رینجرز کے بہیمانہ تشدد سے نوجوان لاک اپ میں ہلاک

اسٹاف رپورٹر  ہفتہ 20 جولائی 2013
سچل پولیس نے ایف آئی آر میں ملک آغا ہوٹل کے قریب سے ریتی بجری چوری کرتے ہوئے پولیس مقابلے کے بعد ملزمان کی گرفتاری ظاہر کی تھی۔ فوٹو : فائل

سچل پولیس نے ایف آئی آر میں ملک آغا ہوٹل کے قریب سے ریتی بجری چوری کرتے ہوئے پولیس مقابلے کے بعد ملزمان کی گرفتاری ظاہر کی تھی۔ فوٹو : فائل

کراچی:  رینجرز کے بہیمانہ تشدد سے نوجوان سچل تھانے کے لاک اپ میں ہلاک ہوگیا۔

قیدی کے ساتھیوں نے پیشی کے موقع پر عدالت میں بلال کی ہلاکت کا بھانڈا پھوڑ دیا، عدالت میں پولیس افسران ملزمان کے انکشاف پر ہکا بکا رہ گئے، لاش پوری رات تھانے کے لاک اپ میں پڑی رہی، سچل پولیس نے ایف آئی آر میں ملک آغا ہوٹل کے قریب سے ریتی بجری چوری کرتے ہوئے پولیس مقابلے کے بعد ملزمان کی گرفتاری ظاہر کی تھی، 17جولائی کو رینجرز نے سچل تھانے کی حدود سکندر گوٹھ میں کارروائی کرتے ہوئے بلال عرف لمبا سمیت مذکورہ 4 افراد کو حراست میں لیا تھا اور18جولائی کی شب ایس ایچ او سچل انسپکٹر اعجاز راجپر کو اپنے ہیڈ کوارٹر بلوا کر ملزمان کی گرفتاری ظاہر کرنے کیلیے ان کے حوالے کر دیا تھا ۔

بعد ازاں ایس ایچ او سچل نے ملزم بلال اور اس کے ساتھیوں کی گرفتاری سپر ہائی وے آغا ہوٹل کے قریب سے ریتی بجری چوری کرنے کے الزام میں مقابلے کے بعد ظاہر کی تھی، مبینہ ملزمان کی گرفتاری کے موقع پر ایس ایچ او نے بڑے بڑے دعوے کیے تھے کہ انھوں نے انتہائی بہادری سے مقابلہ کرتے ہوئے ملزمان کو گرفتار کر کے انکے قبضے سے بھاری تعداد میں اسلحہ اور دستی بم برآمد کیا، انھوں نے بتایا تھا کہ ملزم بلال اور اس کے ساتھیوں نے15 جولائی کی شب ابو الحسن اصفہانی روڈ پر رینجرز اہلکاروں کے روکنے پر فائرنگ کر دی تھی جس کے نتیجے میں رینجرز کے2 اہلکار اعظم اور نفیس زخمی ہو گئے تھے،ایس ایچ او سچل انسپکٹر اعجاز راجپر کی ہدایت پر سچل تھانے کے ڈیوٹی افسر سب انسپکٹر شعیب کی مدعیت میں ملزمان کے خلاف مقابلے کی ایف آئی آر درج کر لی گئی تھی۔

سچل پولیس نے مقابلے، اقدام قتل ،اسلحہ ایکٹ ، آتش گیر مواد اور منشیات رکھنے کے الزام میں گرفتار ملزمان مقبول احمد ، جمیل احمد ، امین اﷲ ، نعمان اور عامرکا جسمانی ریمانڈ حاصل کرنے کیلیے جوڈیشل مجسٹریٹ ملیر نوید احمد کے روبرو پیش کیا تھا ،اس موقع پر ملزمان نے بتایا کہ انھیں پولیس نے نہیں بلکہ رینجرز نے مختلف علاقوں سے حراست میں لیا تھا اور دوران حراست شدید تشدد کا نشانہ بنایا تھا ، اس موقع پر ایک شخص بلال بھی ان کی حراست میں پہلے سے موجود تھا جسے شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا ،کرنٹ لگانے سے اس کی حالت غیر ہوگئی تھی اور وہ خون کی الٹیاں کررہا تھا ،بعدازاں اسے اور ہمیں تھانہ سچل کے حوالے کردیا گیا ،ہم پانچوں افراد کو مقابلے اور اقدام قتل کے مقدمے میں ملوث کیا گیا تھا جبکہ رینجرز نے ایس ایچ او کو کہا تھا کہ بلال کو ٹارگٹ کلر ظاہر کیا جائے ۔

اس موقع پر پہلے ایس ایچ او نے انکار کیا تاہم بعد میں اس کے خلاف بھی مقدمہ درج کرلیا گیا،بلال کی حالت بہت خراب تھی، رات کو جب اس کی حالت مزید خراب ہوئی اور خون کی مسلسل قے ہونے لگیں تو ایک اہلکار نے اسے مشروب پلایا بعدازاں وہ ہلاک ہوگیا تھا جس کی لاش تمام رات لاک اپ میں ہی پڑی رہی ، ملزم مقبول احمد نے بتایا کہ اس کی ڈیفنس کمرشل اسٹریٹ کے قریب ٹائر کی دکان ہے، اس سے رینجرز حکام نے متعدد بار رقم طلب کی تھی لیکن اس کے انکار پر اسے گاڑی سمیت اغوا کیا تھا جبکہ اس کی 18لاکھ مالیت کی گاڑی بھی رینجرز حکام نے چھپالی ہے جس کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا اور اس دوران شدید تشدد ،کرنٹ لگایا اور رقم کا تقاضہ کرتے رہے ، جمیل نے کہا کہ اس کی کلفٹن میں کپڑے کی دکان ہے اور اسے بھی رینجرز حکام نے غیرقانونی حراست میں لیا تھا ۔

امین اﷲ نے بتایا کہ وہ سہراب گوٹھ میں باورچی ہے، نعمان نیشنل ہائی وے افسر کا ڈرائیور ہے جبکہ اقرا سٹی کے چوکیدار عامر نے بتایا کہ پولیس نے مقابلے کے بعد گرفتار نہیں کیا بلکہ رینجرز نے آپریشن کے دوران حراست میں لیا تھا ، دوران حراست رینجرز کے3 افسران نے بلال نامی شخص کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا وہ چشم دید گواہ ہیں ان کے سامنے اسے مسلسل کرنٹ اور چیرا لگایا گیا تھا ، وہ ہر عدالت میں رینجرز کے ان افسران کی جانب سے کیے گئے تشدد پر حلفیہ بیان دینے کو تیار ہیں، رینجرز کی ایما پر پولیس نے منشیات ، اسلحہ ایکٹ اور مقابلے کے الزام میں گرفتاری ظاہر کی تھی، عدالت نے آج ملزمان کو دوبارہ طلب کیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔