دخت (raz) اور دخت (zar)

سعد اللہ جان برق  اتوار 27 جنوری 2019
barq@email.com

[email protected]

ویسے تو یہ خالص منصوبہ بندی اور انتظامات سے ہوتا ہے لیکن چلیے اسے ہم انسان سے مشہور ومعروف کوڑے دان’’قسمت کے کھاتے‘‘ میں ڈال دیتے ہیں کیونکہ انسان نے اپنی غلطیوں کمزوریوں اور اسٹوپڈکاموں کے لیے ہمیشہ سے قسمت کے کوڑے دان کو استعمال کیا جسکا داروغہ مشہور ومعروف ولن شیطان ہے لیکن خیر جو بھی ہو انتظامات منصوبہ بندی اور تشہیری حربے سمجھ لیجیے یا قسمت کا کوڑے دان کہ کچھ لوگ بہت کرکے بھی’’کچھ‘‘ یعنی گمنام رہ جاتے ہیں اور کچھ لوگ چوہا مارتے ہیں تو شہر کی داد پاتے ہیں۔

اب دیکھے یہ جومونالیزا نام کی تصویر ہے ایسی تصویریں اس دنیا میں نہ جانے کتنی ہوں گی جو ’’میرؔخوار‘‘ کی طرح کوئی پوچھتا نہیں لیکن ایک مونالیزا کی ’’مسکراہٹ‘‘ کولے کر کتنے ماہرین اس میں طرح طرح کے فلسفے ڈالنے اور ڈھونڈنے پر لگے ہوئے ہیں۔

ایسا ہی معاملہ ہماری اس ممدوحہ کا بھی ہے جس کے ساتھ ہونے والی’’زیاتیوں‘‘ کا آج ہم ذکر کرنا چاہتے ہیں جس کی چھوٹی بہن دخت رز(raz) کے ڈنکے تو چاردانگ عالم میں بج رہے ہیں، دنیا بھر کے شاعروں، صورت گروں و افسانہ نویسوں کے اعصاب پر سوار ہے لیکن اس کی بڑی بہن دخت زر (zar) کا ذکر کوئی نہیں کرتا۔ اس بڑی بہن کا ذکر تو بعد میں کریں گے پہلے چھوٹی بہن ’’دخت رز‘‘ کے کرتوتوں کا بیان کرتے ہیں جس کے بارے میں کسی شاعر نے کہاہے کہ:

اس کی بیٹی نے اٹھا رکھی ہے دنیا سر پر

وہ تو اچھا ہے کہ انگور کے بیٹا نہ ہوا

یہ شخص نرا شاعر ہے یا نالائق۔ کہ اس کی معلومات انتہائی ناقص ہیں ،کون کہتا ہے کہ انگور کا کوئی بیٹا نہیں ہے، یہ ’’سرکہ‘‘ نام کا جو ’’غریبامو‘‘ شخص ہے یہ کیاکسی گملے سے اگا ہے یا یہ ٹیوب بے بی ہے۔یہ بھی تو اس انگور کا ہی بیٹا ہے لیکن طوائفوں کے ہاں بیٹا پیدا ہونے کو نحوست مانا جاتا ہے اس لیے اس کی نہ کوئی قدر ہے نہ قیمت نہ ویلیو۔ بازاروں میں رلتا پھرتا ہے اور چھابڑوں ریڑھیوں پر بکتا ہے۔ اور اسی انگور کی بیٹی۔۔وہ تو آپ جانتے ہیں کہ کہاں کہاں تک اس کا راج ہے، مار ہے اور ہاہا کار ہے خاص طور پر خاص الخاص لوگوں کے خاص الخاص مجلس تو اس کے بغیر ادھورے تصور کیے جاتے ہیں اور جن کو اس سے ربط ضبط نہ ہوں اسے نالائقوں ، بدذوقوں اور بدشوقوں میں شمار کیا جاتا ہے:

عقل عیار ہے سو بھیس بنا لیتی ہے

عشق بیچارہ نہ واعظ ہے نہ مالک نہ حکیم

چنانچہ اس کے ایک ہزار ایک ناموں اور بیسوں میں سے ایک ’’کرپشن‘‘ بھی ہے اب تو لگ پتہ گیا ہو گا کہ ہم کس عفیفہ کا ذکر کرنا چاہتے ہیں اسی کا اصل اور جدی پشتی اوریجنل اور خاندانی نام اس مشہور ترکاری میں بھی ہے جو زر زمین اور زن پر مشتمل ہے لیکن باقی سب سے اس کا زور زیادہ ہے اسلیے اس نے زبردستی سب کو زیر کر کے زبردست بنایا ہوا ہے جس کا ثبوت اس شعر میں بھی موجود ہے

اے زر توُ خدا نیستی و لیکن بخدا

قاضی الحاجاتی و محی المماتی

صرف یہ ہی ہے بلکہ رافع الدرجاتی شافع المجرماتی اور کراماتی بھی ہے اور یہ عفیفہ جس کا ذکر ہے اس کی دختر نیک اختر نیک بختر اور نیک تخترہے آپ سوچیں گے کہ آج ہم اچانک اس دخت زر معروف کرپشن کا ذکر کیوں لے بیٹھے ہیں تو شاید آپ نے کبھی نہیں سنی ہو گی کہ اب تک صرف انفرادی وارداتیں کرتی رہتی تھی لیکن اب اس کی نظر پورے پورے ملکوں کو فتح کرنے پر ہے۔ اور اس سلسلے کا پہلا قدم اس نے اٹھا لیا ہے کہ مملکت اللہ داد ناپرسان نامی ملک کو اس نے مکمل طور پر فتح کر کے اپنی مقبوضات میں شامل کر لیا ہے۔

تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ مملکت اللہ داد ناپرسان میں اس ’’دخت زر‘‘ کا بہت زور ہو گیا تھا گلی گلی میں شور ہو گیا تھا کہ دل ہوا بو کاٹا۔ دراصل مملکت اللہ داد ناپرسان کی ’’جین‘‘ ہی میں یہ پہلے سے موجود تھی جو بڑھتے بڑھتے اتنی بڑھ گئی کہ پورے ملک کے اعصاب پر چڑھ گئی اور ہر ہر کونے میں وڑ گئی اور پھر یہ ہوا کہ پورے ملک کا چپہ چپہ ذرہ ذرہ اس سے بھر گیا۔ ناپرسانیوں کا سونا جاگنا اٹھنا بیٹھنا چلنا پھرنا یہاں تک کہ دھونا نچوڑنا بھی اس کے قبضے میں چلاگیا اور پورا ملک زیرسایہ دخت زر ہو گیا۔

تب لوگوں کو احساس ہوا کہ ہم تو اسیر پنجہ بیداد ہو کر برباد ہو رہے ہیں چنانچہ اس کے خلاف باتدبیروں نے طرح طرح کی تدبیریں لانچ کرنا شروع کر دیں لیکن اس نے تمام تدبیروں پر ’’زر‘‘ کا پانی پھیر دیا۔

الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا

دیکھا تو اس’’دخترزر‘‘ نے سب کا کام تمام کیا

جو بھی اس کے’’انسداد‘‘ کو نکلتا اس کی ’’امداد‘‘ میں جت جاتا جو بھی اس کے خلاف تدبیر ہوتی، یہ اس کو اپنی تقدیر و توقیر بنا لیتی۔

چنانچہ جو اس کے خلاف نکلے تھے وہ سب اس کے اخلاف ہوتے چلے گئے پھر حکومت کو احساس ہوا کہ جو ’’سفیدہاتھی‘‘ اس نے اس کے خلاف چھوڑے تھے وہ پورس کے ہاتھی بن کر اس کے ٹرانس میں آ جاتے یہاں تک کہ حکومت اسے چھوڑ کر اپنی فکر میں لگ گئی کہ ان سفید ہاتھیوں کا پالنا اب اس کی گردن کا پھوڑا بن گیا۔

آخرکار جب حکومت کی چخیں نکل گئیں کہ ایک طرف یہ قتالہ عالم تھی اور دوسری طرف اس پر چھوڑے ہوئے سفید ہاتھی چھچھوندر بن گئے گویا حکومت جو رقم اس کی انسداد پرخرچ کرتی تھی وہ اس کی امداد پر خرچ ہو جاتی تھی۔آخرکار حکومت نے اس کا ایک انقلابی حل ڈھونڈ نکالا کہ ملک کو اسی کے حوالے کر دے کہ

سپردم بتو مایہ خویش را

تودانی حساب کم و بیش را

ایک طرح سے یہ علاج بالمثل تھا۔ کیونکہ دیکھا گیا ہے کہ ممانعت بھی ایک طرح سے ترغیب ہوتی ہے اگر پنڈورا کو باکس بہ کھولنے کے لیے نہ کہا جاتا تو شاید وہ اس صندوق کو آنکھ بھر کر دیکھتی بھی نہیں۔

چنانچہ ’’دخت رز‘‘ کو بھی کھلی چھٹی دیکر بے مہار چھوڑ دیا گیا آپ یقین نہیں کرینگے کہ یہ بالمثل نسخضہ بڑا کامیاب نکلا ایک تو اس سفید ہاتھیوں سے چھٹکارا مل گیا جو باہر صرف انسداد کے دانت دکھاتے اور اندر خوب خوب چباتے تھے۔

دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ محکموں اہل کاروں اور اداروں کے کارکنوں نے تنخواہ بڑھانے کے مطالبے اور اس کے لیے ہڑتالیں اور دھرنے وغیرہ چھوڑ دیے بلکہ امکان ہے کہ ایک دن تنخواہ لینا بھی چھوڑ دیںبلکہ حکومت کی آمدن بھی بہت بڑھ گئی کہ اب اسے چھوٹی چھوٹی چیونٹیوں کو ٹیکس کے انجکشن لگا کر قطرہ قطرہ خون نہیں نچوڑنا پڑتا بلکہ کرپشن یعنی ’’دخت زر‘‘ پر ٹیکس لگانے سے بھاری آمدنی بھی ہونے لگی ہے یعنی اس نے گلشن ہی میں تنگی دامان کا علاج ڈھونڈ لیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔