افغانستان: جنرل ڈیمپسی کے جہاز پر راکٹ حملہ، 2 اہلکار زخمی

خبر ایجنسیاں  جمعرات 23 اگست 2012
حملے میں جنرل ڈیمپسی کے طیارے کے علاوہ ایک ہیلی کاپٹر کو بھی نقصان پہنچا، پولیس وردی میں ملبوس طالبان کے حملے میں نیٹو کا فوجی ہلاک. فوٹو: فائل

حملے میں جنرل ڈیمپسی کے طیارے کے علاوہ ایک ہیلی کاپٹر کو بھی نقصان پہنچا، پولیس وردی میں ملبوس طالبان کے حملے میں نیٹو کا فوجی ہلاک. فوٹو: فائل

کابل: افغانستان میں امریکی چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل مارٹن ڈیمسی کے طیارے پر راکٹوں کے حملہ کے نتیجہ میں دو افراد زخمی ہوگئے۔ امریکی فوج کے ایک ترجمان کے مطابق اتوار اور پیرکی درمیانی شب شدت پسندوں نے جنرل ڈیمسی کے طیارے کو ہدف بناتے ہوئے امریکی فوجی اڈے پر دو میزائل داغے جس کے باعث طیارے کے علاوہ ایک ہیلی کاپٹرکوبھی نقصان پہنچا جبکہ دو افراد زخمی ہوگئے۔

انہوں نے کہا کہ حملہ کے وقت جنرل ڈیمسی فوجی اڈے پر انپی عارضی رہائش گاہ پر موجود تھے اور وہ حملہ میں محفوظ رہے تاہم بعد میں وہ دوسرے طیارے کے ذریعے بیس سے روانہ ہوگئے۔ واضح رہے کہ جنرل ڈیمسی نیٹو کمانڈرز اورافغان حکام سے اتحادی افواج پر افغان فوج کی جانب سے بڑھتے ہوئے حملوں پر بات چیت کے لیے افغانستان میں موجود تھے۔ بتایاگیا ہے کہ طالبان نے حملے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔

دریں اثناء ایساف کے ترجمان کی طرف سے جاری بیان کے مطابق جنوبی افغانستان میں ایک مسلح حملہ آور جس نے افغان پولیس فورس کا یونیفارم پہن رکھا تھا، نے نیٹو کے فوجی کے قریب پہنچ کر اس پر فائرنگ کر دی جس سے نیٹو کا فوجی موقع پر ہلاک ہوگیا۔ نیٹو نے فوجی کی قومیت ظاہر نہیں کی ہے۔

علاوہ ازیں نیوزی لینڈ نے افغانستان میں اپنے مزید 3 فوجیوں کی ہلاکت کے بعد وہاں سے شیڈول سے قبل اپنی فوج واپس بلانے کا اعلان کردیا ۔ نیوزی لینڈ کے وزیراعظم نے کہا ہے کہ وہ 2013ء کے شروع میں افغانستان سے اپنی فوج کا انخلاء کریں گے۔ دوسری جانب افغان اہل کاروں کی جانب سے اتحادی افواج پر حملوں کے بعد افغان حکومت نے اپنے اہل کاروں کی جاسوسی شروع کردی ہے۔

افغان فوج کے سربراہ جنرل شیرمحمد کریمی نے امریکی ہم منصب جنرل ڈیمپسی سے ملاقات کے بعد انٹرویو میں کہا کہ افغان اہل کاروں کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ ان کی ہرسطح پر مکمل نگرانی ہورہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس عمل سے جوانوں کے حوصلوں پر منفی اثرپڑے گا مگر اس قسم کے واقعات کی روک تھام کے لیے اقدامات کرنے ضروری ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔