کیا بیرونی سرمایہ کاری سے پاکستانی معیشت مضبوط ہوجائے گی؟

شہاب احمد خان  ہفتہ 26 جنوری 2019
غیر ملکی سرمایہ کاری سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ ہمارا اپنا سرمایہ کار، پاکستان میں سرمایہ کاری کرے۔ (فوٹو: فائل)

غیر ملکی سرمایہ کاری سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ ہمارا اپنا سرمایہ کار، پاکستان میں سرمایہ کاری کرے۔ (فوٹو: فائل)

پاکستان آج کل جس طرح مختلف طریقوں سے ملک میں سرمایہ کاری لانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے، اس کی مثال نہیں ملتی۔ ان کوششوں کے نتیجے میں پاکستان میں سرمایہ کاری کے بڑے بڑے اعلانات بھی سامنے آتے رہتے ہیں۔ یہ تمام اعلانات مختلف غیر ممالک کی طرف سے ہی سامنے آتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے ملک میں موجود سرمایہ کار اپنا سارا سرمایہ اندرون ملک یا بیرون ملک انویسٹ کرچکے ہیں یا پھر ان سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری سے کوئی دلچسپی نہیں۔

دوسری طرف ہمارے کمرشل بینکوں کی یہ حالت ہے کہ وہ اپنے کریڈٹ کارڈ ہولڈروں کو بھی دو تین لاکھ روپے تو بغیر کسی درخواست کے دے رہے ہیں۔ جتنے کریڈٹ کارڈ ہولڈرز پاکستان میں موجود ہیں ان سب کے پاس اس قسم کی فون کالز تقریباً ہر مہینے آتی ہی رہتی ہیں۔ یہ اس بات کی نشانی ہے کہ بینکوں کے پاس بے شمار سرمایہ موجود ہے لیکن ان سے بڑی مقدار میں قرض لینے والا کوئی نہیں۔ یہ ایک تشویشناک صورت حال ہے۔ کیا پاکستان صرف بیرونی سرمایہ کاری کی بنیاد پر ہی ترقی کر سکتا ہے؟

ہمارے تمام حکمرانوں کو جب بھی پاکستان کی معاشی صورت حال پر بریفنگ دی جاتی ہے تو انہیں ایک ہی حل بتایا جاتا ہے: زیادہ سے زیادہ بیرونی سرمایہ کاری۔ کوئی یہ نہیں بتاتا کہ اگر غیرملکی سرمایہ کاری، ملکی سرمایہ کاری سے بھی بڑھ جاتی ہے تو کیا ہم ایسٹ انڈیا کمپنی جیسی صورت حال سے دوچار نہیں ہوجائیں گے؟ کیونکہ جو ملک سرمایہ لگاتا ہے وہ اسے محفوظ رکھنے کیلئے کسی بھی اقدام کو جائز قرار دے سکتا ہے۔

غیر ملکی سرمایہ کار ہمارے ملک کے معاشرتی، سماجی، ماحولیاتی مسائل سے مکمل طور پر لا تعلق رہتا ہے۔ دنیا میں کچھ ایسی بھی صنعتیں ہیں جو ماحولیاتی تبدیلیوں کا سبب بن رہی ہیں۔ ان صنعتوں کو مغربی اور مشرق بعید کے ممالک میں اب زیادہ دیر برداشت نہیں کیا جائے گا۔ ان ممالک کے صنعت کار اپنی صنعتوں کو ہمارے جیسے غریب ممالک میں منتقل کرنے کیلئے بے چین ہو رہے ہیں۔ اس کی سب سے حقیقی مثال سگریٹ انڈسٹری کی پاکستان میں منتقلی ہے۔ کل تک جو برانڈ بڑے فخر سے امپورٹ کرکے پاکستان میں بیچے جاتے تھے، آج وہ پاکستان میں ہی تیار کئے جارہے ہیں۔ دوسری مثال فاسٹ فوڈ چینز کی پاکستان اور بھارت جیسے ملکوں میں سرمایہ کاری ہے کیونکہ یورپ اور امریکا میں ان کے خلاف ایک تحریک چل رہی ہے کہ اگر انہیں وہاں بند بھی نہیں کیا جاتا تو کم از کم ان کی غذائی مصنوعات پر صحت سے متعلق وارننگ ضرور لکھی جائے کہ یہ صحت کیلئے مضر ہیں۔

یہ تو چھوٹی چھوٹی چند مثالیں ہیں۔ اتنے بڑے بڑے برانڈ پاکستان جیسے ملکوں میں سرمایہ کاری کرکے کوئی احسان نہیں کر رہے بلکہ اپنا مستقبل محفوظ کر رہے ہیں۔

چین اس وقت پاکستان میں سب سے بڑا انویسٹر بن چکا ہے جس کی سرمایہ کاری کو اس ملک کیلئے ایک نعمت قرار دیا جا رہا ہے۔ اس سرمایہ کاری کی وجہ سے روزگار کے بیشمار مواقع پیدا ہونے کی نوید سنائی جارہی ہے۔ لیکن اگر ہم غور کریں تو اس سرمایہ کاری کی ہم سے زیادہ چین کو ضرورت ہے۔ اس کی وجہ معا شی سے زیادہ دفاعی بھی ہے۔

آج چین کے بعض شہروں کی یہ حالت ہے کہ وہاں صاف اور تازہ ہوا ٹن پیک میں بیچی جارہی ہے۔ ہوا اور پانی دونوں اتنے زیادہ آلودہ ہو چکے ہیں کہ انسانی استعمال کے قابل نہیں رہے۔ مختلف مغربی تھنک ٹینکس آلودگی کو چین کی سلامتی کیلئے ایک بڑا خطرہ قرار دے رہے ہیں۔ چین کے بڑے شہروں میں آپ منہ پر ماسک لگائے بغیر باہر نہیں نکل سکتے۔

دوسری طرف ہم بیرونی سرمایہ کاری کے محتاج اس لئے بھی ہیں کہ ہمارے ملکی سرمایہ کار بغیر مراعات کے سرمایہ کاری کرنے پر راضی ہی نہیں۔ یہ عادت ہماری حکومتوں نے ہی اپنے کچھ مفادات حاصل کرنے کیلئے ان سرمایہ کاروں کو ڈالی ہوئی ہے۔ مختلف ایکسپورٹ پروسیسنگ زونز جہاں کسی قسم کا کوئی ٹیکس نہیں لیا جاتا، جس طرح ناکام ہوئے ہیں وہ ہمارے سامنے ہے۔ اب پاکستان پھر مختلف زونز بنا کر دینے کی باتیں کر رہا ہے جہاں ٹیکسز میں چھوٹ دی جائے گی۔

پاکستان ایک زرعی ملک بھی ہے جہاں کاشت کار روزانہ ہی کسی نہ کسی فصل کو لے کر سڑکوں پر احتجاج کررہے ہوتے ہیں۔ آج کل آلو کے کاشت کار سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔

ان تمام باتوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہم کسی بھی قسم کی لمبی مدّت کی منصوبہ بندی کرتے ہی نہیں، صرف ڈنگ ٹپاؤ پالیسیاں ہی ہماری پہچان ہیں۔ اگر ہم اپنے ٹیکس کا ڈھانچہ ریوینیو پیدا کرنے کے بجائے اپنے عوام کی بھلائی کو مدنظر رکھ کر ایک بار ترتیب دے دیں تو ہمیں ہر بار ہر انویسٹر کیلئے نئی نئی مراعات نہ دینی پڑیں۔

اب یہاں ایک سوال یہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ ٹیکسز تو ہوتے ہی ریوینیو پیدا کرنے لئے ہیں، اس میں عوام کی بھلائی کہاں سے آگئی؟ عوام کی بھلائی کے کام تو اس آمدنی سے کئے جائیں گے جو ٹیکس سے حاصل ہوتی ہے۔ یہی وہ بات ہے جو سمجھانی مقصود ہے۔ ہماری سیاسی پارٹیاں ہمیشہ بلند بانگ دعوے کرکے حکومت بناتی ہیں۔ لیکن حکومت میں آنے کے بعد ایک پہلی بات جو عوام کو بتائی جاتی ہے، وہ یہ کہ خزانہ بالکل خالی کرکے پچھلی حکومت گئی ہے۔ لہٰذا عوام مہنگائی کے ایک طوفان کیلئے تیار ہوجائیں۔

موجودہ حکومت کے اٹھائے ہوئے طوفان سے تو ہم گزر ہی رہے ہیں۔ اگر ہم ٹیکسز کو عوام کی بھلائی کی طرف موڑنا چاہیں تو اس کی بہت آسان صورت ہے۔ ہم ٹیکسز کا ڈھانچہ یوں ترتیب دے سکتے ہیں:

  • اگر کوئی صنعت اپنے تمام ملازمین کو مستقل ملازم کے طور پر رکھتی ہے، یعنی کوئی ٹھیکیداری سسٹم نہیں، تو اس کیلئے سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس کا ریٹ مخصوص ہو؛
  • اگر کوئی صنعت اپنے تمام ملازمین کو صحت کی سہولت مفت فراہم کرتی ہے تو ٹیکس میں مزید رعایت ہو؛
  • اگر کوئی صنعت اپنے ملازمین کو ٹرانسپورٹ کی سہولت بھی مہیا کرتی ہے تو ٹیکس میں مزید رعایت مل جائے گی؛
  • اگر کوئی صنعت ان تمام سہولتوں کے ساتھ ساتھ اپنے تمام ملازمین کو گروپ انشورنس کے علاوہ بھی انشورنس کی سہولت مہیا کرتی ہے تو اسے مزید ٹیکس میں رعایت مل سکتی ہو؛
  • اگر کوئی صنعت اپنے ملازمین کو رہائش بھی مہیا کرتی ہے تو مزید ٹیکس میں رعایت ہو؛ اور
  • اگر کوئی صنعت اپنے ملازمین کے بچوں کی تعلیم کیلئے بھی فنڈ مہیا کرتی ہو تو ٹیکس میں مزید چھوٹ مل سکتی ہو۔

ایسی اور بہت سی تجاویز دی جا سکتی ہیں جن کا فائدہ ایک تو یہ ہوگا کہ حکومت کے کرنے کے بہت سے کام صنعتوں کے مالکان کے ذمے ہوجائیں گے۔ دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ ان مراعات کا فائدہ صرف صنعت کاروں کو ہی نہیں بلکہ عوام کو بھی براہِ راست گا۔ ورنہ یہی ہوتا رہے گا کہ حکومتیں مختلف زونز کیلئے پانچ سال یا اس سے زیادہ کی ٹیکس چھوٹ دیتی رہیں گی۔ جیسے ہی مراعاتی مدت ختم ہوگی، صنعت بند ہوجائے گی اور اس صنعت کو دیا جانے والا بینکوں کا قرضہ بھی ڈوب جائے گا۔

الله ہم سب کو آنے والی مصیبتوں سے محفوظ فرمائے، آمین۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

شہاب احمد خان

شہاب احمد خان

بلاگر اسلامک بینکنگ اور فائنانس میں ماسٹرز کی سند رکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔