چِڑ؛ دلچسپ موضوع پر شگفتہ تحریر

عتیق احمد صدیقی  اتوار 27 جنوری 2019
شعور کی بالیدگی اور پختگی نے بھی فرق ڈالا ہے اب لوگ ایسی باتوں کو اخلاقی اور دینی اعتبار سے بھی نامناسب سمجھتے ہیں۔ فوٹو: فائل

شعور کی بالیدگی اور پختگی نے بھی فرق ڈالا ہے اب لوگ ایسی باتوں کو اخلاقی اور دینی اعتبار سے بھی نامناسب سمجھتے ہیں۔ فوٹو: فائل

ہماری بچپن، لڑکپن میں کچھ لوگوں کی چڑیں ہوا کرتی تھیں۔ اب شاذ ہی کسی کی سننے میں آتی ہے۔ کسی کی چڑ گلاب جامن ہوتی تو کوئی بینگن سے چڑتا۔ کوئی جلیبی کہہ دینے پر بل کھاتا تو کوئی بھنڈی کہہ دینے پر بھناجاتا۔

لوگ ضروریات زندگی میں شامل بہت معمولی اور بے ضرر اشیا کا محض نام لے لینے سے کیوں چڑ جاتے ہیں اور بسا اوقات، انتہائی شدید رد عمل کا اظہار کیوں کرتے ہیں؟ پھر اب سے تیس چالیس برس پہلے یہ مرض کیوں عام ہوا کرتا تھا۔ اب اس میں کمی کیوں آئی؟ ان سوالوں کے جواب کی تلاش سے دل چسپ اور معلومات افزا حقائق سامنے آسکتے ہیں۔ مگر اس سے پہلے چند واقعات ملاحظہ کیجیے۔

ہمارے محلے میں ایک بزرگوار تھے۔ ٹماٹر کہہ دینے پر آپ سے باہر ہوجاتے۔ پتھر ڈھیلا جو ہاتھ آتا کہنے والے کو پھینک مارتے، یہ دیکھے بنا کہ کہنے والا تو رفو چکر ہوچکا ان کا نشانہ کوئی اور بن سکتا ہے۔ سن رسیدہ اور پیروں کے کسی مستقل عارضے میں مبتلا تھے لاٹھی کے سہارے مشکل سے چل پاتے مگر بعض اوقات اس قدر جذباتی ہوجاتے کہ اپنی معذوری بھی یاد نہ رہتی ’’ٹماٹر‘‘ کہنے والے کا لاٹھی چھوڑ کر تعاقب کرنے کی کوشش کرتے اور نتیجتاً زمین بوس، پھر ان کی حالت دیدنی ہوتی۔ انتہا یہ کہ موصوف مسجد میں ہیں اور باہر سے کسی نے صدا لگادی تو وہاں بھی اول فول بکنے لگتے۔

لونڈوں لپاڑوں کو کوئی کیسے اور کہاں تک روک سکتا ہے۔ امام صاحب اور انتظامیہ نے ان کے مسجد میں داخلے پر ہی پابندی لگادی۔ پھیری لگاکر سبزی فروخت کرنے والے صدا لگاتے تو ٹماٹر کہنے سے پہلے محتاط نظریں چاروں اطراف ڈال لیتے اور پورا اطمینان ہوجانے پر ہی ٹماٹر کہتے۔ موصوف کی موجودگی میں ’’ٹماٹر‘‘ گول ہی کر جاتے، کبھی چوک ہوجاتی مگر فوراً ہی خیال بھی آجاتا تو ’’ٹما‘‘ پر سکتہ اختیار کرتے اور موصوف کی عدم موجودگی کا یقین ہونے پر ’’ٹر‘‘ بھی کہہ دیتے۔

کہیں جو آمنا سامنا ہوتا تو سبزی فروشوں کی سہمی نظریں موصوف پر اور موصوف کی شک بھری نگاہیں ان پر لگی رہتیں۔ بعض ایسے مستقل چھیڑنے والے تھے جنھیں دور سے دیکھ کر ہی وہ پتھر، ڈھیلے اٹھالیتے اور گزر زیادہ چھیڑ چھاڑ والے علاقوں سے ہوتا تو دو چار ڈھیلے کرتے جیبوں میں ڈال کر چلتے اور منتظر نگاہوں سے چھیڑ چھاڑ کرنے والوں کو تکارتے کہ کب وہ چھیڑیں اور کب یہ اپنے اسلحے کا ذخیرہ استعمال میں لائیں۔

ایک اور بزرگوار کی چڑ ’’کریلا‘‘ تھی۔ موصوف ہر صبح ناشتے کا سامان خود لایا کرتے تھے۔ ایک دن محلے کے شریر لڑکوں نے ایک کریلا ڈوری سے باندھ کر ان کے دروازے کی چوکھٹ سے لٹکادیا۔ حسب معمول صبح گھر سے نکلے تو دروازے کے عین درمیان جھولتا کریلا منہ یا یوں کہہ لیجیے کہ منہ کریلے سے ٹکرایا۔ گڑبڑا کر پیچھے ہٹے۔ کریلے کی جگہ سانپ بھی ہوتا تو شاید وہ حالت نہ ہوتی جو ہوئی۔ ہولناک چیخ ماری اور پلٹ کر گھر کے اندر کی طرف بھاگے۔ ہاتھ میں پکڑی دودھ کی بالٹی کہیں، سر پر دھری میلی جیکٹ ٹوپی کہیں۔ اہل خانہ بھی گھبراگئے، ایک ہنگامہ برپا ہوگیا، گلی محلے کے لوگ بھی دریافت حال کو دوڑے اور دروازے پر جھولتا کریلا دیکھ کر ہی ان میں سے اکثر معاملے کی تہہ تک پہنچ گئے۔

بعض کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ کچھ نے شرارت کرنے والوں پر ناراضی کا اظہار کیا، اس دوران اہل خانہ میں سے بھی لوگ باہر آئے اور کریلا جھولتا دیکھ کر جن آرا کا اظہار فرمایا کریلا باندھنے والوں کے علاوہ بھی کسی کا ان سے متفق ہونا ممکن نہ تھا۔ بعد ازاں گھر کے ایک بھیدی ہی نے بتایا تھا کہ کریلا لٹکانے کی واردات کا شکار ہونے کے بعد موصوف کے حواس قدرے بحال ہوئے تو انھوں نے فوراً غسل خانے کا رخ کیا اور چہرے کے اس حصے پر صابن کی آدھی بٹی گھس ڈالی جس سے کریلا ٹکرایا تھا۔

ایک اور صاحب کہ جن کی پرچون کی دکان تھی، ان کی چڑ ’’زردہ‘‘ تھی کسی دعوت میں جانے سے پہلے پوچھ لیتے ’’وہ‘‘ تو نہیں ہوگا اور اگر کوئی ’’وہ‘‘ کی تعریف طلب کرتا تو اس سے ناراض ہوجاتے اور پھر ہرگز اس کی دعوت میں نہ جاتے خواہ کیسا ہی قریبی عزیز ہوتا اور کیسی ہی اہم تقریب، ایک روز دکان پر ایک نوجوان آیا اور چار آنے کا ’’زردہ‘‘ طلب کیا یہ لوگ نئے نئے محلے میں آئے تھے۔ دکان دار نے نوجوان کو کڑی نگاہ سے دیکھا اور بولے ’’میاں! جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے نہیں محلے میں آئے ہوئے۔ ابھی سے پر پرزے نکالنے لگے۔ ماں باپ نے کوئی تمیز تہذیب نہیں سکھائی۔ چھوٹے بڑوں کے ادب آداب کا نہیں بتایا؟

نوجوان پریشان … جی!… میں نے کیا کیا ہے جو آپ اس طرح ڈانٹ ڈپٹ کررہے ہیں؟‘‘

’’دو منٹ میں پتا چل جائے گا، کیا کیا ہے، کیا نہیں کیا …یہ (محلے کا نام لے کر) بڑے بڑے سیدھے ہوجاتے ہیں یہاں آکر سمجھے! دکاندار کا مزاج سخت برہم تھا۔

’’آ…آپ… یقین کیجیے… میں نہیں سمجھا کہ آپ …‘‘ نوجوان نے پریشان لہجے میں کچھ کہنا چاہا جو دکاندار نے بات کاٹ دی اور زیادہ جارحانہ انداز میں کہا:

’’اے! بس… رہنے دے … میں سب جانتا ہوں، تیرا کن بچوں گفتگو میں اٹھنا بیٹھنا ہے … وہ خود تو مارے جائیں گے … ساتھ تجھ جیسے بھی لپیٹ میں آئیں گے مفت میں …‘‘

اس دوران کئی لوگ موقع پر جمع ہوگئے تھے۔ کسی نے معاملہ دریافت کیا تو نوجوان نے کہا ’’پتا نہیں کیوں ناراض ہورہے ہیں۔ میں تو زردہ‘‘ خبردار جو کچھ بکواس کی۔ جان سے ماردوں گا۔ دکاندار نے چیخ کر کہا اور ساتھ ہی آدھ پاؤ کا باٹ اٹھاکر نوجوان کے کھینچ مارا جو اس کے سینے پر پڑا۔ نوجوان ’’اوع‘‘ کی آواز نکال کر گھٹنوں کے بل بیٹھتا چلا گیا۔ خاصی چوٹ آئی تھی۔ موقع پر موجود لوگوں تو دکاندار پر لعن طعن کی ہی، اس کے گھر والوں نے بھی اچھی درگت بنائی تھی مگر انھوں نے چڑ نہ چھوڑی۔

ایک اور حضرت تھے بے چارے نیم پاگل۔ بکا کہے جاتے تھے۔ آگے پیچھے کوئی تھا نہیں، مانگ تانگ کے گزارا چلتا تھا۔ ان کی چڑ تھی ’’بکا روٹی چور‘‘ ادھر کسی نے بکا روٹی چور پکارا ادھر وہ جہاں تھے وہیں زمین پر لوٹ پوٹ ہوگئے۔ کچھ دیر مچلنے تڑپنے کے بعد اٹھتے اور کہنے والے پر اگر وہ بھاگ گیا ہے تب بھی اس جانب جدھر سے اس نے آواز لگائی تھی پتھروں کی بارش کردیتے۔ مگر جی اس پر بھی ہلکا نہ ہوتا۔ عالم جنون میں کوئی پختہ جگہ تلاش کرتے جو عموماً سڑک ہی ہوتی اور اس پر سردے دے مارتے حتیٰ کہ خون بہہ نکلتا، تب انھیں قرار آجاتا۔ اول اول تو سڑک سے ٹکرانے پر سر پھٹ جاتا تھا۔ برسوں کی مشق سے ایسا مضبوط ہوگیا کہ پوری قوت صرف کرنے پر بھی سلامت رہتا۔ سڑک پر کیا گزرتی، یہ سڑک جانے۔

یہ چڑ اور چڑوالوں کی یاد ہمیں یوں آئی تھی کہ ایک روز ہم اپنے فیملی قسائی سے گوشت خرید رہے تھے کہ اچانک اس نے سڑک کی جانب دیکھتے ہوئے آواز لگائی ’’اے او تربوج کدھر کو!؟…‘‘

ہم نے پلٹ کر دیکھا تو ایک مدفوق سا شخص دکان کے سامنے سے گزر رہا تھا ’’آرہا ہوں۔ ککڑی کی اولاد … آرہا ہوں۔ صبر رکھ‘‘ اس شخص نے جواب دیا تو ہمیں حیرت ہوئی۔ یہ شخص کسی طرف سے بھی تربوز نہیں تھا۔ تربوز کی پھانک کہا جاتا تو درست ہوتا۔ ہم نے قسائی سے یہی بات کہی تو وہ ہنس کر بولا: بھائی میاں! یہ پہلے واکعی میں تربوج تھا۔ گول مٹول، اِتی بڑی توند یہ گول گول کلائیاں، بس (گہری سانس) سوگر کھاگئی اس کو۔‘‘ ’’اور یہ ککڑی کی اولاد؟‘‘

’’ارے وہ!‘‘ قسائی نے چھپنی سے ہنسی کے ساتھ کہا ’’جب ہم لوگ اسے تربوج کہہ ویںتھے تو او وی ہمیں کچھ نہ کچھ کیوے تھا۔ جیسے مجھے ککڑی اور یہ سوکھی مرچی‘‘ قسائی کا اشارہ تیزی سے چاپڑ چلاتے محنتی سے شخص کی طرف تھا۔ جو ہمارا ہی قیمہ بنارہا تھا۔ بوٹیاں پہلے ہی بن چکی تھیں۔ قیمہ بھی بن گیا تو ہم تھیلا سنبھال کر وہاں سے چل دیے۔ گھر کے قریب پہنچے تو دروازے پر ایک لاٹ صاحب ٹائپ کے شخص کو کھڑا پایا۔ شکل جانی پہچانی سی لگی اور پھر دل خوشی سے کھل اٹھا۔ وہ ہمارا لنگوٹیا مناف تھا جسے ہم پیار سے منفی کہا کرتے تھے۔

منفی، نفسیات کا ڈاکٹر اور طویل عرصے سے آئرلینڈ میں مقیم تھا۔ ہم والہانہ ایک دوسرے سے لپٹ گئے۔ یہ جان کر تو خوشی کئی چند ہوگئی کہ وہ ایک روز ہمارے گھر قیام کے پروگرام کے ساتھ وارد ہوا تھا۔ حسن اتفاق کہ اگلے روز ہماری چھٹی بھی تھی خوب باتیں ہوئیں۔ پرانی یادوں کا تذکرہ کبھی ہمارے مشترکہ قہقہوں سے فضا کو گرما دیتا تو کبھی دلوں کو اداس کرجاتا۔ دونوں کا اپنا اپنا حسن، اپنا اپنا مزا تھا۔ کہتے ہیں ماضی خواہ کتنا ہی تلخ ہو اس کی یادیں اور باتیں ہمیشہ میٹی لگتی ہیں۔

باتوں کے دوران چڑ اور چڑنے چڑانے والوں کا تذکرہ بھی نکلا ہم نے سوال اٹھایا ’’آخر کیا وجہ ہے کہ انتہائی بے ضرر اور معمولی چیزیں لوگوں کی چڑ بن جاتی ہیں۔ ان کا محض نام لے لینے بلکہ اشارۃً، کنایۃً بھی توجہ مبذول کرانے سے جاہل جہلا تورہے ایک طرف اچھے بھلے معقول، سمجھ دار اور شائستہ انسان بھی پھٹ پڑتے ہیں۔ معقولیت کے دائرے سے نا معقولیت کی حدود میں داخل ہوجاتے ہیں، اپنا مقام و مرتبہ یاد رہتا ہے نہ عزت و وقار کا پاس۔‘‘ ’’منفی‘‘ کا جواب تھا : بلا شبہ یہ ایک نفسیاتی معاملہ ہے اور اس پر نفسیات کے اساتذہ نے بحث بھی کی ہے۔

تاہم اس حوالے سے ہمارے (ماہرین نفسیات کے) پاس شکایات نہ آنے کے برابر آتی ہیں کیوںکہ پاکستان ہی نہیں دنیا کے کسی بھی معاشرے میں عوام کی سطح پر اسے کوئی بیمار سمجھاہی نہیں جاتا۔ ’’منفی‘‘ کا کہنا تھا ایسا ممکن ہے کہ کوئی شخص جس چیز سے چڑ رہا ہو اس سے اس کی کوئی تلخ تکلیف دہ یا نا خوش گوار یاد وابستہ ہو جو ابتدا میں اس کے لیے کوئی اہمیت بھی نہ رکھتی ہو مگر لوگوں کے علم میں آجائے ان کی طرف سے تکلیف دینے کی نیت سے نہ سہی۔ چھیڑچھاڑ یا ہنسی مذاق کے طور پر ہی اس کی بار بار موقع بے موقع تکرار اس کے لیے ایک ذہنی ضرب کی حیثیت اختیار کر گئی ہو اور بالآخر وہ لمحہ آجائے جب ایک بالکل عام سا لفظ اس شخص کے لیے ایک دھماکا خیز چیز بن جائے جب کہ معاشی و معاشرتی حیثیت، تعلیمی مرتبہ، شخصیت کی کمزوری، دیگر ذہنی و نفسیاتی الجھنیں اور پریشانیاں خاندان اور ماحول کا پس منظر سمیت متعدد اسباب ہوسکتے ہیں۔‘‘

’’مگر بیان کردہ اسباب و علل تو پہلے کے مقابلے میں اب زیادہ وسیع اور شدید نظر آتے ہیں یہ چڑنے والوں کی تعداد کم کیوں ہوگئی؟ کیا اب اس میں اضافہ نہیں ہونا چاہیے تھا؟‘‘ ہمارا استفسار تھا۔

منفی نے کہا ’’پینتیس، چالیس برس پہلے کے مقابلے میں آج ابلاغ کے ذریعے بہت زیادہ اور متنوع ہوگئے ہیں تعلیم و تعلم، فکر و نظر کا دائرہ وسیع ہوا ہے۔ پھر کسب معاش کی بھاگ دوڑ بھی بہت بڑھ گئی ہے۔ اب نہ چڑانے والوں کے پاس چڑانے کا وقت ہے اور نہ چڑنے والوں کے پاس چڑنے کا۔ ٹی وی، کیبل، انٹرنیٹ کی وجہ سے لوگ فارغ وقت بھی اب گھروں ہی میں گزارتے ہیں نہ پہلے جیسا ملنا جلنا ہے نہ بیٹکھیں ہیں نہ چوپالیں۔ دیوار سے دیوار جڑی ہونے کے باوجود ہفتوں پندرہیوں میں کہیں ملاقات ہوتی ہے وہ بھی علیک سلیک تک محدود۔ جب لوگ ایک دوسرے سے ملیں گے نہیں تو کمزوریوں، خامیوں، عادات و خصائل سے بھی واقف نہیں ہوںگے۔ چڑیں بنیں تو کیسے۔ پھر شعور کی بالیدگی اور پختگی نے بھی فرق ڈالا ہے اب لوگ ایسی باتوں کو اخلاقی اور دینی اعتبار سے بھی نامناسب سمجھتے ہیں۔

اور جہاں تک کھانے پینے کی اشیا سے چڑنے کی بات ہے تو اس کی وجہ صاف ہے کوئی چیز کسی صاحب کو پسند نہ ہو اور دوست احباب یا گھر والے انھیں چھیڑنے کے لیے بار بار ان کے سامنے اسی چیز کا ذکر کریں یا وہ چیز ان کے سامنے لائی جاتی رہے تو ایک وقت آئے گا جب وہ صاحب اس سے چڑنے لگیںگے اس معاملے میں ذاتی انا تکبر اور احساس برتری کا بھی اہم کردار ہوسکتا ہے‘‘ منفی نے اس حوالے سے اور بھی باتیں کیں، بعض اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالی مگر سبب بیان سے رہ گیا چلیے وہ ذیل میں بیان کیے گئے واقعے سے خود سمجھ لیجیے۔

1978 کی بات ہے ہم ایک روزنامہ سے وابستہ تھے ایک روز دفتر کے سٹی روم میں جہاں رپورٹر بھی بیٹھا کرتے تھے چڑ اور چڑنے کا تذکرہ نکل آیا۔ ایک صاحب کا کہنا تھا بھئی ہم تو اتنا جانتے ہیں کہ اچھا یا برا محسوس کرنا انسان کی فطرت میں داخل ہے ہر انسان کو کوئی چیز یا بات اچھی لگتی ہے، کوئی بری، ان میں بھی کوئی زیادہ کوئی کم، جو چیز بری لگے انسان اس کو نا پسند کرتا ہے۔ بہت بری لگتی ہو تو اس کی ناپسندیدگی بھی زیادہ ہوتی ہے اور اگر وہی چیز بار بار اس کے سامنے آئے وہ اس سے جتنا جان چھڑائے اتنی ہی وہ اس کی جان کو آئے تو اس کا منفی رد عمل بھی شدید تر ہوتا جاتا ہے۔ اسی شدید ترین رد عمل کا نام ’’چڑ‘‘ ہے۔

’’اماں چھوڑو بھی۔ فضول باتیں کرتے ہو‘‘ ایک صاحب (نام فرض کرلیجے وارثی) بولے ’’سچی بات یہ ہے کہ چڑوڑ کچھ نہیں ہوتی یہ جو چڑنے والے ہوتے ہیں ناں ڈراما کرتے ہیں، ڈراما، لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے، ورنہ تو ہمیں بھی بہت سی چیزیں ناپسند ہیں۔ ہماری تو کوئی چڑ نہیں ہے۔

’’اچھا‘‘، سامنے بیٹھے نوجوان رپورٹر کی آنکھوں میں شرارت بھری چمک ابھری ’’آپ کی کوئی چڑ نہیں ہے؟‘‘

’’نہیں، میری کوئی چڑ وڑ نہیں ہے۔ باؤلا تھوڑی ہوں میں۔‘‘ وارثی صاحب نے جواب دیا۔ لہجے میں تکبر تھا بس اس کے بعد تو ایک سلسلہ شروع ہوگیا۔ نوجوان رپورٹر نے سامنے بیٹھے ساتھی رپورٹر کو مخاطب کیا:

’’ارے کچھ سنا تم نے، یہ وارثی صاحب کیا کہہ رہے ہیں‘‘

’’نہیں تو! کیا کہہ رہے ہیں‘‘

’’کہتے ہیں، ان کی کوئی چڑ نہیں ہے‘‘

’’اچھا! بھئی کمال ہے‘‘

’’کیا کہا!‘‘ اسی وقت دروازے کے قریب کھڑے ایک اور رپورٹر نے چونکنے کی اداکاری کی کس کی چڑ نہیں ہے…‘‘

اس کا سوال ابھی تشنہ جواب تھا کہ سٹی ایڈیٹر صاحب کمرے میں داخل ہوئے، کسی نے کہا بھئی صاحب بھی آگئے۔

’’ہائیں، آگئے کیا مطلب، کیا پہلی بار آئے ہیں‘‘ شگفتہ مزاج سٹی ایڈیٹر صاحب نے برملا کہا:

’’آپ تو پہلی بار نہیں آئے مگر ہم آپ کو ایسی بات بتاتے ہیں جو آپ پہلی بار سنیں گے‘‘

’’اچھا!‘‘ سٹی ایڈیٹر صاحب نے کرسی سنبھالتے ہوئے پرشوق لہجے میں پوچھا ’’وہ کیا‘‘

’’یہ اپنے وارثی صاحب ہیں ناں!‘‘ رپورٹر نے وارثی صاحب کی نظر بچاکر ایک آنکھ دباتے ہوئے کہا:

’’تو یہ کون سی نئی بات ہے۔ یہ تو چالیس پینتالیس برس سے اس دھرتی اور سال بھر سے یہاں، ہماری چھاتی پر مونگ دل رہے ہیں۔‘‘ سٹی ایڈیٹر صاحب نے رپورٹر کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی تبصرہ فرمادیا۔

’’افوہ! آپ پوری بات تو سنیں‘‘ رپورٹر نے قدرے جھنجھلا کر دوبارہ آنکھ دبائی ’’وارثی صاحب کی کوئی چڑ نہیں ہے، یہ بات خود انھوں نے ہمیں ابھی بتائی ہے۔‘‘

’’ہائیں … چڑ نہیں ہے … یہ کیا چکر ہے وارثی!

’’ارے کچھ نہیں صاحب … بچے ہیں، ایک بات ہوگئی اسی کو رٹے جارہے ہیں۔‘‘ اسی وقت ایک رپورٹر ایک ادھیڑ عمر شخص کے ساتھ دروازے پر نمودار ہوا جو اکثر ایک تنظیم کی پریس ریلیز لایا کرتا تھا۔ رپورٹر کا ایک ہاتھ اس شخص کے کاندھے پر تھا دوسرے سے وارثی صاحب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رازدارانہ انداز میں مگر خاصی بلند آواز سے بولا ’’چاچا انھیں پہچانتے ہو!‘‘

نہیں تو! چاچا نے دانت نکالے، ویسے ایک آدھ بار دیکھا ہے یہیں‘‘

’’یہ ہمارے بڑے محترم ساتھی وارثی صاحب ہیں اور ان کی کوئی چڑ نہیں ہے‘‘

’’اچھا جی!‘‘ بڑی اچھی بات ہے چاچا نے بدستور دانت نکالتے ہوئے کہا اور پریس ریلیز قریب رکھے بکس میں ڈال کر کمرے سے نکل گئے۔

دوسرے رپورٹر نے کمرے کے سامنے سے گزرتے ایک کارکن کو آواز دی جو کچھ ہی روز پہلے ادارے سے وابستہ ہوا تھا۔ وہ قریب آیا تو وارثی صاحب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’تم انھیں تو نہیں جانتے ہوںگے ابھی۔‘‘ اس نے نفی میں گردن ہلائی۔ رپورٹر نے کہا ’’یہ وارثی صاحب ہیں اور ان کی کوئی چڑ نہیں ہے۔‘‘

وہ دفتر سے باہر کا کوئی شخص تھا اسے بھی روکا گیا۔

’’جی فرمائیے‘‘، اس نے استعجاب سے پوچھا:

’’دیکھو! یہ ہمارے بہت محترم ساتھی وارثی صاحب ہیں اور ان کی کوئی چڑ نہیں ہے‘‘

’’اچھا!‘‘ اس نے الجھی الجھی نظروں سے مخاطب کو دیکھا اور جانے لگا۔

’’ہمیں پتا تھا تمہیں یقین نہیں آئے گا۔ چلو تم خود ہی پوچھ لو!‘‘

اس شخص کی آنکھوں میں حیرت تھی اور انداز میں جھجک

’’ارے پوچھ لو، پوچھ لو، ناراض تھوڑی ہوںگے کیوں وارثی صاحب!‘‘

بات بلکہ ’’واردات‘‘ اب وارثی صاحب کی سمجھ میں آنے لگی تھی چہرے پر رنگ سے آ جارہے تھے۔ انھوں نے ایک خشمگیں نگاہ اس شخص پر ڈالی اور دہاڑے:

’’آ:پ کا کام ہوگیا اب تشریف لے جائیے، یا میری بلائیں لینے کا ارادہ ہے جناب کا۔‘‘ وہ شخص تیزی سے نکل بھاگا۔

اس دوران اور رپورٹر جن کے ساتھ اب بعض دیگر نوجوان کارکن بھی شامل ہوگئے تھے‘ دیگر شعبوں سے لوگوں کو لاتے اور انہیں بتاتے رہے کہ ’’یہ وارثی صاحب ہیں اور ان کی کوئی چڑ نہیں ہے۔‘‘ سٹی روم کے آگے اچھا خاصا ہجوم جمع ہوگیا تھا، کارکن مسکراتی نظروں سے وارثی صاحب کو دیکھتے ہوئے آپس میں سرگوشیاں کررہے تھے۔

وارثی صاحب کی حالت اب دیکھنے والی تھی۔ چہرہ سرخ ہوگیا تھا، نتھنے پھول پچک رہے تھے۔ پیشانی پر سلوٹیں گہری ہوتی جارہی تھیں اور آنکھوں سے گویا شرارے پھوٹ رہے تھے۔

راہ داری کے ایک سرے پر پونچھا لگاتا خاکروب اب سٹی روم کے دروازے تک آپہنچا تھا، اسے بھی آواز دی گئی۔

’’ تو انہیں جانتا ہے ناں!…‘‘ وارثی صاحب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا گیا۔

’’ ہاں جی، کیوں نہیں…‘‘ وارثی صاحب ہیں… بڑے اچھے آدمی ہیں…‘‘ اس نے بانچھیں پھیلائیں۔

’’مگر ان کی اصل خوبی کا تجھے پتا نہیں ہوگا۔ ہمیں بھی آج ہی معلوم ہوئی ہے۔‘‘

’’اچھا!… وہ کیا بھلا؟…‘‘ خاکروب نے بڑے اشتیاق سے پوچھا۔

’’ان کی کوئی چڑ نہیں ہے!…‘‘

وارثی صاحب میں اب ضبط کا یارانہ نہ رہا تھا۔ پوری قوت سے چیخے ’’ابے چوپ‘‘ خاکروب سہم کر رہ گیا۔

’’یہ کیا ذلالت لگائی ہے تم لوگوں نے … بہت دیر سے برداشت کررہا ہوں…‘‘

’’مگر ہوا کیا وارثی صاحب!…‘‘ ایک رپورٹر نے کمال معصومیت سے پوچھا۔

’’میرا سر ہوا ہے!…‘‘ انہوں نے بھنّا کر جواب دیا اور تنتناتے ہوئے ایڈیٹر صاحب کے کمرے میں جاگھسے۔

’’دیکھیے صاحب! ان لوگوں کو سمجھالیجیے، ورنہ اچھا نہ ہوگا۔ اب تک صرف آپ کے لحاظ میں خاموش ہوں۔‘‘

ایڈیٹر صاحب کچھ لکھنے میں مصروف تھے۔ سر اٹھا کر تشویشی نظروں سے انہیں دیکھا اور سامنے رکھی کرسی کی طرف اشارہ کیا۔ وارثی صاحب بیٹھ گئے تو انہوں نے کہا:

’’ہاںو اب آرام سے بتائیے کیا بات ہے…‘‘ اور وارثی صاحب کی زبانی پورا احوال سن کر بولے:

’’تو بھئی اس میں اس قدر غضب ناک ہونے کی کیا بات ہے، جب آپ خود کہتے ہیں آپ کی کوئی چڑ نہیں ہے تو…‘‘

’’صاحب… یعنی آپ بھی !…‘‘ وارثی صاحب چلاّ اٹھے… ایک جھٹکے سے کرسی سے اٹھے اور کمرے سے نکل گئے۔’’کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں۔‘‘ یہ ان کا آخری جملہ تھا جو دفتر کے درو دیوار نے سنا۔ بعدازاں انہوں نے اپنا استعفیٰ بھجوادیا تھا۔n

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔