ایک مہنگائی توڑ نسخہ

سعد اللہ جان برق  جمعرات 24 جنوری 2019
barq@email.com

[email protected]

ایک اچھے شہری ہونے کے ناتے ہمارا بھی فرض بنتاہے کہ اپنی پیاری راج دلاری ہماری غم گساری حکومت کا کچھ ہاتھ بٹائیں جب وہ ہمارے لیے اتنا کام کرتی ہے یہاں وہاں جہاں تہاں اور نہ جانے کہاں کہاں سے مانگ تانگ کر ہمیں پیٹ بھر کھلاتی ہے، پلاتی ہے اور سلاتی ہے ہمارا طرز زندگی اونچا کرنے کے لیے بڑی محنت مشقت اور ہمت وشجاعت کے ساتھ مہنگائی بڑھاتی ہے اتنے زیادہ خدمت گار ہمارے لیے پالتی ہے پوستی ہے اور پھر آخر میں کوستی ہے۔

ہمارا اشارہ صرف موجودہ یا کسی اور خاص حکومت کی طرف نہیں ہے کیونکہ یہ کان نمک ہے اور ہمہ خانہ آفتاب۔ اگلے سے پچھلا دوقدم آگے ہوتاہے اور پچھلا اگلے سے چار قدم آگے ہوتاہے پشتو میں ایک کہاوتی نما شعر ہے،

گل د کدو گل دے یو چہ لٹوم ترے لاندے بل دے

یعنی یہ کدو کے پھول ہیں ایک کے نیچے دوسرا اور دوسرے کے نیچے تیسرا اس لیے ہماری نظر میں سب کے سب ایک جیسے ہیں اور سب کے ساتھ تعاون کرنا ہمارا فرض ہے۔

اور پھر موجودہ انصاف دار حکومت کے ساتھ تو زیادہ سے زیادہ تعاون کی ضرورت اس لیے بھی ہے کہ انصاف میں بہت زیادہ مصروف ہے اتنی مصروف کہ سر کھجانے کی بھی فرصت نہیں ہے، بیانات دینے سے اور انصاف کرنے سے کرپشن کی ایسی کی تیسی کرنے سے۔

چنانچہ ہمیں بھی چاہیے کہ کچھ نہ کچھ تو اس کا بار ہلکا کریں بہت اونچے معاملات تک تو ہماری رسائی نہیں ہے لیکن کم ازکم اس مہنگائی کم بخت، بدبخت اور دل سخت کی تو ایسی تیسی کرسکتے ہیں۔اور کریں گے انشااللہ۔اگر ہمارے اس زرین مشورے پر کسی نے عمل کیا جو ہم دینے والے ہیں۔

لیکن یہ مشورہ دینے سے پہلے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی کوالی فیکشن یا اہلیت اور حیثیت بلکہ ’’سی وی‘‘ پیش کریں کیونکہ اس وقت ہم جہاں ہیں وہاں یہ نہیں دیکھا جاتاکہ ’’کیا‘‘کہاجارہاہے بلکہ یہ دیکھاجاتاہے کہ ’’کون کہہ رہاہے‘‘ اس موضوع پر ہمارا پشتو شعر بھی ہے کہ

برقہ الفاظ ھم ددے وخت دبنیادم غوندے شول

چہ خولہ بدلہ شی پخپلہ خپل تاثیر بدل کڑی

یعنی ’’الفاظ‘‘ بھی آج کل ’’انسانوں‘‘ پر گئے ہیں کہ منہ بدلتے ہی اپنے معنی وتاثیر بدل دیتے ہیں سو اپنی کوالی فیکشن واضح کرنے کے لیے بتائے دیتے ہیں کہ اگلے وقتوں میں ہم بڑے’’نادان‘‘ ہوتے تھے، اتنے نادان کہ  شراب سیخ پر اور کباب شیشے میں ڈالا کرتے تھے۔لیکن پھر آہستہ آہستہ خدا ایکسپریس والوں کو جزائے خیر دے کہ ان کی وجہ سے ہمیں دانا دانشوروں اور بینا منوروں کی صحبت نصیب ہوئی۔

اور جب اردگرد اڑوس پڑوس اور چاروں طرف خربوزے ہی خربوزے ہوں اور بڑی تیزی سے رنگ بھی پکڑرہے ہوں تو بیچ میں کچے خربوزے بھی کچھ نہ کچھ ’’سرمہ دنداسہ‘‘ تو کرنے لگتے ہیں بلکہ اس کے لیے تو ہمارے پاس بابائے ناصحاں حضرت شیخ سعدی کی سند بھی ہے کہ میں نے حمام میں ملنے والے ایک خوشبودار مٹی کے ٹکڑے سے پوچھا کہ یہ اتنی خوشبو تمہارے اندر کہاں سے آگئی تو اس نے کہا کہ میں ہوں تو وہی مٹی کا ٹکڑا۔لیکن ’’گل بدنوں‘‘ کے استعمال نے میرے اندر بھی خوشبو بھر دی۔

کمال یارمن درمن اثرکرد

وگرمن ہماں خاکم کہ نیستم

یہ تو علمی دلیل تھی لیکن ایک فلمی دلیل بھی ہمارے پاس ہے فلم سن آف سردار میں ایک گوری لڑکی سے کہتاہے کہ پہلے میں بھی بہت گورا تھا لیکن پھر بیمار ہوگیا اور پھر آہستہ آہستہ ’’کم گورا‘‘ ہوگیا،حالانکہ تھا وہ کلوٹا۔

تو ہم بھی بجائے خود وہی ہیں جو پہلے تھے لیکن دانا دانشوروں کا ’’جمال‘‘ ہمارے اندر بھی سرایت کرگیاہے اور اب اس پوزیشن میں ہیں کہ اپنی تو کیا امریکی، روسی، چینی، جاپانی، بھارتی حکومتوں تک کو زرین مشورے دے سکتے ہیں لیکن ابھی ہم اتنی بلند پرواز نہیں کرنا چاہتے اور اپنے مشوروں کو اپنے عوام تک ہی محدود رکھیں گے۔

سب سے بڑا مسئلہ ہمارے عوام کالانعام مثل چوسا ہوا آم کو درپیش ہے وہ اس کم بخت مہنگائی کا ہے جو ہمیں پکاپکا یقین ہے کہ کسی بیرونی یا تیسرے ہاتھ کی لائی ہوئی ہے جو اس سے پہلے بھی کئی وارداتوں میں ملوث رہاہے اور حکومت کو مطلوب ہے۔ وہ تو ہمیں یقین ہے کہ حکومت کے لائق فائق ادارے ایک دن ضرور اسے پکڑ کر کیفر کردار تک پہنچادیں گے۔بلکہ شاید اس بیرونی پاتھ کے ماسٹرمائنڈ کو پکڑا بھی جاچکاہے صرف اس پر ثابت کرنا باقی ہے کہ وہ تیسرا ہاتھ اسی کے پاس ہے اور یہ کوئی مشکل بات  نہیں ہے قانون اور انصاف نافذ کرنے والے ادارے لگے ہوئے ہیں۔

خیروہ تو حکومت اور اداروں کاکام ہے اور وہ اسے اچھی طرح سرانجام بھی دے رہے ہیں ہمیں صرف وہی کرنا ہے جو کرسکتے ہیں اور وہی کرنے جارہے ہیں۔

یہ جو کم بخت مہنگائی آج کل ہمارے اوپر دندنا رہی ہے اس کا علاج بہت آسان بلکہ کم خرچ بالانشین ہے ہمارے مشورے پر اگر عمل کیاگیا تو دوچار دن میں اس کے کھانے اور دکھانے کے سارے دانت ٹوٹ جائیں گے اور جب دانت ہی نہیں رہیں گے تو ہمیں چبائے گی کیسے؟

یہ نسخہ ہم نے اپنے ایک بزرگ اینڈ گزرگ کے نسخے سے اخذ کیاہے وہ کہاکرتے تھے کہ اگر ہم نے اس نسخے کو اپنے بیٹے کی مدد سے استعمال کیا تو بڑا تیربہدف پایا۔

ہم اسے ساتھ لے کر بازار نکل جاتے تھے انگور بیچنے والے سے انگور کا نرخ پوچھتے وہ سو روپے بتاتا۔تو ہم اپنے بیٹے سے کہتے کہ یہ سو روپے پکڑ،اور آگے خربوزے والے کے پاس پہنچتے وہاں دوسو روپے بچا بلکہ کمالیتے تھے یوں بازار کا چکر مکمل ہوتا تو ہم ہزار ڈیڑھ ہزار روپے کماچکے ہوتے کہ بچانا بھی تو کمانا ہوتاہے اگر ہم وہ تمام چیزیں خریدلیتے تو زیادہ سے شام کو تھوڑا سا منہ چلاتے اور بس اور پھر مہنگائی کے تھپڑ کھاکر کچھ کھانا۔ابھی تو جو نسخہ ہے وہ یہ ہے کہ کھانا کھانا ہی چھوڑ دیں، آپ تھوڑا سا اس پر عمل کریں آپ کا کچھ بھی نہ بگڑے گا بلکہ مزید کمائی ہوگی لیکن مہنگائی کی ایسی کی تیسی ہوجائے گی آزماکر دیکھیے ایسا بہت کچھ نکل آئے گا جسے نہ خریدنے سے کیا مرجائیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔