پاکستان پیپلز پارٹی تاریخ کے آئینہ میں

نادر شاہ عادل  جمعرات 24 جنوری 2019

اقبال یوسف پیپلز پارٹی کے ان روشن خیال جیالوں میں سے ہیں جو جمہوریت، انقلاب ، تبدیلی اور عوام کی طاقت پر یقین رکھتے ہیں ۔ پیپلز پارٹی کی 50 سالہ ارتقائی داستان لکھتے ہوئے انھوں نے اپنی اس گراں قدرکتاب کے فلیپ پر شہید بھٹو کے آخری خط کا عکس چھاپا ہے جو ڈسٹرکٹ جیل پنڈی میں قید بے نظیربھٹو کے نام تھا۔ کتاب کے مطابق اس خط میں ذوالفقار علی بھٹو نے لکھا تھا۔

’’میری سب سے پیاری بیٹی، تمہارے دادا نے مجھے فخرکی سیاست سکھائی ۔ تمہاری دادی نے مجھے غربت کی سیاست کا سبق دیا ۔ میں دونوں باتوں کو مضبوطی سے تھامے ہوئے ہوں تاکہ ان دونوں کا انضمام ہوسکے۔ میں تمہیں صرف ایک پیغام دیتا ہوں۔ یہ پیغام آنے والے دن کا پیغام ہے اور تاریخ کا پیغام ہے۔ صرف عوام پر یقین کرو۔ ان کی نجات و مساوات کے لیے کام کرو۔اللہ تعالی کی جنت تمہاری والدہ کے قدموں کے نیچے ہے اور سیاست کی جنت عوام کے قدموں تلے ہے۔‘‘

اقبال یوسف کا کہنا تھا کہ 30 نومبر2016کو پاکستان پیپلز پارٹی اپنے قیام کی 49 ویں سالگرہ اور 50 واں یوم تاسیس منا رہی تھی، اسی طرح 30 نومبر2016 سے 30 نومبر2017 تک یہ عرصہ پی پی کا گولڈن جوبلی سال رہا۔ وہ اپنے کتاب کے ابتدائی باب میں اس بات کا اعترف کرتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کا دوسرا نام بھٹو ہے۔

اقبال یوسف نے انکشاف کیا کہ ون یونٹ سابق وزیراعظم فیروزخان نون کے تخیل کا نتیجہ تھا، 25 نومبر 1954کو ایک اور سابق وزیر اعظم محمد علی بوگرا نے ریڈیو پاکستان سے اپنی تقریر میں اس تجویز کو دہرایا جب کہ صوبہ سرحد نے اس کی منظوری کا اعلان کیا اور 30 نومبر کو پنجاب اسمبلی نے اس کی ہمہ گیر حمایت کی۔ سندھ میں وزیراعلی سندھ عبدالستار پیرزادہ رکاوٹ بنے تو انھیں برطرف کرکے ایوب کھوڑو کو وزیراعلیٰ بنایا گیا اور 11 دسمبر1954کو صوبہ سندھ کو ون یونٹ میں ضم کرنے کی قرارداد سندھ اسمبلی میں پیش ہوئی ۔

سینئر صحافی محمود شام لکھتے ہیں کہ اقبال یوسف کی پی پی سے وابستگی اور وفاداری کا منظر مجھے کبھی نہیں بھولتا جس نے اپنی جوانی اور بھیگی راتیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے گذاریں۔ صاحب کتاب پیپلز پارٹی کے اعلیٰ عہدوں پر رہے، سندھ کے سیکریٹری جنرل،کراچی کے صدر، وزیراعلیٰ سندھ کے مشیر، ان تمام مناصب پر ہوتے ہوئے سرکاری گاڑیوں، دفاتر اور عملے کے باوجود اقبال یوسف سے پارٹی کارکن جب چاہے مل سکتے تھے،کوئی دربان راستہ نہیں روکتا تھا، وہ کبھی لیاری میں مصروف دکھائی دیتے،کبھی رنچھوڑ لائن ، کبھی لیاقت آباد میں ۔

پیپلزپارٹی کی عہد ساز اور تحیر خیز سیاسی جدوجہد بلاشبہ ملکی تاریخ کا اہم باب ہے، بھٹو نے پارٹی کی بنیاد رکھی ، ملک کے قابل قدر سیاسی مفکرین ، دانشوروں ، سیاسی رہنماؤں اور بے لوث کارکنوں کو اکٹھا کیا ، ایوبی آمریت کو للکارا ، تیسری دنیا اور مشرق وسطیٰ سمیت ملکی سیاسی اشرافیہ اور سپر پاورزکو پاکستان کی سیاسی اہمیت اور حمیت کے حوالے سے خبردار کیا کہ وقت اب سامراجی گماشتوں کے زیادہ دیر قبضے میں نہیں رہے گا۔

بھٹو تاریخی عوامل، فرسودہ و استحصالی سیاسی و سماجی نظام، درد انگیز ملکی زمینی حقائق ، سیاسی گڑگڑاہٹ ، غریب و مظلوم عوام کی بے بسی اور برصغیرکی سیاسی جدلیات کا گہرا شعور رکھتے تھے، جن لوگوںنے بھٹو کے مضامین پر مبنی کتاب ’’آزادی ٔ موہوم‘‘ myth of independence پڑھی ہے وہ جانتے ہونگے کہ قوم نے ایک خلاق ذہن سیاست دان کو کس سج دھج سے سر مقتل جاتے دیکھا۔ اقبال یوسف نے پی پی کے جس قائد کی داستان ان پچاس سالہ ارتقائی ادوار میں بیان کی ہے وہ پیپلز پارٹی اور عوام کے درمیان گہرے رشتوں کی انمٹ کہانی ہے، پی پی کی تاریخی جدوجہد اور قربانیوں کوکوئی ذی شعور اہل قلم بہ یک جنبش قلم یا کوئی ناطقہ اسے لفظی تکرار اور پی پی سے بغض  للہی کے تناظر میں نظر انداز نہیں کرسکتا۔

زیر نظر کتاب میں اقبال یوسف پیپلز پارٹی کی اساسی دستاویزات کی سنجیدگی، سیاسی و سماجی تبدیلی کے لیے انقلابی جوش وجذبوں کے ان گوشوں کو منظر عام پر لائے جو سیاست کے طالب علموں کے لیے فکری اثاثوں کی حیثیت رکھتے ہیں، قارئین کتاب کے مطالعے کے بعد خود ہی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مصنف نے محنت ، عرق ریزی، باریک بینی ، لگن اور ریاضت سے 50 سالہ تاریخ کی ترتیب وتدوین،تالیف وتخلیق میں کتنا خون جگر صرف کیا ہے، کتاب کے ابواب بتاتے ہیں کہ پی پی کی سیاسی جدوجہد محض ایک آمرکے ہٹانے کی مہم جوئی نہیں تھی، بلکہ پی پی نے ایک کہنہ سسٹم کو جو عوام کی امنگوں اور ان کے خوابوں کو چاٹ رہا تھا اسے زمین بوس کرکے ایک نئے عہد کا آغاز کرنا تھا۔ یہ انقلاب زمانہ تھا ، پی پی تبدیلی کی علامت بن کر نمودار ہوئی ۔ ملک میں غیر معمولی ارتعاش کی حامل صورتحال رجعت پسندوں کے لیے دائمی ہزیمت و پسپائی کی کال تھی۔

اقبال یوسف نے تین نسلوں پر محیط سیاسی سفرکا نقشہ کھینچا ہے، وہ ایلین راوی نہیں، پارٹی کے ضمیر میں موجود ایک مستقل خلش کی طرح واقعات وحادثات کی ریکارڈنگ کرتے نظر آتے ہیں جن کی معروضیت متنازع نہیں، سیاسی کارواں کے ہر مرحلے کی تفصیل مضبوط حوالوں سے مزین ہے۔ جوکردار ان واقعاتی تسلسل کا حصہ رہے ہیں وہ بھی چونک اٹھے ہیں کہ کون ان کے ماضی کی شاندار سیاسی تاریخ کے بندکواڑ کھول رہا ہے۔

ممتاز شاعر اسلم گورداس پوری نے تخلیقی اور سیاسی سفر پر اپنے انداز سے خامہ فرسائی کی ہے، ان کا انداز نظر بھی قیمتی ہے، تاہم اقبال یوسف کا ٹاسک مختلف ہے۔ وہ مورخ کی سی جہاں دیدگی کے ساتھ ملک کی ایک غیر روایتی سیاسی جماعت کے قائدکی ولولہ انگیز قیادت میں سیاسی کایا پلٹ کے داستان گو ہیں۔

اس کہانی کے حقیقی واقعات اخباری تراشوں، معتبر حوالوں ، پارٹی دستاویزات تک رسائی، تحقیقی شفافیت صائب ہے، جب کہ پارٹی رہنماؤں سے حاصل ہونے والی بیش بہا معلومات ، انکشافات اور واقعات کی صحت وصداقت کے ناقابل تردید مسلمات بھی متوازن ہیں۔ یوسف اقبال کی تحقیقی کاوش ان کی کتاب ’’کراچی پیپرز ‘‘ سے نمایاں ہوئی جس میں ایم کیو ایم کے قیام ،اس کی شہر قائد پر غیر مرئی حکمرانی اور حیدرآباد ، لطیف آباد سمیت اندرون سندھ نیٹ ورک کی مضبوطی کے شواہد اور تفصیلات چونکا دینے والے تھے۔ان کی اس کتاب کے بارے میں کہا گیا کہ کراچی کو آج کوئی جاننا چاہے کہ اس کے عروج وزوال اور انتشارکے کیا اسباب ہیں تو کراچی پیپرز ہی سب سے زیادہ معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔

پیپلز پارٹی کے پچاس سال اس اعتبار سے ایک تاریخی سند کا درجہ رکھتی ہے۔کتاب کے ادوارکی ترتیب قارئین کے لیے دلچسپی کا باعث بنتی ہے، پوری داستان ایک ناول کی دلچسپی لیے انتہائی سلیس اور دلنشین طرز اسلوب کی جملہ خوبیاں لیے ہوئے ہے۔

پارٹی کے قیام ، اس سے متعلق بنیادی دستاویز، جدوجہد کے آغاز، ایوبی آمریت کا خاتمہ ، یحییٰ خان کے مارشل لاء،جنوری 1970 سے انتخابی جدوجہد ، انتخابات میں کامیابی اور پھر سقوط ڈھاکا کے دل ہلادینے والے واقعات کے سیاق وسباق میں ملکی سیاست کے پر آشوب منظر نامہ کی عکاسی کی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ شکستہ پاکستان، انقلابی اقدامات ،73 کے متفقہ آئین کی تیاری و منظوری، آئین کے نفاذ، تعمیر نو، اقتصادی ترقی، سے لے کرضیاالحق کی تقرری، سازش کے آغاز،  حکومت مخالف تحریک ،5 جولائی1977کے مارشل لاء، پی پی حکومت کے خاتمہ، اپنوں کی بے وفائی،کوڑے ، پھانسی اور قید وبند کی سزاؤں، بھٹوکے عدالتی قتل، بیگم نصرت بھٹو ، بے نظیربھٹوکی قربانیوں، اسیری اورجلاوطنی کے واقعات وحقائق جمع کیے گئے ہیں۔

شاہنواز بھٹو کے قتل، غیر جماعتی انتخابات ، محترمہ بے نظیرکی 1986میں فقیدالمثال واپسی، بے نظیر کی شادی، جنرل ضیا کے طیارے کے حادثے میں ہلاکت ، غلام اسحاق خان اور مرزا اسلم بیگ کی حکومت،1988کے انتخابات اور بے نظیر کی عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم کا اعلان کتاب کے اہم ابواب میں سے ہیں۔ کتاب کراچی میں قتل و غارت،آئی جے آئی کی حکومت کے قیام، بے نظیرکی حکومت کے خلاف آئی جے آئی کی تحریک ،آئی جے آئی حکومت کے خاتمہ، 1993 کے انتخابات، بے نظیر کی دوسری بار وزرات عظمیٰ ، مرتضیٰ بھٹوکی وطن واپسی، قتل ، صدر فاروق لغاری کی بے وفائی سمیت نواز شریف کا دوسری مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہونا ، بے نظیرکی پھر سے جلاوطنی، پرویز مشرف کا اقتدار پر قبضہ، نواز شریف کی گرفتاری، جیل اور جدہ جلاوطنی، میثاق جمہوریت ، NRO ، بے نظیر کی وطن واپسی، سانحہ کار ساز ، بے نظیرکی شہادت اور 2018 کے انتخابات کتاب کو دی اینڈ تک پہنچاتے ہیں۔

حقیقت میں پیپلز پارٹی کے پچاس سال موجودہ سیاسی سیٹ اپ کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ اس چشم کشا کتاب کی ورق گردانی سے پی ٹی آئی حکمراں جماعت اور سیاست کے طالب علموں پر یہ راز کھلے گا کہ پیپلز پارٹی ، ملکی سیاست کے کتنے ’’بروٹسوں‘‘ سے برسرپیکار رہی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔