خان ایک ’’ماسٹر‘‘ تھا

سعد اللہ جان برق  جمعـء 25 جنوری 2019
barq@email.com

[email protected]

عنوان سے کہیں یہ نہ سمجھیے گا کہ یہ کسی ایسے خان کی کہانی ہے جو ’’ماسٹر‘‘ تھا وہ تو اکثر ہوتے ہیں۔یہ دراصل اس کہانی کا عنوان یا ابتدائیہ ہے جو مسلسل بیس سال تک سنائی گئی، پھر بھی ختم نہیں ہوئی بلکہ اس سے زیادہ شروع بھی نہیں ہوئی کہ ’’خان ایک ریچھ تھا‘‘

لیکن اس کہانی کی کہانی سنانے سے پہلے یہ وضاحت ضروری ہے کہ اس کے سارے کردار فرضی ہیں اور اس کا کسی سے مطابقت محض اتفاقیہ ہوگی کیونکہ ایسی اور بھی بہت ساری کہانیاں ہیں۔ جو ستر ستر سال سے چل رہی ہیں۔ اور اس سے آگے کبھی نہیں بڑھیں کہ ’’خان ایک ماسٹر تھا‘‘ ساتھ ہی یہ وضاحت بھی ذہن میں رہے کہ کہانی کا ہیرو ’’ریچھ‘‘ نہیں ہے اور خان بھی نہیں ہے بلکہ کہانی سنانے والا اس کا ہیرو ہے اور کہانی کا راوی گل ملوک بڑا زبردست داستان گو اور قصہ خوان تھا حالانکہ اس کا تعلق قصہ خوانی بازار سے نہیں بلکہ ’’قبضہ خان‘‘ سے تھا۔ قصہ خان کا نام تو کچھ اور تھا لیکن جب اس نے گل ملوک کو اس کی شہرت کے بنا پر اپنے ہاں مستقل رکھ لیا اور صرف خان جو قصہ سنانے  کے لیے مخصوص ہوگیا تو لوگ خان کو بھی قصہ خان کہنے لگے۔

ایسا اکثر ہوتا ہے کہ بعض خان حضرات کسی خاص کام یا نشانی یا عادت کی وجہ سے مشہور ہو جاتے ہیں جیسے ایک زمانے میں نوابزادہ عبدالغفور خان ہوتی جو ایوب خان کے دور میں مرکزی وزیر خوراک تھے تو پہلے تو لوگ انھیں گوگو خان کہنے لگے کیونکہ ان کی گاڑی میں گوگو (سائرن نما) بجتا تھا لیکن جب چینی کی قیمت میں چار آنے سیر کا اضافہ ہو گیا ، آٹھ آنے سیر کے بجائے بارہ آنے سیر ہو گئی تو ان کی عرفیت بھی چینی چور خان ہو گئی، مطلب یہ کہ ’’خان‘‘ کا نقش قدم یوں بھی ہوتا ہے اور یوں بھی۔ کچھ لوگ صفت کے خان ہو جاتے ہیں جیسے باچا خان، جندول خان، سوات خان اور کچھ لکڑ خان، واوچے خان، ککے خان، والی بال خان، فٹ بال خان اور کرکٹ خان ہو جاتے ہیں اور ڈبل بیرل خان بھی۔

یوں ہماری کہانی کا خان صاحب بھی قصہ خان مشہور ہو گیا تھا جس نے گل ملوک قصہ خوان کو عوامی ملکیت سے نکال کر اپنی پراپرٹی بلکہ ’’منقولہ‘‘ جائیداد بنا لیا تھا۔

گل ملوک پیشے کے لحاظ سے کوچوان تھا۔ چونکہ ہمیں بھی قصے سننے کا شوق تھا اس لیے اکثر گل ملوک کے تانگے میں بیٹھ کر یونہی بلا مقصد کسی طرف چل دیتے۔ گل ملوک سیٹ سے نیچے تانگے کی کشتی میں بیٹھتا یا اس سے بھی آگے بانس پر بیٹھ جاتا کیونکہ قصہ سنانے کے ساتھ وہ گھوڑی کو چابک کے ذریعے ’’ڈرائیو‘‘ بھی کرتا تھا۔ اس گھوڑی کا نام ’’جڑوبہ‘‘ تھا یعنی ’’دلدل‘‘ میں چلنے والا۔ وہ واقعی دلدل ہی میں چلتی تھی اور ادھر ادھر کے پیدل لوگوں کو آگے بڑھنے دیتی تھی۔

اکثر تو کہانی قسط وار ہوتی لیکن کبھی کبھی کہانی دلچسپ ہوتی تو یہاں وہاں کے دوچار پھیرے بھی اس سے کرا لیتے۔ رات کو وہ کبھی یہاں کبھی وہاں قصہ سنانے پر مدعو ہوتا لیکن برا ہو قصہ خان کا جس نے اس عوامی پراپرٹی کو اپنے نام رجسٹر کرا لیا۔گل ملوک بھی خوش تھا، کہ کسی جنھجھٹ کے بغیر تانگے سے دگنی آمدنی کی سبیل ہو گئی۔

اس کی ڈیوٹی صرف اتنی تھی کہ رات کو جب خان اپنے کام سے فارغ ہو جاتا تو گل ملوک کی ڈیوٹی شروع ہو جاتی، خان بہت زیادہ موٹا تھا اس لیے زیادہ چل  پھر بھی نہیں سکتا تھا، اوپر سے سارا کام اس کے بیٹوں نے سنبھال لیا تھا۔ بیوی بھی داغ مفارقت دے چکی تھی، اس لیے ڈیرے ہی  کے ایک کمرے میں اس کی رہائش تھی۔ جہاں وہ تقریباً دنیا کے سارے نشوں سے شغل کرتا تھا اور رات کو گل ملوک کی کہانی سنتا۔ جو اس سے شروع ہوتی کہ۔۔خان ٰ ایک ریچھ تھا۔

ہوتا یوں تھا کہ خان اپنے بستر پر لیٹ جاتا گل ملوک بھی پائنتی میں بیٹھ کر خان کے پیر دبانے لگتا اورخان  ایک ماسٹر تھا شروع کرتا اور فقرے کے ختم ہوتے ہی خان خراٹے لے کر سو جاتا تھا۔ اس بیس سال کے عرصے میں بقول گل ملوک وہ دو تین بار ہی اس سے آگے بڑھا ہو گا۔ بات خان ایک ماسٹر تھا پر ختم ہو جاتی اور وہ آرام سے اتر کر اپنے گھر چلاآتا۔

خان ٰایک ماسٹر تھا سے آگے جو فقرے آگے بڑھے تھے ، اس کے بارے میں گل ملوک کا کہنا ہے کہ ایک دو بار ایسا ہوا ہو گا کہ جب میں ایک ماسٹر تھاکہہ دیتا اور خان صاحب کا خراٹہ بلند نہ ہوتا، تو پھر خان ایک بہت بڑا ماسٹر تھا سے تو خراٹے یقیناً شروع ہو جاتے لیکن بعض اوقات اس سے بھی کام نہ چلتا تو خان ایک بہت بڑا سفید ماسٹر تھا تک بات پہنچ جاتی۔ گل ملوک کبھی کبھی آہ بھر کر کہتا، ایسا ماسٹر دنیا میں اور کہیں پیدا نہیں ہو گا جس کی برکت سے کسی نے بیس سال تک اتنی کمائی کی ہوگی۔ وہ کہتا کہ مجال ہے جو ان بیس سالوں میں کہانی اس سے آگے ایک لفظ بھی بڑھی ہو کہ خان ایک بہت بڑا سفید ماسٹر تھا۔

ہم نے پہلے بھی وضاحت کی ہوئی ہے کہ اس کہانی کے کرداروں کے ساتھ کسی کی مطابقت محض اتفاقیہ ہوگی لیکن دوبارہ یاد دہانی کرانا ضروری ہے کہ اسے کسی اور نام یا مقام سے مشابہہ مت بنائیے،کیونکہ ایسے واقعات عام ہوتے ہیں۔ لندن میں ایک ڈراما دس بارہ سال تک اسٹیج ہوتا رہا ہے اور سنا ہے کہ کہیں کسی ملک میں ایک کہانی ستر سال سے چل رہی ہے اور اس میں ماسٹر بھی وہی ہے جو کہانی سنانے والا البتہ کبھی کبھی اس کا رنگ اور سائز بدل دیتاہے اور سننے والا بھی وہی ہے اور ویسے ہی کہانی کے شروع میں خراٹے لینے لگتا ہے لیکن ہمیں اس سے کیا ہماری کہانی میں تو صرف بیس سال سے چل رہی ہے  لیکن ستر سال پرانی والی کہانی سے اس کی مطابقت محض اتفاقیہ ہو گی۔ نوٹ فرما لیجیے۔ ایک ماسٹر جو صرف رنگ بدلتا ہے سننے والا بھی وہی اور سنانے والا بھی وہی اور خراٹے والا بھی وہی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔