’’اگلے پانچ سال بھی ہمارے ہیں‘‘

جاوید چوہدری  جمعرات 24 جنوری 2019
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

’’ہم نہ صرف یہ پانچ سال پورے کر لیں گے بلکہ ہم اگلے پانچ سال بھی لے لیں گے‘‘ ان کے لہجے میں یقین تھا‘ میں ان کے یقین پر حیران رہ گیا کیونکہ مجھے یہ لوگ مارچ کا مہینہ نکالتے بھی نظر نہیں آ رہے‘ میں نے ڈرتے ڈرتے عرض کیا ’’لیکن جناب حالات بہت خراب ہیں‘ بیورو کریسی کام نہیں کر رہی‘ ترقیاتی کام بند ہو چکے ہیں‘ مارکیٹ کا بھٹہ بیٹھ گیا ہے‘ معیشت کا پہیہ رک گیا ہے‘ ڈالر کے پاؤں میں ابھی تک استحکام نہیں آیا‘آپ ساڑھے پانچ ماہ میں دوسرا بجٹ لے آئے ہیں‘ نیسلے پاکستان میں خوراک کی سب سے بڑی کمپنی ہے‘ یہ 32 سال میں پہلی بار بحران کا شکار ہوئی۔

اس نے ساڑھے بارہ سو لوگ نکال دیے ہیں‘ ان کے دودھ جمع کرنے کے 1700 کولیکشن سینٹر تھے‘ یہ کم ہو کر ساڑھے گیارہ سو ہو گئے ہیں‘ نیسلے 80 فیصد مشینری اورخام مال درآمد کرتی ہے‘ ڈالر کے عدم استحکام کی وجہ سے یہ تمام درآمدات 20 فیصد مہنگی ہو چکی ہیں چنانچہ کمپنی کو دودھ میں گھاٹا پڑ رہا ہے‘ یہ مہنگا دودھ خرید کر سستا بیچ رہی ہے‘ نیسلے اگر دودھ کی قیمت بڑھاتی ہے تو لوگ کھلے دودھ کی طرف چلے جائیں گے اور یوں مارکیٹ کمپنی کے ہاتھ سے نکل جائے گی چنانچہ کمپنی مسلسل نقصان برداشت کر رہی ہے‘ کمپنی کے ملازمین نے بھی میڈیا ملازمین کی طرح دفتروں اور فیکٹریوں کے سامنے دھرنے دینا شروع کر دیے ہیں۔

یونی لیور اور شیل کے حالات بھی خراب ہو رہے ہیں لیکن آپ فرما رہے ہیں یہ پانچ سال بھی آپ کے ہیں اور اگلے پانچ سال بھی‘‘ وہ میری گفتگو کے دوران مسلسل مسکراتے رہے‘ میں خاموش ہوا تو وہ بولے ’’ آپ کو بہت جلد میری باتوں پر یقین آ جائے گا‘‘ میں تھوڑا سا تپ گیا اور میں نے ان سے عرض کیا ’’جناب ملک چلانے کے لیے ایک دو صنعتیں کافی ہوتی ہیں‘ حکومت ایک‘ دو یا تین صنعتوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے‘ یہ صنعتیں مدہانی کی طرح پورے معاشرے کو بلونا شروع کر دیتی ہیں‘ پیسہ سرکولیٹ ہوتا ہے‘ یہ ہر شخص تک پہنچتا ہے اور لوگ خوشحال اور مطمئن زندگی گزارنے لگتے ہیں‘ مثلاً آپ جنرل پرویز مشرف کے دور کو لے لیجیے‘ شوکت عزیز نے ملک میں ٹیلی کام انڈسٹری اور الیکٹرانک میڈیا کو کام کرنے کا موقع دیا‘ یہ دونوں انڈسٹریز آئیں‘ اربوں ڈالر پمپ ہوئے‘ ایک نئی خوشحال کلاس پیدا ہوئی اور اس خوشحال کلاس نے لاکھوں لوگوں کے چولہے جلادیے‘ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت میں ریئل اسٹیٹ کی انڈسٹری پیدا ہوئی‘ کنسٹرکشن دنیا بھر میں مدر انڈسٹری کہلاتی ہے۔

ایک گھر میں اینٹ سے لے کر لائٹ تک ہزار مصنوعات استعمال ہوتی ہیں‘ یہ ہزار مصنوعات 60انڈسٹریز پیدا کرتی ہیں گویا آپ اگر صرف ریئل اسٹیٹ یا کنسٹرکشن انڈسٹری کا پہیہ چلا دیںتو یہ60 صنعتوں کوایکٹوکردے گی‘ یہ 60 صنعتیں ہزار مصنوعات پیدا کریں گی اور ان مصنوعات کا ٹریکل ڈاؤن افیکٹ پورے ملک تک پہنچے گا‘ آصف علی زرداری نے ٹیلی کام اور الیکٹرانک میڈیا میں ایک تیسری انڈسٹری ریئل اسٹیٹ کا اضافہ کر دیا جس کے نتیجے میں ملک میں خوشحالی آ گئی‘ میاں نواز شریف آئے اور انھوں نے میگا ترقیاتی منصوبے شروع کر دیے‘ موٹرویز‘ میٹروز‘ پل‘ بجلی کے کارخانے اور سی پیک جیسے پراجیکٹ شروع ہوئے‘ یہ بھی ملک کی گروتھ میں اضافہ کرنے لگے چنانچہ ملک بھی مستحکم ہوگیا۔

لوگ بھی مطمئن ہو گئے اور عالمی ادارے بھی پاکستان کی تعریف کرنے لگے لیکن پھر آپ لوگ آئے اور آپ نے یہ چاروں شعبے بند کر دیے‘ ریئل اسٹیٹ انڈسٹری اپنی تاریخ کے بدترین دور میں داخل ہو گئی‘ ملک ریاض کا زیادہ تر وقت وکلاء اور سپریم کورٹ میں گزرنے لگا‘ یہ شخص پاکستان کا ورلڈ ٹریڈ سینٹر تھا‘ یہ گرا تو پوری ریئل اسٹیٹ انڈسٹری گر گئی‘ اس کا اثر 60 صنعتوں پر پڑا اور ملک بے روزگاری کے گڑھے میں جا گرا‘ رہی سہی کسر ڈالر کی قیمت میں اضافے نے پوری کر دی‘ ڈالر مہنگا ہو گیا‘ ہماری انڈسٹری نوے فیصد خام مال باہر سے منگواتی ہے‘ یہ خام مال مہنگا ہو گیا‘ گیس اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ بھی شروع ہو گئی‘ ایف بی آر نے بھی ڈنڈا کندھے پر رکھ لیا اور نیب بھی استرے لے کر باہر آ گئی چنانچہ پورے ملک کی معیشت جام ہو گئی‘ آپ آج مزدور سے لے کرسیٹھ تک کسی سے پوچھ لیں وہ حکومت کو گالی اور بددعا دے گا لیکن آپ کہتے ہیں یہ پانچ سال بھی ہمارے ہیں اور اگلے بھی‘ میں آپ کی بات پر کیسے یقین کر لوں؟‘‘ ۔

وہ میری گفتگو سنتے رہے اور ہنستے رہے‘ میں خاموش ہوا تو وہ بولے ’’عمران خان نے ابھی اپنے کارڈ شو نہیں کیے‘ یہ کارڈ جس دن شو ہو گئے آپ کو میری بات کا یقین آ جائے گا‘‘ میں مزید تپ گیا اور میں نے عرض کیا ’’جناب پورے ملک میں اس وقت کوئی کام نہیں ہو رہا‘ بیورو کریسی فائل پر دستخط کرنے کے لیے تیار نہیں‘ حکومت جب بھی کوئی منصوبہ ان کے سامنے رکھتی ہے تو افسر احد چیمہ اور فواد حسن فواد کو یاد کر کے کانوں کو ہاتھ لگا دیتے ہیں‘ وفاقی کابینہ نے نومبر میں جو فیصلے کیے تھے ان پر اڑھائی ماہ بعد بھی عمل نہیں ہو سکا‘ آج تاجر‘ صنعت کار اور بیورو کریٹس کھلے عام کہتے ہیں آپ نے اگر ملک چلانا ہے تو پھر آپ کو ایف بی آر اور نیب دونوں بند کرنا ہوں گے ورنہ کوئی شخص اس ملک میں کام نہیں کرے گا۔

حکومت کی حالت یہ ہے اس نے پانچ ماہ میں دو ہزار دو سو چالیس ارب روپے کا قرضہ لے لیا‘ یہ کشکول لے کر پھر رہی ہے‘ اب تک صرف سعودی عرب نے دو ارب ڈالر قرضہ دیا اور وہ بھی ہم دو ماہ میں کھا گئے‘ ملک پر روز 15 ارب روپے کا نیا قرض چڑھ رہا ہے لیکن حکومت کو کوئی پرواہ نہیں‘ وزراء کے تکبر اور غیرسنجیدگی پر پوری دنیا حیران ہے‘ یہ سارا دن اپنی سیلفیاں بنا کرسوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے رہتے ہیں اور قوم کو حکم دیتے ہیں آپ ان پوسٹوں کو تبدیلی سمجھیں لہٰذا لوگ حکومت سے تنگ آ چکے ہیں‘ یہ کسی بھی دن پھٹ پڑیں گے اور وزراء کو بھاگنے تک کا موقع نہیں ملے گا لیکن آپ فرما رہے ہیں یہ پانچ سال بھی آپ کے ہیں اور اگلے بھی‘ کیسے‘ مگر کیسے؟‘‘ میں بولتا چلا گیا اور وہ مسلسل ہنستے چلے گئے‘ میں خاموش ہوا تو وہ بولے ’’تمہیں بہت جلد میری بات کا یقین آ جائے گا‘‘ میں نے غصے سے ان کی طرف دیکھا اور پھر عرض کیا ’’جناب آپ اپنی نالائقی‘ ناتجربہ کاری اور تکبر کے ذریعے پورے ملک کو ڈھلوان پر لے آئے ہیں۔

یہ اب تیزی سے نیچے گر رہا ہے‘ لوگوں کو اب میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری اچھے لگنے لگے ہیں‘ آپ کے بیانات عدلیہ اور نیب دونوں کو متنازعہ بنا چکے ہیں‘آپ ساہیوال کے واقعے کو دیکھ لیجیے‘ یہ ملک اب گورن ایبل نہیں رہا‘ آپ نے اگر ایک سال پورا کر لیا تو ملک میں خوراک کے لیے فسادات شروع ہو جائیں گے‘ لوگ نیب‘ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف نعرے لگانے لگیں گے لیکن آپ اس کے ساتھ ساتھ اگلی باری پر بھی نظریں جما کر بیٹھے ہیں‘ کیسے؟‘‘ وہ مسکرائے اور میرا ہاتھ دبا کر بولے ’’میں نے صبر کے ساتھ آپ کی گفتگو سن لی‘ آپ اب میری بات بھی سن لیں‘ عمران خان چھ ماہ میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو ایکسٹینشن دے دیں گے‘ یہ نومبر 2019ء میں ریٹائر ہو رہے ہیں۔

یہ ایکسٹینشن کے بعد نومبر 2022ء تک بری فرج کے سربراہ رہیں گے‘ عمران خان ان کے ساتھ بہت کمفرٹیبل ہیں‘ جنرل باجوہ کرکٹ کو بہت پسند کرتے ہیں‘ یہ عمران خان کو بھی ہیرو سمجھتے ہیں‘ یہ اپنے ہیرو کو کبھی زیرو نہیں ہونے دیں گے‘ ملک میں پہلی بار سول اور ملٹری دونوں ایک پیج پر ہیں‘ یہ دونوں بیک وقت ایک سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں‘ یہ اتحاد اور یہ اتفاق ملک کو پٹڑی پر لے آئے گا‘‘ وہ سانس لینے کے لیے رکے تو میں نے جلدی سے سوال داغ دیا ’’لیکن جہاں تک میرا خیال ہے جنرل باجوہ جنرل کیانی جیسی غلطی نہیں کریں گے‘ یہ ایکسٹینشن لے کر مخالفین کو ’’ہم نہ کہتے تھے‘‘ جیسا پروپیگنڈا نہیں کرنے دیں گے چنانچہ ان کے انکار کے ساتھ ہی آپ کے خوابوں کا سارا محل بھی دھڑام سے گر جائے گا‘‘ ان کے چہرے پر غصے کے آثار آ گئے اور وہ گرم لہجے میں بولے ’’وزیراعظم کو اگر انکار کا ذرا سا بھی شک پڑا تو یہ آرمی چیف کی مدت ملازمت کو تین سے چار یا پانچ سال کر دیں گے‘ اس کے بعد انکار کی کوئی گنجائش نہیں رہے گی چنانچہ سول اور ملٹری دونوں طاقتیں مل کر ملک کو چلا لیں گی‘‘۔

میں نے ان سے عرض کیا ’’لیکن آپ اپوزیشن کا کیا کریں گے‘ ملک میں پہلی بار اتنی مضبوط اپوزیشن آئی‘ یہ آپ کو چلنے نہیں دے گی‘‘ میرا سوال سن کر انھوں نے قہقہہ لگایا اور بولے ’’اپوزیشن کا بندوبست ہو چکا ہے‘ آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف دونوں ریٹائرمنٹ لے رہے ہیں‘ یہ سیاست کو خیرباد کہہ کر ملک سے چلے جائیں گے ‘ بلاول بھٹو اور میاں شہباز شریف ان کی جگہ لے لیں گے اور حکومت کو ان دونوں سے کوئی خطرہ نہیں چنانچہ یہ پانچ سال بھی ہمارے ہیں اور اگلے پانچ سال بھی‘‘ میں نے عرض کیا ’’لیکن سر آپ کی پرفارمنس؟ آپ اگر پرفارم نہیں کریں گے تو لوگ آپ کو اگلی بار کیوں ووٹ دیں گے‘‘ وہ اٹھے‘ کمرے کا ایک چکر لگایا اور بولے ’’انسان بڑی دلچسپ چیز ہے‘ یہ شکنجے میں کسا ہو اور اگر اس شکنجے کو تھوڑی دیر کے لیے کھول دیا جائے تو یہ شکنجہ بنانے اور لگانے والوں کو بھی دعائیں دینے لگتا ہے‘ ہم الیکشن سے پہلے شکنجہ کھول دیں گے اور ووٹ لے لیں گے لہٰذا یہ پانچ سال بھی ہمارے ہیں اور اگلے بھی‘‘ میں نے ان سے ہاتھ ملایا اور کہا’’آپ لوگ نہیں سدھر سکتے‘‘ اور میں باہر آ گیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔