جب ماہ رمضان آتا ہے تو…

شیریں حیدر  ہفتہ 20 جولائی 2013
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

’’باجی جی…‘‘ اس نے امید بھری نظروں سے مجھے دیکھا، ’’دیکھو نا جی، روزے ہیں، بچوں کو دودھ دہی چاہیے ہوتا ہے، افطاری میں نہ چاہتے ہوئے بھی کچھ نہ کچھ کرنا پڑتا ہے، پھر عید آ رہی ہے، دینا دلانا کرنا پڑتا ہے، آیا گیا بھی ہوتا ہے… ایک ایک پائی دانتوں سے پکڑ کر خرچ کرو تو بھی کئی ضرورتیں منہ کھولے کھڑی ہوتی ہیں…‘‘ اس کی ساری تمہید اس لیے تھی کہ اسے اس مہینے اضافی رقم چاہیے تھی۔ میں نے اسے اس کی ضرورت کی رقم سے بھی کچھ کم ہی رقم دی اور دس باتیں بھی کیں کہ اس کی عادت بن گئی ہے… کیوں پہلے سے اس طرح کی ضرورتوں کے لیے رقم نہیں بچا کر رکھتی۔ مجھے یقین تھا کہ وہ جہاں جہاں کام کرتی ہے وہاں پر یہی کہانی سنا کر ایڈوانس رقم وصول کرے گی جسے واپس کرنا یا اس کے لیے ممکن ہی نہ ہو گا یا اگلے دس برس تک اپنی تنخواہ میں سے کٹواتی رہے گی اور تب تک اگلا رمضان آ جائے گا۔

’’بات سنیں…‘‘ میں نے حساب کی ڈائری میں حساب لکھا، کچھ ممکنہ خرچوں کا بجٹ بنایا اور زکوۃ اور عید کے اخراجات کا تخمینہ لگا کر، خوشامدانہ انداز میں صاحب کو پکارا، انھوں نے تجاہل عارفانہ سے کام لیا، ’’کچھ فالتو رقم مل سکتی ہے جی اس ماہ؟‘‘

’’کیوں؟‘‘ فوراً سوال آیا۔

’’یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے، رمضان ہے، زکوۃ کی ادائیگی کا مہینہ ہے اور پھر عید آ رہی ہے…‘‘

’’تو یہ سب تو ہم سب کو بہت پہلے سے علم ہوتا ہے، کون سا اچانک رمضان اور عید آ گئی ہے…‘‘

’’پھر بھی چیزوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنا شروع ہو گئی ہیں، بیسن، کوکنگ آئل، کھجور، سموسے، جلیبی، دودھ اور دہی… غرض رمضان کے سارے لوازمات ہی عام آدمی کی پہنچ سے دور ہو گئے ہیں!!‘‘

’’ان سب کو لوازمات کا درجہ تو ہم لوگوں نے ہی دے رکھا ہے، ورنہ کوئی قرآن کے احکامات تو نہیں کہ پکوڑے، سموسے اور کھجور جلیبی کے بغیر افطار نہیں ہوتا اور دودھ دہی کے بغیر سحری نہیں ہوتی؟‘‘ صاحب نے سوال داغا۔

’’بچے جو ہیں، روزہ رکھتے ہیں … وہ تو لازمی یہ سب کچھ چاہتے ہیں…‘‘ میں نے بودی سی دلیل دی۔

’’اصل میں ہم سب لوگوں نے رمضان کے مہینے میں ان سب اشیاء کی خریداری کو لازم اور ملزوم بنا کر خود ہی تاجروں کو یہ موقع دے رکھا ہے اور چند اشیاء کو اس قدر گراں کر دیا جاتا ہے… بچوں کی عادات بھی ہم نے ہی بگاڑ رکھی ہیں… بجائے اس کے کہ ہم اپنے ارد گرد ضرورت مندوں کو ڈھونڈ کر ان کی مدد کریں، ان کی بھوک کا احساس کریں، ان کی مجبوریوں کو سمجھیں، روزے کی اصل روح کو جانیں الٹا ہم اپنے ہی پیٹ عام معمول سے زیادہ بھر بھر کر بیمار پڑتے ہیں اور اپنے لیے سر دردی کو بڑھا لیتے ہیں…‘‘ ڈانٹ کھا کر ذہن کی کھڑکیاں کھلیں تو سوچنے لگی کہ کیا واقعی روزے کا یہ مقصد ہے؟

پیٹ بھر کر کھانا کھا کر سحری کریں، دن بھر پڑے سوتے رہیں، نہ غیبت سے باز آئیں نہ کسی اور برائی سے، نہ کسی کی تکلیف کا احساس کریں نہ کسی کی ضرورت کا خیال… اپنے ہی بچوں کے پیٹ بھریں، ان ہی  کی تواضع کریں، مرغن غذائیں کھا کھا کر معدے کی بیماریوں کا شکار ہو جائیں اور غریب پھر بھی ان چیزوں کے لیے ترستا رہے جو ہمیشہ اس کی پہنچ سے دور رہی ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ہر طبقے میں رمضان اور عید ان کے بجٹ کو تباہ کرنے والے مہینے ہوتے ہیں۔ ٹیلی وژن پر بھی اشتہارات میں سارا زور اس بات پر ہوتا ہے کہ سحری میں کیا کھانا ہے اور افطاری میں کیا بنانا ہے… کون سی جگہ پر افطاری میں کیا کیا مل رہا ہے اور خاندان بھر کے ساتھ باہر کے کھانے میں کتنی بچت ہوتی ہے۔ تمام چینل پر خبروں کے نام پر بتایا جاتا ہے کہ گوجرانوالہ میں سحر ی میںکیا کھایا جاتا ہے، قصور میں کیا اور سکھر میں کیا… کس کس شہر میں افطار کے خاص لوازمات کیا ہیں اور لوگ کیا خریدنے کے لیے سہ پہر چار بجے سے ہی قطاروں میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ سموسے، پکوڑے، جلیبی اور دہی بڑے بنانے والوں کی چاندی نہیں بلکہ سونا ہوتا ہے اور وہ اس ایک مہینے میں سال بھر کی روٹیاں کما لیتے ہیں۔

لوگ ناقص تیل میں تلی ہوئی، حفظان صحت کے اصولوں کے خلاف بنی ہوئی اشیاء اور ثقیل کھانے کھاکھا کر اسپتالوں کا رخ کرتے ہیں مگر جس دن معدہ ذرا سا ٹھیک ہوتا ہے، پھر وہ پکوڑے، سموسے اور وہی معدہ ہوتا ہے!!

روزے کی اصل روح سے ہم نا بلد ہیں… کیا ہم اپنی ضروریات اور خواہشات کو تج کر دوسروں کو خوشیاں دے سکتے ہیں، ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیر سکتے ہیں، ان کے بچوں کے لیے اپنے بچوں کی طرح عید کی خوشیاں  دوبالا کر سکتے ہیں… ہم اس نبی پاک ﷺ کی امت ہیں کہ جو یتیموں کے سر پر اسی طرح دست شفقت رکھتے تھے جس طرح اپنے بچوں کے سر پر رکھتے تھے۔

ماہ رمضان اپنے جلو میںکئی برکتیں، رحمتیں اور نعمتیں لے کر آتا ہے… ہم سب کسی نہ کسی طور ان سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں، زیادہ سے زیادہ عبادات کر کے اس مہینے کی خاص الخاص رحمتوں کے حصول کے لیے کوشش کریں۔  اللہ کی خوشنودی کے حصو ل کے لیے زکوۃ اور صدقات دئیے جائیں، ضرورت مندوں کی مدد کرنا اور اللہ کی دی ہوئی نعمتوں میں سے ان کو حصہ دینا …

اپنی خوشیاں بانٹنے سے کم نہیں ہوتیں… اس ایک مہینے میں پریشانی کم کی جا سکتی ہے اگر ان اقدامات پر عمل کریں۔ سال بھر ہم کپڑے بناتے رہتے ہیں تو کیا مشکل ہے کہ انھیں میں سے ایک جوڑا اس نیت سے رکھ دیا جائے کہ اسے عید کے دن پہننا ہے، ایسا کرنے سے اس بات کی کوفت کم ہو جائے گی کہ ماہ رمضان میں عید کے کپڑے بنانے ہیں۔

اپنی زکوۃ کا حساب نکلوا کر اسے سال بھر پر تقسیم کر کے ہر ماہ کچھ رقم پس انداز کی جا سکتی ہے، اسے جمع کر کے کسی کو یک مشت دی جا سکتی ہے اور چاہیں تو سال بھر ساتھ ساتھ اسے ضرورت مندوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے ارد گرد درجنوں ضرورت مند موجود ہوتے ہیں، دوربین لے کر ڈھونڈنے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔

اسی طرح رمضان میں اگر ہمیں خصوصی اہتمام کرنا ہی ہے تو گھر پر بھی کیا جا سکتا ہے، بچت کے ساتھ ساتھ اس بات کی ضمانت بھی ہو گی کہ ہر چیز حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق تیار کی گئی ہے۔ تلی ہوئی اور مرغن غذاؤں کی بجائے سادہ خوراک کا استعمال کیا جائے۔

ماہ رمضان کی آمد کا علم تو ہمیشہ سے ہوتا ہے اور اگر سال بھر اس کے ’’استقبال‘‘ کی منصوبہ بندی کر کے اس کا استقبال کیا جائے تو کوئی مشکل نہ ہو اور نہ ہی بجٹ درہم برہم ہو کر خاتون خانہ کو نفسیاتی مریض بنا دے۔ کیا ماہ رمضان اچانک آ جاتا ہے یا شک ہوتا ہے کہ شاید اس سال رمضان نہ آئے، مہنگائی نہ بڑھے… عید نہ ہو نہ عید سے مربوط اخراجات… یا زکوۃ نہ دینا پڑے؟

جب ایسا کچھ بھی نہیں تو کیوں نہیں ہم اس کے لیے پہلے سے تیار نہیں ہوتے اور ماہ رمضان کے آتے ہی بلبلانا شروع کر دیتے ہیں؟؟؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔