محسن کی قدر

محمد ابراہیم عزمی ایڈووکیٹ  جمعـء 19 جولائی 2013
03332257239@hotmail.com

[email protected]

سندھ سب سے آگے نکل رہا ہے۔ اگر ایک ریس لگائی جائے تو وادی مہران اول نمبر پر آسکتا ہے۔ آسکتا نہیں بلکہ آچکا ہے۔ پنجاب کو اس پر کوئی اعتراض نہ ہوگا تو خیبرپختونخوا والے بھی سندھ کی اولیت کو مان لیں گے۔ یہ پاکستان کی بات نہیں بلکہ بنگال بھی مقابلے پر آجائے تو سندھ ہی آگے ہوگا۔ اگر دلی، یوپی، بہار، ممبئی، مدراس، گجرات یا ہندوستان کا کوئی صوبہ مقابلے پر آجائے تو باب الاسلام کو اولیت دینا پڑے گی۔ اب بات واضح ہورہی ہے سب سے پہلے اسلام سندھ کے راستے برصغیر میں داخل ہوا اس لیے سندھ اس ریس میں آگے ہے۔ اب سندھ میں دو شخصیتوں کی ریس ہے۔

2013 کو ایک شخصیت کی وفات کو کئی سو سال بیت گئے ہیں، پوری تیرہ صدیاں۔ سندھ میں اسلام کو لانے والی شخصیت 713 عیسوی میں وفات پاگئی۔ نام ہے اس کا محمد بن قاسم۔ پانچ لاکھ دن گزرنے کے باوجود بن قاسم اور راجہ داہر کی ریس ختم نہیں ہوئی۔ ایک مسلمان عرب اور دوسرا سندھی ہندو۔ یہ نظریاتی جنگ آج بھی وادی مہران کی دانش گاہوں میں لڑی جارہی ہے۔ یہاں کے کالجز اور لائبریریوں، یہاں کی جامعات اور بار ایسوسی ایشنز میں، یہاں کے پریس کلبوں اور آرٹس کونسلوں میں۔ پہلے مسلمان پھر پاکستانی پھر سندھی کی ترتیب ہو یا اسے الٹ پلٹ دیا جائے۔

قاسم اور داہر کی یہ نظریاتی جنگ اسی طرح لڑی جائے گی جیسے دنیا کی تاریخ میں قوم پرستوں اور مذہب پرستوں کے درمیان لڑی جاتی رہی ہیں۔ گجرات کے گاندھی اور جناح کی جنگ کی طرح۔ ایک طرف زمین سے تعلق نبھانے کے لیے دھرتی ماں کا واسطہ دیا جاتا ہے تو دوسری طرف مذہب کو نظریہ بناکر بات کہی جاتی ہے۔ چونکہ دونوں شخصیات الگ الگ ملکوں کے بابائے قوم قرار پائے لہٰذا ایک ہی سرزمین پر معرکہ بپا نہیں ہورہا۔ ایک جگہ گاندھی کے پوجنے والے ہیں تو دوسری طرف جناح کے ماننے والے۔ قاسم اور داہر کا معاملہ ذرا مختلف ہے اور پرانا بھی۔ محمد بن قاسم ایک بڑے نظریے کا علمبردار تھا جب کہ راجہ داہر دھرتی کا حکمران۔

محمد بن قاسم نے ہم سے کیا لیا اور کیا دیا؟ ہزاروں برسوں کے سندھیوں سے ابن قاسم نے سندھیت نہیں چھینی۔ آج بھی سندھی ٹوپی اور اجرک ان کا نشان امتیاز ہے۔ قاسم نے ہمیں کیا دیا؟ اس نوجوان کی بدولت یہ خطہ اسلام کی روشنی سے منور ہوا۔ پنجاب، دہلی، آگرہ اور پورا برصغیر گجراتی ہوں یا بلوچ، میراٹھی ہوں یا پختون، آج بھی اپنی شناخت کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ محمد بن قاسم نے ان سے ان کی زبان و لباس کی پہچان نہیں چھینی۔ حجاج بن یوسف کا یہ بھتیجا کسی سے کچھ لے کے اپنے وطن عرب نہیں گیا بلکہ یہاں کے لوگوں کو کچھ دے کر ہی گیا ہے۔ کتنا کچھ ابن قاسم نے اس سرزمین ہندوستان کو دیا ہے؟ اسلام کی نعمت اور پاکستان کا تحفہ۔

پنجاب اور بنگال کی تقسیم اس محسن کے کچھ دینے کی انتہا تھی۔ اتنی کہ دونوں مسلم اکثریتی صوبوں نے اسلام کے نام پر اپنی تقسیم گوارا کرلی۔ ان دو صوبوں کی تقسیم کے بعد ہی ہندوستان تقسیم ہوا۔ پاکستان بنا لیکن پورے ہندوستان میں تو مسلمان اقلیت میں تھے۔ ہم 25 مسلمان اپنا پاکستان 75 ہندوؤں سے لے کر الگ ہوئے لیکن پنجاب اور بنگال کے مسلمانوںنے اپنی تہذیب و ثقافت کے ماننے والی اقلیت کو اپنے سے الگ کردیا۔ کیوں؟ پنجابیوں اور بنگالیوں نے اپنی ہی زبان بولنے والوں اور اپنے ہی جیسی خوراک کھانے والوں کو اپنے سے جدا کردیا؟ کیوں انھوں نے نذرالاسلام اور بابا بلھے شاہ کے پڑھنے والوں کو سرحد کے اس طرف کردیا؟ اس لیے کہ وہ نہ ساتھ رہنے کو تیار تھے، نہ دین کو ماننے والے نہیں تھے، جو محمد عربیؐ کا دین تھا۔ وہ اس روشنی کو نہیں مانتے تھے جو سترہ سالہ عرب سیکڑوں میل دور سے لے کر آیا تھا۔ یہ محسن صرف سندھ کا محسن نہیں بلکہ محمد بن قاسم تو پورے پاکستان بلکہ پورے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کا محسن ہے۔

حضرت داتا گنج بخش ؒ ہوں یا عبداﷲ شاہ غازیؒ، حضرت مجدد الف ثانی ؒ ہوں یا شاہ ولی اﷲ، نظام الدین اولیاء ہوں یا خواجہ معین الدین چشتی۔ ہندوستان میں ان عظیم اولیاء نے اس اسلام کی تبلیغ کی جسے محمد بن قاسم نے اس برصغیر پاک و ہند میں متعارف کروایا تھا۔ آج کا یہ کالم حکومت سندھ سے بالخصوص اور وفاقی ودیگر صوبائی حکومتوں سے ایک مطالبہ کرنے کا حق رکھتا ہے۔ ایسا مطالبہ کہ سال رواں اور آنے والے ایک دو برسوں کو محمد بن قاسم کے 1300 ویں یوم وفات کے طور پر منایا جائے۔ وہ حکومتیں جو سندھ کی ایک پورٹ کو اس نوجوان کے نام سے منسوب کرسکتی ہیں اور پاکستان بھر کے بے شمار پارکوں و درجنوں سڑکوں و شاہراہوں کو اس محسن کا نام دے سکتی ہیں تو اس سال یا ان برسوں کو محمد بن قاسم کے نام کردینے میں کیا حرج ہے۔ جب ہم فیض احمد فیض اور سعادت حسن منٹو کے صد سالہ جشن مناسکتے ہیں تو تیرہ سو سال قبل وفات پانے والے محمد بن قاسم کے نام 2013 کو منسوب کیوں نہیں کرسکتے۔

چھ سو چورانوے عیسوی میں پیدا ہوکر صرف انیس سال کی عمر پانے والے محمد بن قاسم کی زندگی شاید عرب تاریخ میں اتنی اہم نہ ہو جتنی برصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں اہم ہے۔ خالد بن ولیدؓ، طارق بن زیاد اور یوسف بن تاشفین جیسے فاتحین میں سے محمد بن قاسم ایک فاتح ہیں۔ فاتح لیکن برصغیر کے مسلمانوں کے لیے عام فاتح نہیں۔ بے شمار کامیاب سپہ سالاروں اور شاندار جنرلوں کی تاریخ دنیا بھر کے فوجی اداروں میں پڑھائی جاتی ہے۔ شاید محمد بن قاسم کی سندھ کی فتح اس میں بہت کم حصہ پاسکے۔ جنگوں کی تاریخ میں دیبل کے مقام پر محمد بن قاسم اور راجہ داہر کا معرکہ چند سطریں بھی نہ پاسکے۔

یہ ہے عرب تاریخ اور فوجی اکیڈمیوں کے کورس میں محمد بن قاسم کا مقام۔ اس حوالے سے شاید اس کی اہمیت کم ہو۔ ہم اگر اپنے آپ کو برصغیر پاک و ہند کا مسلمان سمجھتے ہیں تو تاریخ میں اس بات کی بڑی اہمیت ہے کہ ہمیں یہ اعزاز محمد عربیؐ کے تربیت یافتہ بے شمار صحابہ کرامؓ اور ان کے بعد آنے والوں کی بدولت ملا۔ اس میں محمد بن قاسم کے سپاہیوں سے لے کر حجاج بن یوسف اور اموی خلیفہ ولید کا بھی اہم کردار ہے۔ ہمارا مرکزی نقطہ جس کی بدولت اس سرزمین کو اسلام کی روشنی میسر آئی وہ محمد بن قاسم ہے۔ 10 رمضان المبارک کو سندھ کو باب الاسلام بنانے والا محمد بن قاسم۔

عمادالدین نے سترہ سال کی عمر میں سندھ فتح کرکے ہندوستان میں اسلام کو متعارف کروایا۔ طائف میں پیدا ہونے والا ابن قاسم عراق کے گورنر حجاج بن یوسف کا بھتیجا تھا۔ 711 سے فتوحات کا شروع ہونے والا سلسلہ 713 عیسوی تک جاری رہا۔ جنگی صلاحیت اور انتظامی قابلیت کے مالک کی رخصتی پر ہندوؤں اور بدھوں نے ان کا مجسم بناکر اپنی عقیدت کا اظہار کیا۔ ولید کے انتقال کے ساتھ ہی فاتح سندھ محمد بن قاسم کا زوال شروع ہوگیا۔ نئے خلیفہ سلیمان نے انھیں واپس بلاکر جیل میں ڈال دیا۔ اموی خلیفہ نے اپنی سلطنت کے محسن کی قدر نہ کی۔ اب ہم کتنے احسان شناس ہیں؟ سوال ہے کہ کیا ہماری حکومتیں 2013 اور آنے والے برسوں کو ابن قاسم سے منسوب کرکے کرتی ہیں محسن کی قدر؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔