پرائیویسی اور دور جدید کا انسان

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  جمعـء 25 جنوری 2019
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

جدید ایجادات نے انسان خصوصاً نئی نسل کو اپنا دیوانہ بنا لیا ہے، ہماری اکثریت اس کی صرف خوبیوں سے ہی واقف ہے، بہت کم لوگوں کو یہ پتا ہے کہ جدید ٹیکنالوجی نے انسان کے لیے بہت سے مسائل بھی کھڑے کردیے ہیں۔ ان ہی مسائل میں سے ایک مسئلہ انسان کی نجی معلومات یا پرائیویسی بھی ہے، جو نہ صرف غیر محفوظ ہوچکی ہے بلکہ سرمایہ دار اس سے خوب فائدہ حاصل کررہے ہیں۔

’’پرائیویسی اینڈ دی نیو ٹیکنالوجی‘‘ کے عنوان سے Simpson Garfinkel کا ایک مضمون امریکی اخبار ’’ دی نیشن ‘‘ میں شایع ہوا۔ اس میں سمپسن نے نئی ٹیکنالوجی کے باعث شہریوںکی ذاتی معلومات اورخفیہ معلومات کو چرانے اور ان سے لاحق خطرات کا تذکرہ کیا ہے، مضمون نگارکے مطابق لوگ ٹیلی فون خریدتے ہوئے، اسپتال میں علاج کرانے کے لیے، سوشل میڈیا پر اکاؤنٹ کھولتے ہوئے یا کسی بینک، کاروباری ادارے میں کام کی غرض سے معلومات فراہم کرتے ہیں جہاں ان کی یہ معلومات محفوظ نہیں رہتیں۔

یہ معلومات حاصل کرنیوالے ادارے آگے کسی اور ادارے کوفروخت کردیتے ہیں جہاں اس کاغلط استعمال بھی ہوتا ہے۔ آپ کا میڈیکل ریکارڈ جو آپ کے کسی اسپتال میں علاج کرانے پر اسپتال نے محفوظ کیا ہوتا ہے، آپ کو اسپتال ای میل کے ذریعے یہ اطلاع بھی دیتا ہے کہ آپ کا میڈیکل کا ریکارڈ آپ کی اجازت کے بغیرکسی ریسرچر کو فروخت کردیا گیا ہے۔

سمپسن کے مطابق جیسے جیسے ہم جدید دور میں داخل ہوتے جائیں گے، پرائیویسی ہمارے لیے سب سے اہم حق قرار دیا جائے گا مگراس کا مطلب یہ نہیں ہوگا کہ ایک فرد اپنی تمام نجی معلومات یا معاملات چھپا لے بلکہ یہ ہوگا کہ کونسی معلومات چار دیواری میں محدود اورکونسی تفصیلات سر عام کرناضروری ہے۔

جدید معاشرے میں جدید ٹیکنالوجی عام ہے مگر لوگوں نے ان کو اپنانے میں خوشی سے فیصلہ نہیں کیا اور ابتداء میں اپنی پرائیویسی کو افشاں ہونے یا آگے منتقل ہونے سے روکنے کی ہر ممکن کو شش کی۔ مثلاًموجوددہ دور میں پرائیویسی کاخوف صرف انٹرنیٹ تک محدود نہیں بلکہ اب ہماری ایک ایک حرکت، بول چال ، چلنا پھرنا سب کچھ زیر نگرانی ہے، سب کچھ ایک جگہ جمع ہو رہا ہے۔

مثلاً نیو یارک میں میٹروکارڈ کا نظام جس کے ذریعے مسافر با آسانی کرایہ ادا کرسکتے ہیں، یہ کارڈ ایک سوئیپ کے ذریعے مسافرکی تفصیلات اورموجودگی کی اطلاع دے دیتا ہے اور محفوظ بھی کرتا رہتا ہے۔ بقول اٹارنی جنرل ایلیٹ اسپیٹزر، نیویارک، جدید ٹیکنالوجی بے شمار فوائد لے کر آئی ہے مگر اس کے ساتھ ہمیں اس نے ایک دائرے میں لاکھڑا کیا ہے جہاں ہماری عادتیں، حرکات ، ہر بات زیرنگرانی ہے اور اسے محفوظ کیا جارہا ہے۔

بہت سے لوگوں کاخیال ہے کہ جدید معاشرے کے لیے یہ لازمی ہے مگر تنقید نگاروں کاخیال ہے کہ یہ پرائیویسی کی موت ہے۔ لوگوں کی ایک تعداد نے کریڈٹ کارڈ تک استعمال نہیںکیا اور نقد خریداری ہی کوترجیح دی کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کی ذاتی معلومات کسی اور تک منتقل ہو۔

انیس سو نوے میں  Lotus اور Equifax نامی کمپنیوں نے ملک کر ایک سی ڈی روم تیارکیا جس کو ’’ لوٹس مارکیٹ پلیس: ہاؤس ہولڈ‘‘ کا نام دیا گیا جس میں لوگوں کو اپنا نام، پتہ اوردیگر معلومات درج کرانا تھیں مگرامریکی عوام نے اس کوقبول نہیں کیا اور جب تیس ہزار سے زائد لوگوں نے یہ اعتراض کیا کہ اس ڈیٹا بیس سے ان کی معلومات افشاں ہو رہی ہیںتو امریکا میں یہ پروجیکٹ ختم کر دیا گیا۔ سمپسن کہتا ہے کہ آج ٹیکنالوجی کے اس دور میں ان اداروں کو جو حق آزادی دی گئی ہے وہ عوام کی ذاتی طور پر آزادی کونقصان پہنچا رہی ہے۔

اب تک یہ پالیسی نہیں بنائی گئی ہے کہ ان معلومات کا اختیارعوام ہی کے پاس ہو ۔آج ٹیکنالوجی فرد کی ہرطرح کی آزادی کا دم گھوٹ رہی ہے، آپ اس کو ڈیجیٹل کی خود مختاری کی آزادی کا حق کہیں یا پرائیویسی کا حق کہیں، لیکن ہمارے مستقبل کا تعین ہماری اس آزادی کو (جوکہ تقریباً مٹ رہی ہے) بہتر بنانے میںہی ہے۔ نئی ٹیکنالوجی نے ہمیں ایک الیکٹرانک مچھلی کے پیالے میں بند کردیا ہے جس میں ہماری ساری عادتیں ، پسند نا پسند اور ہمارے تمام تر افعال کو دیکھا اور محفوظ کیا جا رہا ہے۔

فوکس نیوز چینل نے اپنی نیوز میں گوگل استعمال کرنے والوں کی معلومات کی منتقلی سے متعلق ایک رپورٹ پیش کی جس میں بتایا گیا کہ کس طرح ایک فرد کی (جو موبائل فون استعمال کرتا ہے) تمام معلومات گوگل تک پہنچ جاتی ہے۔

خبر میں ایک رپورٹر اپنے ہاتھ میں دو جدید موبائل فون لیے ہوئے ہے۔ جس میں نہ توکوئی سم ہے نہ ہی کوئی وائی فائی کنکشن ہے اور ایک فون کو ’’ فلائٹ موڈ ‘‘ پر بھی کردیا گیا ہے ، یعنی یہ بالکل کسی ڈبے کی طرح غیر فعل نظرآتے ہیں مگر حقیقت میں ایسا نہیںہے۔ رپورٹرکہتا ہے کہ اس کے باوجود گوگل سب کچھ معلومات محفوظ کر رہا ہے۔ یہ بتانے کے لیے رپورٹر دونوں موبائل اپنے جیب میں رکھتا ہے اور پھر مختلف جگہوں پرجاتا ہے۔ پھر ۱۴ گھنٹے کے سفرکے بعد ان فونزکو چیک کرتا ہے۔

اس رپورٹر کا کہنا ہے کہ گوگل کا بزنس ماڈل ’’سر وائیلنس‘‘ کا کام صارفین کا ڈیٹا جمع کرنا اوراسے استعمال کرتے ہوئے اشتہار دیکھانا ہے۔ اب رپورٹرز اپنی ایک مڈل ڈیوائس کو وائی فائی سے اپنے دونوں فون کنکٹ کرتا ہے اورکہتا ہے کہ اس دوران ان موبائل کا ڈیٹا گوگل کو جائے گا۔

ہم ساتھ ساتھ اس کا ریکارڈ اپنے پاس بھی کاپی کرتے ہیں۔ جو فون فلائٹ موڈ پر نہیں تھا اس نے ریکارڈ کیے ۱۲۱ مقامات، ۱۵۲ سرگرمیاں اور ۱۵۲ بائیو میٹرک ریڈنگ ۔ یہ فون جیسے ہی کنکٹ ہوا، اس نے گوگل کو تین سو کلو بائیٹ کا ڈیٹا بھیج دیا۔ حتیٰ کہ اس فون نے رپورٹرزکی بالکل درست لوکیشن کا بھی بتا دیا۔ میٹا ڈیٹا میں ہر، ہر لمحے اور ہر ہر جگہ کا ریکارڈ موجود ہے کہ کب کب اورکہاں کہاں گئے۔کب پیدل چل رہے ہیں،کب گاڑی میں ہیں اورکب گاڑی سے اتر رہے ہیں ۔ اب اس کے بعد دوسرے فون کا جائزہ لیا گیا اس میں بھی کوئی سم نہیں لگی ہوئی تھی بلکہ یہ فلائٹ موڈ پر بھی تھا ۔اس نے دوسرے موبائل سے بھی زیادہ ڈیٹا ریکارڈ کیا اور آن ہوتے ہی گوگل کو منتقل کر دیا۔

اس کے ڈیٹا میں تمام معلومات سو فیصد درست تھیں ۔گوگل آپ کی تمام معلومات ریکارڈ کرتا ہے، ان مقامات کی بھی جس کی پرائیویسی کی توقع کی جاتی ہے مثلاً سرکاری ادارے ، چرچ اور اسپتال میں آپ کا وزٹ ۔ رپورٹرکا کہنا ہے کہ پیچیدہ یورزر ایگریمنٹ اور مفت سوفٹ وئیر کے ذریعے گوگل آپ سے پرائیوسی چھین لیتا ہے۔

فوکس نیوزکوگوگل نے بتایا کہ جو صارفین اپنی معلومات دینا نہیںچاہتے یا ٹریک ہونا نہیں چاہتے ان کو اپنی لوکیشن ہسٹری بند رکھنی چاہیے لیکن ایسا کرنا آپ کی سوچ سے کہیں زیادہ مشکل ہے کیونکہ گوگل کی اپیپس میں کچھ ایسے آپشن ہوتے ہیں جن کے لیے آپ خود بخود سر ویلینس کے لیے سائن کرلیتے ہیں ۔ سیلی کون ویلی آپ کی پرائیویسی فروخت کر رہی ہے۔ فوکس نیوزکے رپورٹرکا کہنا ہے کہ جب آپ مفت آئن لائن سروس استعمال کر رہے ہوتے ہیں تو ہوسکتا ہے کہ آپ کسٹمر نہ ہوں بلکہ پروڈکٹ ہوں، نہایت قابل غور ہے۔ یوں اس جدید عہد میں انسان کی پرائیویسی ہی گروی نہیں ہے بلکہ وہ خود بھی سرمایہ داروں کے ہاتھوں پروڈکٹ بن چکا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔