پاکستان کو بین الاقوامی مالیاتی تنظیم کے قیام کی ضرورت

ارمغان قیصر  پير 28 جنوری 2019
ہمیں ایک بین الاقوامی مالیاتی تنظیم بنانے کی ضرورت ہے جو کثیرجہتی (multilateral) بنیادوں پراستوار ہو۔ فوٹو: انٹرنیٹ

ہمیں ایک بین الاقوامی مالیاتی تنظیم بنانے کی ضرورت ہے جو کثیرجہتی (multilateral) بنیادوں پراستوار ہو۔ فوٹو: انٹرنیٹ

کسی بھی ملک کے معاشی مسائل کا حل قرضہ جات اور امداد نہیں ہو سکتی، آج کل کے عالمی مسابقتی ماحول میںآپ کو نئی اور قابل عمل سوچ کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان کو ترقی کےلیے اسی قسم کے vision کی ضرورت ہے۔ معاشی مسائل کے حل کےلیے نئی سمت میں چلنا وقت کی اولین ضرورت ہے۔ قلیل مدتی، درمیانی مدت اور طویل مدتی منصوبہ بندی کرنا ہی حقیقت پسندانہ اقدام ہے۔ ہمیں ایسے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے جو نہ صرف جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہوں، بلکہ ہمارے معاشی مسائل کا حل ٹھوس بنیادوں پر فراہم کر سکیں، ہمیں بار بار بین الاقوامی مالیاتی فند سے قرض لینے کی ضرورت نہ ہو؛ اور نہ ہی ہمیں ہنگامی طور پر دوست ممالک سے امداد یا قرض لینا پڑے۔

سعودی عرب کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ حال ہی میں اس کی خارجہ پالیسی میں معاشی لحاظ سے مثبت کلیدی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ اس سے ان کی معیشت پر بہت اچھے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ہمیں بھی کچھ ہٹ کے، غیر روائتی مثبت منصوبہ بندی اور اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ایک بین الاقوامی مالیاتی تنظیم بنانے کی ضرورت ہے جو کثیرجہتی (multilateral) بنیادوں پراستوار ہو۔

اس کےلیے BRICS (برکس) کا ماڈل جس میں برازیل، روس، انڈیا، چین اور ساؤتھ افریقہ شامل ہیں، مد نظر رکھا جا سکتا ہے۔ اس تنظیم میں اُن تمام ممالک کو جو ہمارے ہم خیال بھی ہوں، مثلاً ملائشیا، ترکی، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ایشیا کے دیگر دوست ممالک اس کے علاوہ یورپ اور لاطینی امریکہ کے دوست ممالک کو شامل ہونے کی دعوت دی جا سکتی ہے۔

اکیسویں صدی میں تین اہم تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ علاقائی تنظیموں میں اضافہ، انتہائی کم ترین ترقی یافتہ ممالک کی تعداد میں اضافہ اور 2008ء کا مالی بحران… علاقائی تنظیموں میں اضافہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ابھرتے ہوئے بین الاقوامی حرکیاتی نظام میں اب ریاستوں کی بجائے خطے ترقی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کچھ تحفظات کے ساتھ آسیان (جنوب مشرقی ایشیائی اقوام کی تنظیم) معاہدہ شمالی بحر اوقیانوس برائے آزادانہ تجارت اور یورپین یونین اس کی اہم ترین مثالیں ہیں۔ حال ہی میں روس کی طرف سے بنائی جانے والی (Eurasian union) یوریشین یونین اور چین کی طرف سے بنائی جانے والی شہنگائی تعاون کی تنظیم (SCO) قابل ذکر ہیں۔

یہ تنظیمیں ایک نئی سمت میں نشاندہی کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ چین کا ون بیلٹ ون روڈ (OBOR) پراجیکٹ جس کا حصہ پاک چین معاشی راہداری کا منصوبہ (CPEC) بھی ہے، بہت اہمیت کا حامل ہے۔ کسی بھی ملک کو ترقی کےلیے وسائل کی ضرورت ہوتی ہے، پچھلی کچھ دہائیوں سے وہی ملک ترقی کرسکے ہیں، جن کے پاس یا تو ہائیڈرو کاربنز کا ذخیرہ تھا، یا انہوں نے صنعتی ترقی پر زور دیا۔

شمالی کوریا، ملائیشیا، سنگا پور اور چین صنعتی ترقی کے ذریعے ترقی کرنے والے اہم ترین ممالک ہیں۔ پاکستان کے پاس برآمدات کےلیے ہائیڈرو کاربنز نہیں ہیں۔ ہمارے پاس صرف صنعتی ترقی کا ہی آپشن ہے۔ اس کےلیے ضروری ہے کہ فعال خارجہ پالیسی بنائی جائے۔ دو طرفہ باہمی تعلقات کی اہمیت اپنی جگہ، لیکن آج کل کے دور میں (Multilateral-ism) کثیر جہتی تجارت کے نظام یا آزادانہ تجارت کے نظام کو بہت اہمیت دی جارہی ہے۔

اس طرح تنظیم بنانے کےلیے سب سے پہلے ارادے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد بہترین خارجہ پالیسی اور شاندار ڈپلومیسی کے ذریعے ایک ایسی تنظیم بنائی جا سکتی ہے جس سے نا صرف بیرونی سرمایہ کاری بہتر ہو، بلکہ ہماری برآمدات میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کو کثیر القومی مالی تنظیموں سے تعلقات بنانے کی ضرورت ہے۔ آسیان کے ساتھ ٹرمپ اور بیوٹن نے تعلقات میں اضافہ کرنے کےلیے نا صرف وہاں کا دورہ کیا، بلکہ معاہدات بھی کیے۔ ہمارے لیے بھی یورپی یونین اور آسیان بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ ان سے ہم اپنے تجارتی روابط میں مزید اضافہ کرسکتے ہیں۔

چنانچہ اگر ایک ایسی کامیاب مالیاتی تنظیم بنانے میں پاکستان کامیاب ہو جاتا ہے جس سے پاکستان میں براہ راست بیرونی سرمایہ کاری ہو اور صنعتیں لگیں، تو نا صرف پاکستان میں بیروزگاری میں کمی ہوگی، بلکہ لوگوں کا معیار زندگی بھی بلند ہوگا۔ ہمارے ہی خطے کے ممالک جن میں بنگلہ دیش اور سری لنکا شامل ہیں، وہاں ملٹی نیشنل آرگنائزیشن نے صنعتیں لگائی ہیں جس سے وہاں ترقی ہوئی ہے اور برآمدات میں اضافہ ہوا ہے۔ اگر وہاں صنعتیں لگائی جا سکتی ہیں تو پاکستا ن میں کیوں نہیں؟ بیروزگاری میں کمی ہوگی اور فی کس آمدنی میں اضافہ ہوگا تو ٹیکس نیٹ خود بخود بڑھ جائے گا۔ کیوں نہ ہم اس نئے خیال پر سوچنا شروع کریں۔

ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیرمحمد نے آسیان کی کامیابی میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ ہمارے موجودہ وزیراعظم جس طرح کی بصارت رکھتے ہیں، اگر وہ اس طرح کے idea پر کام شروع کرتے ہیں اور کامیابی سے پایہ تکمیل تک پہنچاتے ہیں تو یہ پاکستان کےلیے بہت فائدہ مند ہوسکتا ہے، اور وہ بھی بین الاقوامی اہمیت کے حامل قائدین میں شامل ہو سکتے ہیں۔

فعال خارجہ پالیسی اور سرگرم سفارت کاری کے ذریعے ہم ایک بین اللاقوامی مالیاتی تنظیم کو عملی طور پر بنانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اس وقت بین الاقوامی معاشی فضا اور ماحول ہمارے حق میں ہے۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اس کو کس طرح اپنے ملکی مفاد میں استعمال کرتے ہیں۔ وزارت خارجہ کو یہ کام سونپا جا سکتا ہے۔ اس کےلیے ضروری ہے کہ سیر حاصل تحقیق کی جائے اوراس کےلیے ایک ٹاسک فورس کا قیام عمل میں لایا جا سکتا ہے جو اس سارے عمل کو یقینی بنانے کےلیے سفارشات مرتب کرے۔ وزیر اعظم اس سارے عمل کی قیادت کرسکتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔