بور کے لڈو

طارق محمود میاں  ہفتہ 20 جولائی 2013
tariq@tariqmian.com

[email protected]

اقتدار کے ہفتے ابھی مہینوں میں ڈھلنا شروع ہوئے ہیں کہ حکومتیں گھبرائی گھبرائی سی پھر رہی ہیں۔ کسی کے حصے میں کتنا آیا، جو چاہا تھا وہ پایا کہ نہیں پایا یہ ایک اور سوال ہے لیکن یہ تو ہوا کہ وصال اقتدار سے ہمکنار ہوئے۔ کسی نے خوشی سے اور کسی نے بے دلی سے اس دلہن کا گھونگھٹ اٹھایا۔ اب چیخیں نکلنا شروع ہوگئی ہیں۔ بیشتر سہانے خواب ابھی سے چکنا چور ہوئے اور ہنی مون پیریڈ ہوا ہوگیا۔ کہیں برتن بھانڈے کھڑک رہے ہیں تو کوئی شرمایا شرمایا ادھر ادھر پھر رہا ہے۔ جو کرے وہ بھی پچھتائے اور جو نہ کرے وہ بھی پچھتائے۔ اقتدار کی غلام گردش سبھی کو ایسی گھمن گھیری کی سمت لے گئی ہے کہ ہر کوئی اپنے ہاتھ میں تھامے ہوئے پتے ترتیب دیتے ہوئے بہت گہری سوچ میں غوطہ زن ہے۔

بہت سے کام ادھورے ہیں۔ حکومت بھی ادھوری ہے۔ اچھی اچھی اسامیاں خالی پڑی ہیں۔ ملک کو ایک عدد صدر، دو گورنروں، ایک وزیر خارجہ، ایک وزیر قانون اور ایک وزیر دفاع کی ضرورت ہے۔ تلاش جاری ہے۔ درخواستیں شاید کسی پچھلے دروازے سے وصول کی جارہی ہیں۔ فیصلہ بھی اسی دروازے سے برآمد ہوگا۔ جو لوگ کسی کیٹ واک کے منتظر ہیں وہ منہ دھو کے رکھیں اور مس ورلڈ کے اگلے انتخاب کا انتظار کریں۔ سیاسی اسامیوں کا انتخاب ہمارے ہاں ایسے نہیں ہوتا۔ یوں ہوتا ہے جیسے کوئی رومانس کامیاب ہوجائے۔ البتہ مشاورت والی اسامیاں اور طرح کی ہوتی ہیں۔ پہلے نائیکائیں سلسلہ جنبانی کرتی ہیں۔ رشتہ دار جی بھر کے دودھ میں مینگنیاں ڈالتے ہیں اور پھر تہمتوں کے حمام میں سے دھلا دھلایا نیب کا سربراہ برآمد ہوتا ہے۔ تب اسے سب پسند کرتے ہیں۔ گزشتہ الیکشن سے پہلے عبوری حکومت کا چناؤ بھی کچھ اسی طرح ہوا تھا لیکن اسے سب پسند نہیں کرتے تھے۔ اس میں سے کافور کی بو آتی تھی۔

جن کاموں میں حکومت بہت پراعتماد دکھائی دیتی تھی اور اقتدار سنبھالنے سے قبل خوب تیاریاں کرکے آئی تھی ان میں سے ایک بجلی کا مسئلہ تھا۔ گردشی قرض کی فوری ادائیگی سے انھوں نے سمجھ لیا تھا کہ تمام پاور کمپنیوں کا کردار فوری طور پر درست ہوجائے گا، ان کی کارکردگی بڑھے گی اور اضافی بجلی میسر ہوگی۔ بس یوں سمجھو کہ آدھا مسئلہ تو حل ہوگیا۔ اسی خوش فہمی میں وزارت اطلاعات نے بیٹھے بٹھائے حکومت کے پاؤں پر کلہاڑی ماردی۔ کہا کہ رمضان میں سحری اور افطاری میں لوڈشیدنگ نہیں ہوگی۔ یوں فوری طور پر پانچ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کم کردی جائے گی۔ اس عیاشی کے بارے میں سارے میڈیا میں دھوم دھڑکے سے اشتہارات چل گئے۔۔۔۔ اور ہوا کیا؟ خود ہمارے گھر میں پہلی سحری کو موم بتیاں ڈھونڈی جارہی تھیں۔

تب میں نے اپنے دماغ کو، برداشت کو، موڈ کو الفاظ کا جامہ پہنایا اور اشتہار کو یاد کرکے حکومت کی شان میں کمال کی قصیدہ خوانی کی۔ باقی گھروں میں بھی یہی ہوا ہوگا۔ ایک سادہ سی بات تھی کہ کارکردگی کی اپنی زبان ہوتی ہے۔ وہ خود بولتی ہے۔ اسے تشہیر کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اگر باقاعدگی سے سحری اور افطار میں لوڈ شیڈنگ نہ ہوتی اور وہ واقعی پانچ گھنٹے روزانہ کے حساب سے کم ہوجاتی تو ہر کوئی داد دے رہا ہوتا۔ تب حکومت چاہتی تو اشتہار دے کے ساری تحسین سمیٹ لیتی کہ یہ ہماری طرف سے رمضان کا تحفہ تھا۔ انسان اسی طرح ٹھوکریں کھا کے کچھ سیکھتا ہے اور دور کیوں جائیے۔ نہیں بھی سیکھتا۔ نندی پور کا تحفہ موجود ہے۔

اسی گھبراہٹ کے عالم میں ملالہ کا معاملہ بھی اٹھا اور حکومت کو کنفیوزڈ چھوڑ کے آگے بڑھ گیا۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ جو بات اور جو موقع پوری دنیا کے لیے خاص تھا اس پر ہمارے ملک میں سیاسی چپ کیوں لگی رہی۔ حالانکہ اس میں پوچھنے والی بات ہی کیا ہے۔ وہ تعلیم کی بات کرتی ہے اور ہمارے رہنماؤں کو تعلیم کی ڈگری تیر کی طرح جاکے لگتی ہے۔ تین تازہ شہید موجود ہیں۔۔۔۔ اور ہمارا مسئلہ صرف یہی نہیں ہے۔ ہمیں ابھی تک اسامہ بن لادن کی لاش نہیں ملی ہے۔ اسے بھی ڈھونڈنا ہے اور اس کا ڈی این اے ٹیسٹ بھی کروانا ہے۔ ایک قضیہ اجمل قصاب والا بھی زندہ ہوگیا ہے۔ اس کا شجرہ نسب بھی کھنگالنا ہے۔ اوپر سے ایک مصیبت بلدیاتی انتخابات کی ہے۔ تقاضا کرنے والوں سے کوئی پوچھے کہ کیا کبھی کوئی جمہوری حکومت بھی یہ کام کیا کرتی ہے؟ اس کے لیے کسی نظریہ ضرورت کی آمد کا انتظار کیا جائے۔ ان ہی  لوگوں کا یہ نظریہ بھی ہوتا ہے اور ضرورت بھی۔

دوسری طرف جو لوگ اقتدار سے باہر ہیں یا جنھیں ادھورا اقتدار ملا ہے ان کے نصیب میں بے پیندے کے اعتراضات اور صلواتیں لکھ دی گئی ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے کہ حکومت مرغی، تیل، پیاز اور آلو کے دام کو کنٹرول کرنے اور پٹواری پر کلوز سرکٹ کیمرہ لگانے کے بجائے چین میں بڑے بڑے پروجیکٹس کی باتیں کیوں کر رہی تھی۔ گویا اسے چین کے وزیراعظم سے پوچھنا چاہیے تھا کہ چائے کی پتی میں سے چنے کا چھلکا کیسے نکالا جاسکتا ہے، لال مرچوں میں سے لکڑی کا برادہ کیسے الگ ہوتا ہے اور آپ بکرے کے گوشت میں بھرا ہوا پانی نکالنے کے لیے پھونک کہاں مارتے ہیں۔ ایسے ہی لوگ اپنے گھر میں ہوتے ہیں تو پلٹ کے پوچھتے ہیں ’’آٹا گوندھتے ہوئے تم ہلتی کیوں ہو؟‘‘

ایسے بہت سے لوگ ہیں جو ابھی تک الیکشن کے نتائج کو تسلیم نہیں کرسکے۔ وہیں اٹکے ہوئے ہیں جہاں 12مئی کی صبح کو لٹکے تھے۔ صبح و شام ’’دھاندلی۔دھاندلی‘‘ کی تسبیح کرتے ہیں۔ وظیفہ بیکار جاتا ہے تو کسی چینل پر نمودار ہوتے ہیں اور آہ و بکا کرتے ہیں۔ اقتدار کی ٹرین کب کی چل چکی لیکن ان کا پلان ہے کہ یہ سفر لوٹایا جائے گا۔ یہ روزے گزر جائیں، تھوڑی سی گرمی کم ہوجائے اور کچھ گھریلو معاملات درست ہوجائیں تو پھر دھاندلی احتجاج کا آغازکیا جائے گا اور تحریر چوک بنایا جائے گا۔ ان کے پاس دھاندلی کے بہت لاجواب دلائل ہیں۔ میں تو سن کے فوراً ہی قائل ہوگیا۔ مثلاً ارشاد ہوا …’’میں نے قلفی والے سے پوچھا، اپنے گوالے سے پوچھا، میں ایک رکشے پر بیٹھا تو اس کے ڈرائیور سے پوچھا، اسٹیشن پر قلی سے پوچھا، ایک دودھ پیتے بچے سے پوچھا، اس کے فیڈر سے، چسنی سے اور نیکر سے پوچھا۔ ہر ایک نے کہا کہ ہم بلے کو ووٹ دے رہے ہیں۔

آپ ہی بتائیے پھر اس کے باوجود شیر کیسے جیت گیا؟‘‘ ایک نابغے سے ایک دلیل میں نے کل ہی سنی…’’یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ لاہور سے شفقت محمود جیت گیا لیکن عمران خان ہار گیا۔‘‘ ذرا دلیل کی معنویت پر غور کریں اور داد دیں۔ امیدوار نہ ہوا سو روپے کا نوٹ ہوا کہ ہر جگہ عندالطلب ایک ہی جیسی ادائیگی ہوگی۔ اقتدار کا ہڑکا سر گھمادیتا ہے۔ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو آمریت کی بہار میں کھل اٹھتے ہیں۔ عوام کے سامنے ڈالے جاتے ہیں تو اقتدار سے محرومی مقدر ہوتی ہے۔ انتخابات میں پے در پے ہار کے وہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ جمہوریت واقعی بری چیز ہے۔ انھیں راستے میں خبر ہوتی ہے کہ یہ راستہ کوئی اور ہے۔ اب وہ پھر سے ڈائریکٹ حکومت دلانے والے نظریوں کے دلائل تراشتے ہیں اور ان کے انبار لگاتے ہیں۔ مرسی کو مسکرا مسکرا کے دیکھتے ہیں۔ ان میں سے کچھ ایک صوبے تک محدود ہوگئے اور کچھ دروازے سے اندر بھی نہ آسکے۔ کوئی چک شہزاد میں دھنس گیا اور کوئی کینیڈا کو لوٹ گیا۔ آپ یہ نہ سمجھیں کہ وہ تائب ہوچکے۔ جب تک سانس ہے آس کی ڈوری کہاں ٹوٹے گی۔ یہ بندھن چیز ہی ایسی ہے کہ جو کرے وہ بھی پچھتائے اور جو نہ کرے وہ بھی پچھتائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔