۔ وردی والوں کے مورال کو بلند رکھنے کے لیے اُنہیں قانون اور جوابدہی سے ماورا مخلوق بنا کر رکھنا ہے، یا انہیں ان کے جرم کی قرار واقعی سزا دینی ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ باوردی اہل کاروں کا مورال بلند رکھتے رکھتے وہ نوبت آجائے جہاں عوام کی برداشت جواب دے جاتی ہے۔ ایک شاعر نے کہا تھا:

یقیناً یہ رعایا بادشاہ کو قتل کر دے گی
مسلسل جبر سے اسلم دلوں میں ڈر نہیں رہتے

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مہتاب عزیز

مہتاب عزیز

مہتاب عزیز صحافی، بلاگر اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹ ہیں۔ 16 سال سے صحافت سے تعلق ہے۔ مقامی اور بین الاقوامی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں خدمات سر انجام دی ہیں۔ ان دنوں ایک مقامی ٹی وی چینل سے تعلق ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔