ساہیوال

جاوید قاضی  اتوار 27 جنوری 2019
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

آج کا ساہیوال کل تک منٹگمری کے نام سے آشنائی رکھتا تھا۔ منٹگمری جیل میں کئی ہمارے پیارے پابند سلاسل بھی ہوئے، ان میں سے ایک فیضؔ بھی تھے۔ راول پنڈی سازش کیس کے اندر بحیثیت ملزم مطلوب تھے۔ سلیمہ اور مونیزا نام کی دو ننھی بچیوں کے والد اور ایلس نامی برطانوی نژاد بیوی کے خاوند ۔ یوں تو ہر سخن فیضؔ کا من کو موہ لیتا ہے مگر باد صبا کے مجموعے میں ان کی شاعری منٹگمری کے زمانے کی ہے۔

مجھے نہ جانے کیوں منیبہ اور جاذبہ کے دو معصوم چہرے دیکھ کر فیضؔ کی دو کمسن بچیاں، سلیمہ اور مونیزا یاد آگئیں، وقت جیسے ٹھہر گیا۔ ساہیوال کے کسی چوراہے پر ۔ خلیل اور نبیلہ کی دو بیٹیوں کی معصوم صورتیں دیکھ کر۔ سب کچھ جیسے ساقط ہوگیا ہو، ہرا بھرا سبزو شاداب ساہیوال۔

خود ہی منصف، خود ہی مدعی اور خود ہی جلاد۔ جو چاہیں سو آپ کرے ہیں، ہم کو عبث بدنام کیا۔ کیا ہوا تھا امرتسر کے جلیاں والا باغ کے واقعے میں؟ تاریخ کا ایک تاریک باب، ظلم کی ایک داستان ،ایک سوچ تھی جس کا نام جنرل ڈائر تھا اور اس سوچ کی نذر سیکڑوں افرادکی جانیں ہوئیں۔ آج بھی کچھ ایسا ہی احساس ہوا، پنجاب پولیس کی ظالمانہ کارکردگی دیکھ کر جیسے جلیاں والا باغ کا تسلسل ہو۔ یہ کوئی حادثہ نہیں اگر حادثہ کہا بھی جائے تو اچانک نہیں ہوا۔

یہ کوئی سوچ ہے جس نے اس حادثے کو جنم دیا۔ایک متوسط طبقے کا چھوٹا سا کنبہ، ایک چھوٹی سی گاڑی، 1000 سی سی کی Alto گاڑی میں سفرکر رہا تھا۔ یہ ان والدین کا قتل نہیں تھا، جو ساہیوال کے موٹر وے پر ہوا تھا بلکہ یہ ان بچوں کا قتل ہے جو اس وقت زندہ ہیں اور ان کے والدین ان کی نظروں کے سامنے مارے گئے۔ فقط اس لیے کہ یہ کنبہ 1000 سی سی Alto کار پر سفر کر رہا تھا لیکن اگر وہ پراڈو میں ہوتے تو سوچیں، بھلے کتنی ہی جی آئی ٹی بٹھائی جاتیں نہ ہی پولیس کو جرات ہوتی کہ وہ ان پر اوپن فائرکرتے، ان کو آسانی سے روکا جاسکتا تھا، مگر پنجاب پولیس کو تو جیسے لائسنس ملا ہوا ہو کہ قتل کرو اور رفو چکر ہو جائو یہ کہہ کر کے ریاست کو خطرہ تھا اس 1000 سی سی Alto کار میں سفر کرنے والے خاندان سے۔

بڑی بات یہ ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے اس واقعے کو لے کر کوئی از خود نوٹس نہیں لیا۔ جن معاملات پر اس سے پہلے از خود نوٹس لیے گئے یہ معاملہ اس سے زیادہ گھمبیر ہے مگر آج سپریم کورٹ نے اس واقعے کی تحقیق اداروں کے حوالے کی ہے کہ وہ آزادانہ طور پر اس معاملے کو حل کریں۔ اب دیکھتے ہیں،ادارے کتنے خود مختار ہیں اور کتنے آزاد۔ میں سمجھتا ہوں کہ ازخود نوٹس نہ لینا ایک بہتر قدم تھا۔ ہمارے ملک کے ادارے اس وقت ہل چکے ہیں کیونکہ ہر معاملے میں اتنے از خود نوٹس لیے گئے ہیں کہ انھیں کچھ خبر ہی نہیں کہ انھوں کس کے حکم کی پیروی کرنی ہے۔ حاکم کون؟ اور محکوم کون؟ آئے دن آئی جی تبدیل ہوتے ہیں۔

پاکپتن کے حکم سے افسر تبدیل ہوتا ہے۔ بزدار صاحب سے پہلے یہ شہباز صاحب کیا کرتے تھے۔ سانحہ ماڈل ٹائون میں کیا ہوا تھا۔کیا گلو بٹ جنرل ڈائر سے کم تھا؟ ایسا لگتا ہے جیسے یہ سب گلو بٹ ہیں چاہے وردی میں ہوں یا وردی کے بغیر۔ سوچیں کہ گلو بٹ کے ہاتھ میں گنڈا سا تھا اگر کلاشنکوف ہوتی تو کیا ہوتا؟ ایک کلاشنکوف عمران خان کو بھی دی گئی مگر سونے کی، سعودی شہزادے کی طرف سے تحفہ مگر اسی طرح اگر خان صاحب سعودی کی بجائے فرانس کے دورے پر ہوتے تو کیا ان کو تحفے میں سونے کی کلاشنکوف یا خنجر دیا جاتا؟

ہمارے ملک میں کلاشنکوف کلچرکو افغان جہادیوں نے متعارف کرایا۔ مصر سے آئے ہوئے مجاہدین کو دی گئیں۔ ایسا ہی کچھ حال تھا ایم آر ڈی کی تحریک میں، یہ میرا آنکھوں دیکھا حال ہے جب ہیلی کاپٹر استعمال کیے جاتے تھے جب نہتے لوگوں کو ڈاکو قرار دے کر ماردیا جاتا تھا۔ توکسی سندھی شاعر نے یہ سطریں لکھیں تھیں۔

کچے گھروندوں، جھونپڑوں، گھرگھرگولیاں

فوج پولیس کہے ڈاکوئوں کو ڈھونڈ رہے ہیں

اس بے رحمی سے سب کچھ ہو توکیوں نہ من پھر سے چاہے گا کہ’’ نقش فریادی‘‘ کو پڑھا جائے، پھر سے منٹگمری جایا جائے کہ آج بھی اس ساہیوال میں جنرل ڈائر رہتا ہے۔ دوسری طرف گمشدہ افراد ہیں جن کی کوئی خبر نہیں۔ ہم سب جیسے ایک گمنام راہ کے مسافر ہوں کہاں کا رخ کرنا ہے کچھ پتہ نہیں، ہم سب رواں ہیں کبھی تبدیلی کے نام پر ،کبھی نئے پاکستان کے نام پر توکبھی ’’بنے گا پاکستان‘‘ کے نام پر لیکن کوئی صورت بنتی نظر نہیں آتی۔ ملک میں چاہے جمہوریت کا نظام ہو یا نہ ہو درباری سب وہی ہیں یہ سب کسی اس دربار تو کبھی اس در بار۔ منٹگمری ہو یا ساہیوال ہمارا حال ابھی تک وہی ہے۔کل جنرل ڈائر تھے اور آج ہم ڈائر ہیں۔

ایک پراڈو کا پاکستان ہے دوسرا 1000 سی سی Alto  کار کا۔ایک اور بھی پاکستان ہے جسکے پاس نہAlto  گاڑی ہے، نہ شفاف پانی نہ تعلیم نہ اسپتال جو بھوک و افلاس کا شکار ہے جنکی گردنوں میں غلامی کے طوق ہیں اگر وہ صحیح سمت میں چل بھی پڑیں تب بھی دو نسلوں کے بعد ہی ایک بہتر معیار زندگی تک پہنچ سکیں گے یعنی ان کے لیے ایک نصف صدی کا سفر مزید درکار ہے۔غربت اور افلاس ہماری بنیادوں میں ہے۔کل شہباز شریف تھے آج بزدار بیٹھے ہیں۔ ان کے پاس کھانے کے لیے روٹی نہ تھی مگر عوام کو دینے کے لیے کیک پیس تھے۔

میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے ان کو عوام کے لیے میگا پروجیکٹس یعنی ییلو ٹرین، میٹرو بس اور موٹروے بہت تھے مگر پولیس گلو بٹ جیسی تھی۔ وہ ترقی کے انڈیکیٹر جو ڈاکٹر محبوب الحق نے بنائے تھے جس کو پوری دنیا نے تسلیم کیا کہ غربت کو مٹانے کے لیے HDI یعنی انسانی ترقی کی ضرورت کے نہ کہ دیواروں، ٹرینوں اور موٹروے کی مگر سریے کا کاروبار کرنیوالے میاں برادران اس بات کو سمجھ نہ سکے۔ آج اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری یہ کہتے ہیں کہ دنیا میں ترقی تو ہو رہی ہے لیکن اس سے غریب طبقہ مستفیض نہیں ہو رہا۔

یہ ہماری خستہ حالی ہے کہ ہمارے ادارے بے انتہا کمزور ہیں اور ساہیوال کا واقعہ اس کی ایک بڑی مثال ہے اور یہ ہمارے سسٹم کی کمزوری ہے کہ کس کا حکم مانا جائے۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر سندھ کو زرداری صاحب کے حال پر چھوڑ دیا جائے اور اگر اس میں کوئی دخل اندازی نہ کرے تو زرداری صاحب سندھ کی سر زمین کو شاید کوڑیوں کے بھائو بیچ دیں۔ ایسے قوانین و سسٹم متعارف کرائیں کہ افسر شاہی اومنی گروپ کے رحم و کرم پر ہوں اور اومنی گروپ ایسٹ انڈیا کمپنی بن جائے۔

میرا مجھ میں کچھ نہیں جوکچھ ہے سو تیرا

تیرا تجھ کوسونپ دوں کیا لاگے ہی ہوا

یوں توکبیر نے یہ بات کچھ اور زاویے سے کہی تھی مگر میرا زاویہ پاکستان کے حوالے سے ہے کہ شاید یہ ہمارا ملک ہے ہی نہیں یہ شرفائوں کا پاکستان ہے، جو عوام کے نمائندے ہیں وہ شرفاء ہیں اور جو غیر جمہوری ہیں وہ بھی شرفاء ہیں ان دونوں کا ہم سے تعلق ہی نہیں۔

اب بھی ایک امید ہے وہ ہے آزادی صحافت۔ جس نے سانحہ ساہیوال کو اس طرح سے پیش کیا کہ حکومت کے تمام ایوان ہل گئے سو موٹوز کا ٹرینڈ غلط بھی تھا لیکن عدالتوں کے متحرک ہونے سے ایک اچھی حکمرانی کی نوید ضررو ملتی تھی۔ نیب کو ہم جتنا بھی برا کہہ لیں لیکن ان کے اقدام سے افسر شاہی ڈرنا شروع ہوئی ہے۔

ہمارے بہت اچھے اور ایماندار افسر جو اپنی ایمانداری کی وجہ سے OSD بن گئے یعنی ان کو سائیڈ لائن کر دیا گیا۔ جسٹس امیر مسلم ہانی کی وجہ سے سندھ میں کچھ افسر میرٹ پر اپنی تقرریاں محفوظ کر سکے ورنہ سندھ میں تقرریاں بکتی ہیں ۔یہاں تک کے یہ تقرریان اومنی گروپ کے دسترس میں آگئیں۔ سانحہ ساہیوال ہماری اپنی کمزوریوں کا عکس ہے، چاہے وہ نیا پاکستان ہو یا پرانا پاکستان سب یہی ہے کہ جو کل ہم نے بویا تھا آج کاٹ رہے ہیں ۔

صبا نے پھر در زنداں پہ آکے دی دستک

سحر قریب ہے دل سے کہو نہ گھبرائے

(’’فیض منٹگمری جیل ‘‘)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔