اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے

نسیم انجم  اتوار 27 جنوری 2019
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

سالہا سال سے چلنے والے نظام کو دنوں اور مہینوں میں درست کرنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے جادو کی چھڑی کو گھمانا یا الٰہ دین کے چراغ کو رگڑنا۔ ہمارا معاشرہ دیمک زدہ اور خستہ و کمزور ہے جس کی ازسر نو تعمیر ناگزیر ہوگئی ہے، حکمرانوں نے اس کی زمین میں وہ بیج بوئے ہیں جس کے پھل کڑوے ہیں، اتنے کڑوے کہ پل بھر میں انسانی جانوں کو موت کے جنگل میں دھکیل دیں اور موت کا رقص تو گزشتہ 20-25 سالوں سے جاری ہے، ناانصافی کی بیل پاکستان کے در و دیوار سے چمٹ چکی ہے۔

اہل اقتدار اپنے ایوانوں میں بیٹھے عیش و طرب کی زندگی گزارتے رہے ہیں اگر انھیں اپنی رعایا اور ملک کی فکر ہوتی تو عدالتیں، پولیس ڈپارٹمنٹ اور تعلیمی ادارے درست سمت پر ہوتے، ماضی کی سیاست اور اندوہناک واقعات نے ہر شخص پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں، سانحہ ساہیوال بھی گزرے حالات اور نظام حکومت کا پیش خیمہ ہے، جسے اپوزیشن نے موجودہ حکومت کی ذمے داری قرار دیا ہے ۔

اپوزیشن یہ بات یکسر بھلا چکی ہے کہ بیتے ماہ و سال میں پاکستان کی عوام کو حکمرانوں کی ناعاقبت اندیشی کے باعث کس قدر دکھ، محرومی، افلاس، دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑا ہے، اپنوں کی لاشوں کو کاندھا دیتے دیتے لوگ تھک چکے تھے، پھر مظلوم کی آہیں رنگ لے آئیں، جنرل کیانی کی جگہ جنرل (ر) راحیل شریف آگئے اور جنرل (ر) راحیل شریف کی وطن و قوم اور مذہب اسلام سے محبت کی بدولت ضرب عضب نے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیا۔ الحمد للہ جنرل قمر باجوہ کی کاوشوں نے ملک کو مزید استحکام بخشا ورنہ تو چاروں صوبوں خصوصاً بلوچستان کے حالات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں تھے۔

کراچی خون میں ڈوبا ہوا تھا ہر جماعت کے سیاستدان نے اپنی سیاست خوب چمکائی لیاری کا سیاہ دور، جس میں سروں کی فصل کاٹی گئی اور فٹبال کھیلی گئی، اتنی جہالت، اس قدر گمراہی، مفاد پرستی انسانیت کی تڑپتی لاش اور گھروں سے اٹھنے والا نوحہ کراچی میں بپا تھا، تب تو عمران خان کی حکومت نہیں تھی، کبھی حج کرپشن تو کبھی ایفی ڈرین کیس سامنے آتا ہے اصل مقصد پیسہ لوٹنا تھا۔ یہ سب کس کی اجازت سے ہو رہا تھا؟

اب جو موجودہ حکومت میں یہ انسانیت سوز واقعہ پیش آیا ہے تو اس سے کوئی خوش نہیں ہے، وزیر اعظم عمران خان نے فوری طور پر اس کا نوٹس لیا اور کارروائی کو آگے بڑھانے کے لیے کام کیا گیا اور ہو رہا ہے۔ یہ آپریشن کرنے کا کیا طریقہ تھا؟ پکڑنا تھا ڈرائیور ذیشان کو، اسے بھی جان سے مارنے سے پہلے قانون کے حوالے کرنا ضروری تھا، لیکن خونی منظر کو دیکھتے ہوئے ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے پولیس سب کو مارنا چاہتی تھی، یہ کوئی سازش تھی، انتقام تھا یا ملک دشمن عناصر سے ملی بھگت تھی، بچے نے دلخراش واقعے سے حادثے کے وقت ہی پردہ اٹھایا اور اپنے حواس کو مجتمع کرتے ہوئے کہا کہ ابو نے کہا ’’ سب پیسے لے لو لیکن مارو نہیں‘‘ لیکن وہ نہ مانے، امی، ابو اور میری بہن عریبہ پر گولیاں چلادیں، چشم دید گواہ کا بیان بھی سامنے آیا، اس کا مقتولین سے خون کا رشتہ ہرگز نہ تھا، لیکن وہ انسانیت کے پرخچے اڑتا دیکھ کر تڑپ اٹھا تھا، وہ رو رہا تھا سسک رہا تھا اس کی آواز اس کا ساتھ  نہیں دے رہی تھی، بقول اس کے ننھے خوفزدہ بچوں کو گاڑی سے نکال کر پھینکا درندگی کا بھرپور مظاہرہ کیا گیا، سانحہ ماڈل ٹاؤن میں بھی پولیس کی ظلم کی داستان طشت از بام ہوچکی ہے ابھی تک مرنے والوں کو انصاف نہیں مل سکا ہے۔ آخر کیوں؟

ساہیوال کے واقعے پر رانا ثنا اللہ فرماتے ہیں مظلوم خاندان پر سیدھی گولیاں چلائی گئیں وہ اس خونی واقعے کو بھول گئے جب پولیس نے بے دردی کے ساتھ ورکرز پر سر راہ تشدد کیا اور سیدھی ہی گولیاں چلائی تھیں جس کی وجہ سے اموات میں اضافہ ہوا اس وقت خود کیوں نہ مستعفی ہوئے؟ اقتدار عزیز تھا۔ پانچوں انگلیاں گھی میں تھیں، دھن، دولت کی ریل پیل ملازمین کی فوج ظفر موج پھر بھلا تعیشات بھری زندگی کو کون جواں دل داؤ پر لگاتا ہے۔ جھوٹ بولتے اور مذاق اڑاتے ہوئے بالکل نہیں شرماتے ہیں۔

نواز شریف کی حکومت نے قرضے کی رقم کو کہاں اور کس مد میں خرچ کیا؟ کسی کو نہیں معلوم۔ اب رانا ثنا اللہ اور شہباز شریف قوم کو اور حکومت کو آگاہی دیں کہ ملک کا قرضہ کس طرح اتار جائے؟ مذاق اڑانے اور مضحکہ خیز بیانات دینے کے سوا اب ان کے پاس کچھ نہیں بچا ہے، انتقام کی آگ میں عقل و فراست جل کر خاک ہوگئی ہے، اپوزیشن قومی اسمبلی میں بیٹھنے کے آداب سے ناواقف ہے، ملک کا وزیر اعظم اور دوسرے وزرا تشریف فرما تھے اور منی بجٹ یا معاشی اصلاحات کا پیکیج پیش کر رہے تھے، وزیر خزانہ اسد عمر اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی تقریروں کے دوران شور شرابہ اور ’’ گو نیازی گو‘‘ کے نعرے بلند کرنا اپوزیشن نے اپنی شان سمجھی، یہی شان بان ان کی پریشانی کا باعث بنی ان کے قد کو گھٹانے میں مددگار ثابت ہوئی۔

مخالفین یہ بات بار بار بھول جاتے ہیں کہ وہ جیلوں میں بند ہیں ان پر بڑے بڑے مقدمات ہیں وہ پیشیاں بھگت رہے ہیں ان کا قومی اسمبلی میں آکر نعرے لگانے کا کیا جواز ہے ؟کیا وہ کشمیر فتح کرکے آئے ہیں جو اس قدر پرجوش ہیں؟ پرجوش تو ٹی وی اینکرز بھی نظر آئے دو، تین چینلز کے علاوہ نجی چینلز پر ٹی وی اینکرز بقراط بنے فلسفہ بگھار رہے تھے ایک صاحب اپنے پروگرام میں مسلسل اور مستقل وزیر خزانہ اسد عمر کے تقریری عیب چنتے رہے، ایک ایک جملہ انھوں نے دس دفعہ کہا۔

اسد عمر آپ کو یہ نہیں کہنا تھا، وہ نہیں کہنا تھا، وغیرہ وغیرہ۔ گویا وہ تقریر کرنے کا طریقہ بتا رہے تھے ساتھ میں حالات حاضرہ اور گفتگو کے آداب بھی، انھیں بھی وقت ہی پاس کرنا تھا۔ کچھ اینکر حضرات بجٹ کے فوائد کی بجائے اس کے نقصانات نہ کہ خود بیان کر رہے تھے۔ قرآن کہتا ہے جب بھی بات کرو سچ کرو۔ تو وہ حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے گفتگو فرما رہے تھے، سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار جو ملک سے فرار ہیں ان سے بھی اینکر صاحب نے بات کی اور خوب لتاڑا اور سابق حکمرانوں سے کہا کہ آپ کس بات پر استعفیٰ مانگ رہے ہیں آپ نے اس وقت استعفیٰ کیوں نہیں دیا جب پولیس اور حکومت کی غفلت سے پٹرول بھرے ٹرک میں آگ لگ گئی تھی اور ایک لڑکی نے انصاف نہ ملنے پر تھانے کے سامنے اپنے آپ کو نذرآتش کردیا تھا اور ہاں وہ بات بھی بے حسی اور دہشت گردی کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائے گی جب شہباز شریف نے ننھی زینب کی لاش پر تالیاں بجوائی تھیں۔

تب وہ خود مستعفی کیوں نہیں ہوئے؟ آج پاکستان کو وقار ملا اور اعتبار حاصل ہوا پوری دنیا عزت کی نگاہ سے دیکھ رہی ہے تو پاکستان کے دشمن تلملا اٹھے ہیں، آپ کام کرنے دیں آپ نے معیشت کا بیڑہ غرق کردیا۔ پھر بھی نوحہ کناں ہیں دوسروں کو ملک سنوارنے کا موقع ملا ہے تو آپ رو رہے ہیں اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے لیکن ایک نہ ایک دن ضرور برستی ہے اسے اس وقت کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔