کُتوں کی طبقاتی تقسیم

محمد عثمان جامعی  اتوار 27 جنوری 2019
ذرا مزاج برہم ہوا تو کچھ دور جاکر ہلکی سے بھؤ بھؤ کردی، جیسے کہہ رہے ہوں ’’یہ کیا بدتمیزی ہے یار۔‘‘  فوٹو: فائل

ذرا مزاج برہم ہوا تو کچھ دور جاکر ہلکی سے بھؤ بھؤ کردی، جیسے کہہ رہے ہوں ’’یہ کیا بدتمیزی ہے یار۔‘‘ فوٹو: فائل

کتے دو قسم کے ہوتے ہیں ایک کُتا اور دوسرا بہت ہی کُتا۔ صرف کُتا ’’تجھ کو پَرائی کیا پڑی، اپنی نبیڑ تو‘‘ کے فلسفے پر یقین رکھتے ہوئے اپنے کام سے کام رکھتا ہے اور اتنا شریف النفس، امن پسند اور صلح جو ہوتا ہے کہ کسی نے دُم پر پاؤں رکھ دیا تو بھی بس ’’چیاؤں‘‘ کی احتجاجی آواز کے ساتھ بھاگ لیے۔

ذرا مزاج برہم ہوا تو کچھ دور جاکر ہلکی سے بھؤ بھؤ کردی، جیسے کہہ رہے ہوں ’’یہ کیا بدتمیزی ہے یار۔‘‘ جو بہت ہی کُتا ہوتا ہے وہ ’’میری بھونک میری مرضی‘‘ کا قائل ہوتا ہے۔ اس کا نظریۂ حیات ہوتا ہے،’’بھؤ سے غرض نشاط ہے کس روسیاہ کو۔۔۔۔اک گونہ بھونکنا مجھے دن رات چاہیے۔‘‘

اس نظریے پر عمل کرتے ہوئے یہ مرد عورت، بچے بوڑھے، اجنبی شناسا، پیدل سوار۔۔۔ہر ایک پر بھونکتا ہے، اور جب اور جہاں تک ممکن ہو پیچھے بھاگ کر ڈرانا ضروری سمجھتا ہے۔ بہت ہی کُتے ہر علاقے میں بہت ہی ہوتے ہیں، جو رات کو لوگوں کی نیندیں حرام کرنے کے لیے بھونک سے بھونک ملاکر بھونکتے ہیں۔

یاد رکھیے کہ یہ بات انسانوں کو پتا ہے کہ جو بھونکتے ہیں وہ کاٹتے نہیں، مگر اس معاملے میں کتوں پر اعتبار نہیں کرنا چاہیے، بھونکتے کُتے سے بھی بچ کر گزریے ہوسکتا ہے وہ کاٹنے والا ہو بے وقوف بنانے کے لیے بھونک رہا ہو۔ ہم نے یہ تمہید صرف اتنا بتانے کے لیے باندھی ہے کہ کتوں کی دو ہی اقسام ہوتی ہیں، لیکن ہم انسانوں نے طبقاتی سوچ کے تحت انھیں بھی اعلیٰ ادنیٰ اور اونچ نیچ کی لکیروں سے بانٹ دیا ہے۔

اسی طبقاتی سوچ کا مظاہرہ ممبئی کے ایک فیشن شو میں نظر آیا۔ اس فیشن شو میں جیسے ہیں ماڈلز اپنا روپ دکھانے ریمپ پر پہنچیں ایک اصل نسل اور خالص گلی کا کُتا بھی ٹہلتا ہوا آگیا اور ریمپ پر واک شروع کردی۔ یہ وہ کُتا تھا جو آوارہ کُتے کے نام سے معروف ہے، اور جسے ’’بہن کے گھر میں بھائی کُتا، ساس کے گھر جمائی کُتا‘‘ کے محاورے کے ذریعے بے عزت کیا اور بہنوئی کے ہاں مقیم سالے اور سُسرال میں ٹھکانا کیے داماد کی غیرت جگانے کی ناممکن کوشش کی گئی ہے۔

چناں چہ یہ کمی کمین کتوں کی صف میں آتا ہے۔ اگر اس کی جگہ ایلسیشن یا پپی جیسا کوئی ہر قسم کے کُتے پن سے محروم نام نہاد کُتا اس مقام پر پہنچ جاتا تو ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا، ماڈلز اسے گود میں اٹھاتیں، چومتیں چاٹتیں، اس کے ساتھ سیلفی بنواتیں، اور اگر کوئی بُل ڈاگ یا جرمن شیفرڈ ریمپ پر نمودار ہوجاتا تو یہ شو ماڈلز کی واک سے ان کی بھاگ میں بدل جاتا۔ لیکن آنے والا بے چارہ گلی کا کُتا تھا اس لیے کسی نے کوئی اہمیت نہ دی۔

سوال یہ ہے کہ یہ کُتا فیشن شو میں آیا کیوں؟ یہ شو ملبوسات کا مظاہرہ تھا، اگر واک کے لیے آنا ہی تھا تو کچھ پہن کر آتا، ننگا ہی چلا آیا۔ شاید اُس نے سمجھا ہو کہ یہ ویسا ہی شو ہے جس میں ماڈلز میک پر کتنا ہی وقت ضائع کریں خود پر کپڑے بالکل ضائع نہیں کرتیں۔ سو وہ ’’ہم سا ہو تو سامنے آئے‘‘ کا چیلینج کرتا واک کرنے چلا آیا۔ بہ ہرحال یہ اس کا پہلا تجربہ تھا، اگلی بار یا تو کسی کم کپڑوں والے شو میں بغیر کپڑوں کے جاکر ’’یہ کرکے دکھاؤ‘‘ کہہ کر ماڈلز کو چڑائے گا ورنہ ڈریس شو میں کچھ پہن کر شریک ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔