26 جنوری: بھارت کے لیے یومِ جمہوریہ، کشمیریوں کے لیے یومِ سیاہ

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 25 جنوری 2019
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

بھارت ہر سال 26 جنوری کو ’’یومِ جمہوریہ‘‘ کا جشن مناتا ہے۔ اِس سال بھی وہ اپنا 70 واں یومِ جمہوریہ منا رہا ہے۔ یہ وہ تاریخ ہے جب بھارتی آئین باقاعدہ بروئے کار آیا تھا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ بھارت میں جس شخص (ڈاکٹر امبیدکر)نے ملکی آئین کی تشکیل و تدوین کی، بھارتیوں نے کبھی اُس کا نام عزت و احترام سے نہیں لیا، محض اس لیے کہ وہ اونچی ذات کا ہندو نہیں بلکہ ’’دَلت‘‘ تھا۔ یومِ جمہوریہ کے جشن میں بھارت ہمیشہ کسی اہم سیاسی و مقتدر غیر ملکی شخصیت کو بطورِ مہمانِ خصوصی مدعو کرتا ہے۔

امریکی صدر، مغربی و عرب ممالک کے سربراہان بھی اس جشن میں شریک ہو تے رہے ہیں۔ اس بار بھی وزیر اعظم نریندر مودی کی کوشش یہی تھی کہ امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ، اس جشن میں شریک ہوں لیکن امریکی صدر نے ہامی ہی نہیں بھری۔ ٹرمپ نے گزشتہ دنوں مودی صاحب کا جن منفی الفاظ میں ذکر کیا ہے، مودی کا اِس شخص سے دل کھٹا ہو گیا ہے۔

اِس بار کا بھارتی یوم ِ جمہوریہ ویسے بھی مودی جی کو زہر لگ رہا ہو گا کہ نئے انتخابات سر پر کھڑے ہیں اور کئی بھارتی سیاسی جماعتیں ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر متحد ہو کر بی جے پی اور مودی جی کو شکست ِ فاش دینے کا عہد کر چکی ہیں۔ 19جنوری2019ء کو کلکتہ میں 20 سیاسی جماعتوں پر مشتمل جو متحدہ اجتماع ہُوا ہے، اس نے بھارتی وزیر اعظم کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔

’’الجزیرہ‘‘ نے لکھا ہے کہ اس اجتماع میں پانچ لاکھ سے زائد لوگ شریک ہُوئے۔ سب کی زبان پر ایک ہی نعرہ تھا: ’’مودی ہٹاو، بھارت بچاؤ‘‘ ۔ مغربی بنگال کی مشہور وزیر اعلیٰ، مماتا بینر جی، اس اجتماع میں مرکزی کردار ادا کر رہی تھیں اور انھوں نے عوام کے اس سمندر سے مخاطب ہوتے ہُوئے کہا تھا: ’’مودی کی سیاسی شخصیت اور اقتدار کی Expiry Dateکنارے آ لگی ہے۔‘‘

ابھی پچھلے ماہ مودی اور اُن کی پارٹی کو تین بھارتی ریاستوں میں صوبائی انتخابات کے دوران جس شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے، اس نے بھی نریندر مودی کے اعصاب پر گہرے منفی اثرات ڈالے ہیں۔ انھوں نے پانچ سال پہلے اقتدار میں آتے ہی وعدہ کیا تھا کہ وہ ہر سال دو کروڑ ملازمتیں فراہم کریں گے لیکن پانچ سال گزر گئے ہیں اور وہ دس کروڑ میں سے ایک کروڑ نوکریاں بھی نہیں دے سکے ہیں۔بھارت کا متوسط اور زیریں متوسط طبقہ مودی جی سے سخت متنفر اور مایوس ہے۔ گویا کہا جا سکتا ہے کہ نئے سال کا نیا یومِ جمہوریہ مودی جی کے لیے اطمینان اور خوشیوں کا سندیسہ لے کر طلوع نہیں ہُوا ہے۔

چھ سات عشرے قبل جب پاک ، بھارت تعلقات خوشگوار تھے، پاکستان سے بھی کئی لوگ بھارتی یومِ جمہوریہ کا جشن دیکھنے دِلّی جاتے تھے ۔ پاکستان میں متعین سابق بھارتی ہائی کمشنر ٹی سی اے رگھوان اپنی مشہور تصنیف The People Next Door : The Curious History of India,s Relations With Pakistanمیں لکھتے ہیں کہ 1955ء کے بھارتی یومِ جمہوریہ کے جشن میں پاکستان کے گورنر جنرل ملک غلام محمد بطورِ چیف گیسٹ شریک تھے۔

پاکستان کے خلاف بھارتی سازشوں، پاک بھارت جنگوں اور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی استبدادی و ظالمانہ ہتھکنڈوں نے باہمی تعلقات کو سخت زک پہنچائی ہے ۔ ہمارے کشمیری بہن بھائی بھارتی زیادتیوں اور مظالم سے تو اتنے متنفر ہو چکے ہیں کہ اب وہ گزشتہ برسہا برس سے بھارتی یوم ِ جمہوریہ کو ’’یومِ سیاہ‘‘ کے طور پر مناتے ہیں۔

بھارت سے مکمل مقاطعہ کرتے ہیں ۔ہر کشمیری اس روز بھارت سے خود کو کامل طور پر الگ کرکے رکھتا ہے۔ بھارت سے لاتعلق ہو کر بیٹھتا ہے۔ دُنیا بے حسی اور بے شرمی سے سُنے، نہ سُنے لیکن کشمیر کا ہر فرد 26 جنوری کو اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتے ہُوئے دُنیا کو بتاتا اور باور کرواتا ہے کہ بھارت سے ہمارا قطعی کوئی ناتا، کوئی تعلق نہیں ہے، بھارت ہمارے لیے اجنبی اور غیر ہے اور ہم بھارت کے لیے اجنبی اور غیر ہیں۔ کشمیر اور بھارت دریا کے دو ایسے کنارے ہیں جو کبھی باہم ہو سکتے ہیں نہ یکجا۔

اجنبیت اور غیریت کے اس دریا کو بھارتی قابض اور استبدادی افواج نے اپنے مظالم سے کشمیریوں کے خون سے سرخ کر دیا ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب کشمیر کے کسی شہر، کسی قصبے، کسی گاؤں، کسی کوچہ و بازار سے کسی شہید کا لاشہ نہیں اُٹھتا۔ اور جب سے گجرات کا قصاب المعروف نریندر مودی بھارتی سنگھاسن پر براجمان ہُوا ہے، مقبوضہ کشمیر میں خون کی ہرروز ندیاں بہائی گئی ہیں۔

بھارتی پیلٹ بندوقوں کے چھروں سے مجبور و مقہور کشمیریوں کی آنکھوں کا نور چھینا گیا ہے۔ نہیں معلوم ان کی تعداد کتنی ہے! کشمیری اس وحشت اور درندگی سے ذبح کیے گئے ہیں کہ اب تو کشمیریوں نے اپنے شہدا کی تعداد بھی گننا اور شمار کرنا چھوڑ دیا ہے۔ نریندر مودی کے اس سفاک دَور میں مظلوم کشمیریوں کو راہ پر لانے اور اُن کی مزاحمت توڑنے کے لیے بھارتی افواج نے ایک نیا حربہ اور ہتھکنڈہ استعمال کیا ہے: کشمیریوں کے گھروں کو نذرِ آتش کرنا، یہ بہانہ کرکے کہ گھروں میں مجاہد و مزاحم کشمیری نوجوان پناہ لیے ہُوئے ہیں۔

سچی بات یہ ہے کہ ہم یہاں پاکستان میں بیٹھ کر کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے متنوع ظلم و ستم کے عشرِ عشیر کا بھی اندازہ نہیں کر سکتے۔ وہاں ہمارے تصورات سے بھی زیادہ تیزظلم کی چکی چل رہی ہے۔ یوں بھارت اور کشمیر کے درمیان اجنبیت و نفرت کی دیوار اتنی بلند ہو چکی ہے کہ بھارتی چاہیں بھی تو اسے مسمار نہیں کر سکتے۔ ایسے میں کشمیری 26 جنوری کو یومِ سیاہ کیوں نہ منائیں؟ وہ اگر اور کچھ نہیں کر سکتے تو کم از کم  یہ تو کر سکتے ہیں کہ بھارتی یومِ جمہوریہ کے موقعے پر گھروں اور دکانوں کے دروازے مقفل کر کے آنسو بہا لیں۔ گریہ اور سینہ کوبی کر سکیں۔

ہمارا سیلوٹ اور سلام ہے جبر کے سامنے ڈٹے کشمیری بھائی بہنوں کو۔ سب کشمیری اس بھارتی یومِ جمہوریہ پر بھی بھارت کا مقاطع کرتے ہُوئے سیاہ پرچم لہرا رہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں اس وقت کوئی عوامی اور منتخب حکومت بروئے کار نہیں ہے۔ کشمیر پر صدارتی راج کا جبریہ جھنڈا پھڑ پھڑا رہا ہے۔ ساری کشمیری حریت پسند قیادت پابجولاں ہے۔ ہمارا عقیدتوں بھرا سلام ہے انھیں بھی ۔ سید علی شاہ گیلانی،مسرت عالم، آسیہ اندرابی، پروینہ آہنگر،میر واعظ عمر فاروق، یاسین ملک ،شبیر احمد شاہ، عاشق حسین فکتو، محمد عباس انصاری، ذاکر رشید بھٹ، غلام احمد گلزار، حکیم عبدالرشید، محمد یاسین عطائی ایسے کشمیری لیڈروں کی ہمتوں کی داد دینی چاہیے۔ ان میں سے کوئی شدید بیمار ہے لیکن پھر بھی قابضین نے انھیں قید کر رکھا ہے۔

کوئی گھر میں نظر بند ہے۔ کوئی کشمیر سے باہر کسی نا معلوم جیل کی تاریک کوٹھڑی میں مقید ہے۔ سب ستم کے باوجود حریت پسندوںکے استقلال میں کوئی فرق نہیں آیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں تحریکِ حریت کو کچلنے کے لیے سات لاکھ بھارتی فوج کے علاوہ بارڈر سیکیورٹی فورس اور انڈین ریزرو پولیس فورس بھی تعینات ہے لیکن بھارت اپنے مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے میں پھر بھی ناکام ہو رہا ہے۔ جموں اینڈ کشمیر پبلک سیفٹی ایکٹ، جموں اینڈ کشمیر ڈسٹربڈ ایکٹ، ٹاڈا، آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ، پوٹا، نیشنل سیکیورٹی ایکٹ، آفیشل سیکرٹ ایکٹ وغیرہ ایسے درجنوں سخت قوانین محض کشمیریوں کو غلام رکھنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔

کشمیری اخبارات کی آزادی سلب کرنے کے لیے علیحدہ سے کئی قوانین وضع کیے گئے ہیں۔ نامور کشمیری اخبار نویس ڈاکٹر شجاعت بخاری دن دیہاڑے شہید کر دیے گئے مگر آٹھ مہینے گزرنے کے باوجود ابھی تک قاتلوں کا سراغ نہیں مل سکا ہے۔ ایسی خوں آشامی کی موجودگی میں کشمیری26 جنوری کو بھارتی یومِ جمہوریہ کے جشن میں کیوں اور کیونکر شریک ہو سکتے ہیں؟ دارالعلوم دیوبند کی انتظامیہ نے بھی کوئی پانچ دن پہلے اپنے طلبا کو اِن الفاظ میں نوٹس جاری کیا تھا: ’’یومِ جمہوریہ آ رہا ہے، طلبا غیر ضروری سفر سے اجتناب کریں ۔‘‘ اِسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بھارتی یومِ جمہوریہ بھارتی مسلمانوں کے اعصاب پر کتنا بھاری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔