- پاکستانی ٹیم میں 5 کپتان! مگر کیسے؟
- پختونخوا کابینہ؛ ایک ارب 15 کروڑ روپے کا عید پیکیج منظور
- اسلام آباد ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی رہنما کو عمرے پرجانے کی اجازت دے دی
- وزیر اعظم نے مشترکہ مفادات کونسل کی تشکیل نو کر دی
- پنجاب گرمی کی لپیٹ میں، آج اور کل گرج چمک کیساتھ بارش کا امکان
- لاہور میں بچے کو زنجیر سے باندھ کر تشدد کرنے کی ویڈیو وائرل، ملزمان گرفتار
- پشاور؛ بس سے 2 ہزار کلو سے زیادہ مضر صحت گوشت و دیگر اشیا برآمد
- وزیراعلیٰ پنجاب نے نوازشریف کسان کارڈ کی منظوری دے دی
- بھارتی فوجی نے کلکتہ ایئرپورٹ پر خود کو گولی مار کر خودکشی کرلی
- چائلڈ میرج اور تعلیم کا حق
- بلوچستان؛ ایف آئی اے کا کریک ڈاؤن، بڑی تعداد میں جعلی ادویات برآمد
- قومی ٹیم کی کپتانی! حتمی فیصلہ آج متوقع
- پی ایس 80 دادو کے ضمنی انتخاب میں پی پی امیدوار بلامقابلہ کامیاب
- کپتان کی تبدیلی کیلئے چیئرمین پی سی بی کی زیر صدارت اہم اجلاس
- پاکستان کو کم از کم 3 سال کا نیا آئی ایم ایف پروگرام درکار ہے، وزیر خزانہ
- پاک آئرلینڈ ٹی20 سیریز؛ شیڈول کا اعلان ہوگیا
- برج خلیفہ کے رہائشیوں کیلیے سحر و افطار کے 3 مختلف اوقات
- روس کا جنگی طیارہ سمندر میں گر کر تباہ
- ہفتے میں دو بار ورزش بے خوابی کے خطرات کم کرسکتی ہے، تحقیق
- آسٹریلیا کے انوکھے دوستوں کی جوڑی ٹوٹ گئی
کُتوں کی طبقاتی تقسیم
کتے دو قسم کے ہوتے ہیں ایک کُتا اور دوسرا بہت ہی کُتا۔ صرف کُتا ’’تجھ کو پَرائی کیا پڑی، اپنی نبیڑ تو‘‘ کے فلسفے پر یقین رکھتے ہوئے اپنے کام سے کام رکھتا ہے اور اتنا شریف النفس، امن پسند اور صلح جو ہوتا ہے کہ کسی نے دُم پر پاؤں رکھ دیا تو بھی بس ’’چیاؤں‘‘ کی احتجاجی آواز کے ساتھ بھاگ لیے۔
ذرا مزاج برہم ہوا تو کچھ دور جاکر ہلکی سے بھؤ بھؤ کردی، جیسے کہہ رہے ہوں ’’یہ کیا بدتمیزی ہے یار۔‘‘ جو بہت ہی کُتا ہوتا ہے وہ ’’میری بھونک میری مرضی‘‘ کا قائل ہوتا ہے۔ اس کا نظریۂ حیات ہوتا ہے،’’بھؤ سے غرض نشاط ہے کس روسیاہ کو۔۔۔۔اک گونہ بھونکنا مجھے دن رات چاہیے۔‘‘
اس نظریے پر عمل کرتے ہوئے یہ مرد عورت، بچے بوڑھے، اجنبی شناسا، پیدل سوار۔۔۔ہر ایک پر بھونکتا ہے، اور جب اور جہاں تک ممکن ہو پیچھے بھاگ کر ڈرانا ضروری سمجھتا ہے۔ بہت ہی کُتے ہر علاقے میں بہت ہی ہوتے ہیں، جو رات کو لوگوں کی نیندیں حرام کرنے کے لیے بھونک سے بھونک ملاکر بھونکتے ہیں۔
یاد رکھیے کہ یہ بات انسانوں کو پتا ہے کہ جو بھونکتے ہیں وہ کاٹتے نہیں، مگر اس معاملے میں کتوں پر اعتبار نہیں کرنا چاہیے، بھونکتے کُتے سے بھی بچ کر گزریے ہوسکتا ہے وہ کاٹنے والا ہو بے وقوف بنانے کے لیے بھونک رہا ہو۔ ہم نے یہ تمہید صرف اتنا بتانے کے لیے باندھی ہے کہ کتوں کی دو ہی اقسام ہوتی ہیں، لیکن ہم انسانوں نے طبقاتی سوچ کے تحت انھیں بھی اعلیٰ ادنیٰ اور اونچ نیچ کی لکیروں سے بانٹ دیا ہے۔
اسی طبقاتی سوچ کا مظاہرہ ممبئی کے ایک فیشن شو میں نظر آیا۔ اس فیشن شو میں جیسے ہیں ماڈلز اپنا روپ دکھانے ریمپ پر پہنچیں ایک اصل نسل اور خالص گلی کا کُتا بھی ٹہلتا ہوا آگیا اور ریمپ پر واک شروع کردی۔ یہ وہ کُتا تھا جو آوارہ کُتے کے نام سے معروف ہے، اور جسے ’’بہن کے گھر میں بھائی کُتا، ساس کے گھر جمائی کُتا‘‘ کے محاورے کے ذریعے بے عزت کیا اور بہنوئی کے ہاں مقیم سالے اور سُسرال میں ٹھکانا کیے داماد کی غیرت جگانے کی ناممکن کوشش کی گئی ہے۔
چناں چہ یہ کمی کمین کتوں کی صف میں آتا ہے۔ اگر اس کی جگہ ایلسیشن یا پپی جیسا کوئی ہر قسم کے کُتے پن سے محروم نام نہاد کُتا اس مقام پر پہنچ جاتا تو ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا، ماڈلز اسے گود میں اٹھاتیں، چومتیں چاٹتیں، اس کے ساتھ سیلفی بنواتیں، اور اگر کوئی بُل ڈاگ یا جرمن شیفرڈ ریمپ پر نمودار ہوجاتا تو یہ شو ماڈلز کی واک سے ان کی بھاگ میں بدل جاتا۔ لیکن آنے والا بے چارہ گلی کا کُتا تھا اس لیے کسی نے کوئی اہمیت نہ دی۔
سوال یہ ہے کہ یہ کُتا فیشن شو میں آیا کیوں؟ یہ شو ملبوسات کا مظاہرہ تھا، اگر واک کے لیے آنا ہی تھا تو کچھ پہن کر آتا، ننگا ہی چلا آیا۔ شاید اُس نے سمجھا ہو کہ یہ ویسا ہی شو ہے جس میں ماڈلز میک پر کتنا ہی وقت ضائع کریں خود پر کپڑے بالکل ضائع نہیں کرتیں۔ سو وہ ’’ہم سا ہو تو سامنے آئے‘‘ کا چیلینج کرتا واک کرنے چلا آیا۔ بہ ہرحال یہ اس کا پہلا تجربہ تھا، اگلی بار یا تو کسی کم کپڑوں والے شو میں بغیر کپڑوں کے جاکر ’’یہ کرکے دکھاؤ‘‘ کہہ کر ماڈلز کو چڑائے گا ورنہ ڈریس شو میں کچھ پہن کر شریک ہوگا۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔