اسکی انگ، برف زاروں کا کھیل

ساجد ذوالفقار  اتوار 21 جولائی 2013
کیا ہیں ضابطے اور قاعدے اس کھیل کے؟۔ فوٹو: فائل

کیا ہیں ضابطے اور قاعدے اس کھیل کے؟۔ فوٹو: فائل

 دنیا کے برف پوش پہاڑی سلسلوں اور غیرہموار میدانی نوعیت کے علاقوں میں اسکی انگ کا شوق صدیوں پرانا ہے۔

اسکی انگ کے کھلاڑی اپنے مختلف رنگوں سے بھرپور گرم لباس زیب تن کیے اور جوتوں میں نصب سیلرور (اسکینر) کے ساتھ چھڑیوں (اسکی پولز) کی مدد سے اپنے توازن کو خوب صورتی سے برقرار رکھتے ہوئے اوپر سے نیچے اور طویل ترین برفانی اونچے نیچے علاقوں میں چہل قدمی کرتے ہوئے اور تیز رفتاری سے اپنی بے پناہ مہارت، چابک دستی اور قدموں کے عمدہ طریقے سے استعمال کے ساتھ شائقین کو محظوظ کرتے ہیں اور ساتھ ہی خود بھی اس برفانی کھیل کا لطف اٹھاتے ہیں۔

اسکی انگ کا کھیل زمانۂ قدیم سے کھیلا جارہا ہے۔ یورپ کے شمالی علاقوں میں اس کے آثار نمایاں طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ شمالی یورپ کے ملک ناروے کے روڈ وے جزیرے پر غار کی چٹانوں کی دیوار پر چار ہزار سال پرانے اسکی انگ کے تصویری خاکے موجود ہیں اور ناروے کے پڑوسی ملک سوئیڈن کے جغرافیہ دانوں کے حاصل کردہ قدیم اسکی انگ کے تصویری خاکوں کے ٹکڑے بھی تقریباً چار ہزار سال پرانے ہیں، جو اس بات کی تصدیق کرتے ہیں۔ روس کے شمالی حصے میں موجود غار کی دیواروں پر بھی اسکی انگ کے مخصوص انداز لیے ہوئے تصویری خاکے دنیا میں اسکی انگ کے کھلاڑیوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہ تصویری خاکے بھی صدیوں پرانے ہیں۔

اسکی انگ جو سرمائی کھیلوں میں ’’کھیلوں کے شہنشاہ‘‘ کے نام سے جاناجاتا ہے۔ اولمپکس، عالمی چیمپئن شپ اور عالمی کپ کے مقابلوں میں مقبولیت میں سب سے بلندی پر نظر آتا ہے۔ برفانی کھیلوں کے وہ مقابلے جن کو دیکھنے کے لیے شائقین کی تعداد دوسرے کھیلوں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہوتی ہے اسکی انگ ہی ہے۔ اسکی انگ کی عالمی فیڈریشن (ایف آئی ایس) کے مطابق اس وقت دنیا میں اسکی انگ کے باقاعدہ کھلاڑیوں کی تعداد چھے کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ ان کھلاڑیوں کی بڑی تعداد شمالی یورپ اور شمالی امریکا کے ممالک سے تعلق رکھتی ہے۔

سرمائی اولمپکس، عالمی چیمپئن شپ اور عالمی کپ مقابلوں میں شمالی یورپ نے اپنی برتری کو قائم رکھا ہے۔ یورپ کے دیگر ممالک اور امریکا بھی کام یابیوں کی فہرست میں شامل رہے ہیں۔

1924میں جب پہلے سرمائی اولمپکس کا انعقاد ہوا تو اسکی انگ بھی ان کھیلوں میں شامل تھا۔ جب سے یہ تمام اولمپکس میں کھیلوں کا باقاعدہ رکن ہے۔ تاریخ کے حوالے سے اسکی انگ بطور ایک کھیل آج سے158سال پہلے شمار یورپ کے ملک ناروے کے شہر کرسٹانا (جسے آج ہم اوسلو کے نام سے جانتے ہیں) میں کھیلا گیا تھا۔ یہ شہر اس زمانے میں ایک قصبہ ہوا کرتا تھا۔ یہاں ایک ریس منعقد ہوئی تھی جس میں مقامی اسکی انگ کے شائقین کھلاڑیوں نے حصہ لیا تھا۔ یہ اسکی انگ کے کھیل کا عالمی کھیلوں کی دنیا میں باقاعدہ شروع ہوا جو ناروے کے پڑوسی ممالک سوئیڈن اور فن لینڈ تک جا پہنچا۔ شمالی یورپ میں برفانی علاقے عموماً میدانی اور غیر ہموار نوعیت کے ہیں۔ اس لیے مقابلوں کی صورت بھی کراس کنٹری کی رہی۔ اسکی انگ کی مقبولیت کی یہ ہوا یورپ کے ان ممالک تک بھی پہنچی جو برفانی پہاڑی علاقوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ یہ زمانہ 1870کا تھا۔ یورپ میں اسکی انگ کی مقبولیت کے پیش نظر اس کھیل کی باقاعدہ تنظیموں کی موجودگی عمل میں آنا شروع ہوگئی۔

سال 1924کا آغاز دنیا میں سرمائی کھیلوں کے شائقین اور کھلاڑیوں کے لیے خاصا خوش آیندہ ثابت ہوا، کیوںکہ اسی سال پہلے سرمائی اولمپکس کا انعقاد ہوا اور یہی سال اسکی انگ کی عالمی فیڈریشن (ایف آئی ایس) کا سال بھی بنا جب انٹرنیشنل اسکی انگ کمیشن کو انٹرنیشنل اسکی انگ فیڈریشن میں تبدیل کردیا گیا اور یہ تنظیم باقاعدہ عالمی اولمپک کمیٹی (آئی او سی) کی رکن بن گئی۔ جب سے اسکی انگ فیڈریشن نے اس کھیل کو مقبول اور منظم کرنے کا سفر جاری رکھا ہوا ہے۔ ساٹھ کی دہائی میں اسکی انگ ایشیا میں بھی مقبول ہوتی چلی گئی۔ اس کا ثبوت 1972میں جاپان کے شہر ساپارو میں سرمائی اولمپکس کا انعقاد تھا۔ عالمی اسکی فیڈریشن کے رکن ممالک کی تعداد113ہے۔ پاکستان میں اسکی انگ کو منظم ومقبول بنانے میں پاکستان ایئرفورس نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ پاک فضائیہ کی کوششوں سے1990میں اسکی فیڈریشن آف پاکستان قائم کی گئی۔ اس فیڈریشن کے قیام کے بعد پاکستان کے شمالی برفانی علاقوں میں اسکی انگ کے کھیل کی باقاعدہ سرگرمیوں کا آغاز ہوا۔ اسکی فیڈریشن آف پاکستان نے اب تک پندرہ قومی اسکی انگ چیمپئن شپ کا انعقاد کیا ہے۔ ان میں سے آٹھ پاکستانی ایئرفورس نے اور پانچ پاکستان آرمی نے جیتی ہیں۔ پاکستانی اسکی انگ کھلاڑی بین الاقوامی مقابلوں میں بھی ملک کی نمائندگی کرچکے ہیں۔ ان میں تیسری اور چوتھی ایشیائی اسکی انگ چیمپئن جو بالترتیب چین1996اور کوریا1999میں قومی کھلاڑیوں نے شرکت کی ہے۔ اس کے بعد ایران میں بچوں کی چیمپئن شپ میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔ مورو (جاپان) میں بچوں کی الپائن اسکی انگ چیمپئن شپ میں امر حبیب نے شرکت کی۔

پاکستان کے اسکی انگ کھلاڑیوں کی بین الاقوامی مقابلوں میں شرکت جاری ہے۔ اکیسویں سرمائی اولمپکس کے اسکی انگ مقابلوں میں، جو 2010 میں کینیڈا کے برفانی شہر وینکو ور میں منعقد ہوئے، پاکستان نے بھی شرکت کی۔ جب محمد عباس نے الپائن اسکی انگ کے ایونٹ سلالم میں حصہ لیا اور 103کھلاڑیوں میں79ویں نمبر پر رہے۔ اس طرح محمد عباس پاکستان کے پہلے کھلاڑی بن گئے جنہوں نے سرمائی اولمپکس میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ اس بار بھی پاکستان نے آیندہ سال روس کے برفانی شہر سوچی میں ہونے والے بائیسویں سرمائی اولمپکس کے لیے کوالیفائی کرلیا ہے۔ پاکستان کی طرف سے تین کھلاڑیوں میر نواز، محمد کریم اور محمد عباس کے نام قابل ذکر ہیں۔ ان میں میر نواز نے لبنان میں ہونے والی عالمی اسکی انگ فیڈریشن کی ٹرائلز چیمپئن شپ میں سلور میڈل بھی حاصل کیا۔ میر نواز نے یہ اعزاز سلالم ایونٹ میں حاصل کیا ہے۔ سوچی اولمپکس کے لیے ان تینوں کھلاڑیوں میں سے ایک کھلاڑی (ٹرائلز چیمپئن شپ جنوری2014تک جاری رہیںگی) کے بعد مجموعی کارکردگی کی بنیاد پر منتخب کیاجائے گا۔

اسکی انگ دو بنیادی اقسام نارڈک اسکی انگ اور الپائن اسکی انگ کے حوالے سے جانی جاتی ہے۔ اسکی انگ کی دیگر اقسام میں فری اسٹائل اسکی انگ، اسپیڈ اسکی انگ اور اسنوبورڈنگ شامل ہیں۔ نارڈک اسکی انگ کا تعلق شمالی یورپ سے ہے جہاں سے فن لینڈ، ناروے اور سوئیڈن کے کھلاڑیوں نے نارڈک اسکی انگ میں نمایاں ترین کام یابیاں حاصل کی ہیں۔ یورپ کے دیگر ممالک اور شمالی امریکا بھی اس قسم کے مقابلوں میں باقاعدگی سے شریک ہوتے رہے ہیں۔ دوسرے قسم الپائن اسکی انگ میں ہم مشرقی ومغربی اور جنوبی یورپ کے علاوہ شمالی امریکا کو بھی بڑی کام یابیوں کی فہرست میں اوپر دیکھتے ہیں۔ ایشیا سے جاپان اور اب چین الپائن اسکی انگ میں قابل ذکر کام یابیاں حاصل کررہے ہیں۔ نارڈک اسکی انگ کے مقابلے ہموار اور غیرہموار اور اونچے برفانی علاقوں میں ہوتے ہیں۔ اس میں کراس کنٹری کے مختلف مقابلے ہوتے ہیں۔ جب کہ الپائن اسکی انگ میں برفانی علاقہ، پہاڑی اور اونچائی کے ساتھ مقابلے کے لیے ضروری ہوتا ہے، 1936سے اسکی انگ کے مقابلوں میں خواتین کو حصہ لینے کی اجازت دی گئی تھی۔ اسکی انگ کے مقابلوں میں خواتین کو حصہ لینے کی اجازت اور طریقہ ٔکار اولمپکس، عالمی چیمپئن شپ وعالمی کپ اور دیگر قومی اور بین الاقوامی مقابلوں میں ایک ہی ہیں۔ یہ قوانین اور ضابطے عالمی اسکی انگ فیڈریشن نے ترتیب دیے ہیں جن میں یہ تنظیم ضرورت کے مطابق تبدیلیاں کرتی ہے۔ ان قوانین کے تحت خاص طور پر نارڈک اسکی انگ کے مقابلوں میں موسم کا قطعی موزوں ہونا، درجۂ حرارت کا قوانین کے مطابق معیاری ہونا لازمی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مقابلوں کے لیے برف باری کا موسم منتخب کیا جاتا ہے۔

نارڈک اسکی انگ تین حصوں پر مشتمل ہوتی ہے، جن میں کراس کنٹری، اسکی جمپنگ اور نارڈک کمبائنڈ کے مقابلے ہوتے ہیں۔

کراس کنٹری:۔

نارڈک اسکی انگ میں کراس کنٹری میں مختلف فاصلوں اور انداز کے مقابلے ہوتے ہیں۔ موجودہ وقت میں مرد کھلاڑیوں کے لیے اسپرنٹ انفرادی اور ٹیم (دو کھلاڑی) مقابلے،50کلو میٹرز ماس اسٹارٹ، 15کلو میٹرز انفرادی اور 4×10کلو میٹرز ریلے مقابلے (چار کھلاڑیوں کی ٹیم) اور 15کلو میٹرز کا پروسیٹ مقابلہ شامل ہے، جب کہ خواتین کے لیے بھی اسی ترتیب میں فاصلوں کو کم کرتے ہوئے30کلو میٹرز ماس اسٹارٹ، 10کلو میٹرز انفرادی، 4×5کلو میٹرز ریلے اور 5ء7کلو میٹرز پروسیٹ کے لیے مقابلے ہوتے ہیں۔

کراس کنٹری کے تمام مقابلوں میں کھلاڑی کو ایک خاص فاصلہ طے کرنا ہوتاہے، اس لیے اس کو استقلال اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے۔ یہ مقابلے طبعی حالات میں جن کا ایک کھلاڑی کو برف باری کے دوران مقابلہ کرنا ہوتا ہے اپنی فنی صلاحیت کے مطابق توانائی کو محفوظ رکھنے کا تقاضا بھی کرتے ہیں۔ مقابلوں کے دوران کھلاڑیوں کو مطلوبہ فاصلے میں ایک تہائی حصہ جو کسی قدر اونچا ہوتا ہے طے کرنا ہوتا ہے، جو نو سے اٹھارہ فی صد نیچے ہوتا چلاجاتا ہے۔ اسی طرح فاصلے کا ایک تہائی حصہ اونچائی سے نشیب کی طرف ہوتا ہے اور اتنا ہی فاصلہ ہموار سطح میں ہوتا ہے۔1985تک مقابلے کے لیے کلاسیکی طریقۂ کار استعمال کیا جاتا تھا، جس میں ایک کھلاڑی فاصلہ طے کرنے کے دوران خاصا وقت لیتا تھا۔ لیکن موجودہ وقت میں کھلاڑی بہت پھرتی کے ساتھ مطلوبہ فاصلہ طے کرتے ہیں، جو اصطلاحاً فری تیکنیک کہلاتا ہے۔ کراس کنٹری کے طویل فاصلوں کے مقابلے کلاسیکل تیکنیک کے ساتھ ہی ہوتے ہیں۔

کراس کا مقابلہ عموماً 2ریسوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ ریسیں 2روز میں مکمل ہوتی ہیں۔ پہلی ریس کا دورانیہ سے موازنہ کیا جاتا ہے۔ مقابلے میں ایک کھلاڑی کے مقابلے کے آغاز کرنے کے بعد باقی کھلاڑیوں کے درمیان30سیکنڈ کا وقفہ لازمی ہے۔ پہلی ریس کلاسیکل تیکنیک میں بہتر وقت کے ساتھ مکمل کرنے والا کھلاڑی فاتح قرار دیاجاتا ہے، جب کہ اگلے روز کھلاڑی دوسری ریس میں اپنی پہلی ریس کے دورانیہ کا پابند نہیں ہوتا وہ آزادانہ طور پر ریس میں شریک ہوتا ہے مقابلے کا فاتح دونوں ریسوں میں بہترین وقت کے ساتھ فاصلہ طے کرنے والا قرار دیا جاتا ہے۔

اسکی جمپنگ:۔

نارڈک اسکی انگ کا دوسرا حصہ اسکی جمپنگ ہے۔ اسکی جمپنگ اسکی انگ کے تمام ایونٹس میں مقبول ترین کھیل ہے۔ شائقین کے لیے اس حصے میں خاص دل چسپی دیکھی جاتی ہے۔ اسکی جمپنگ کے بین الاقوامی مقابلوں میں اب تین ایونٹس نارمل ہل، لارج ہل، اور نارڈک کمبائنڈ شامل ہیں۔ نارمل ہل 90میٹرز اور لارج ہل 120میٹرز اونچائی کے مقابلے ہوتے ہیں۔

اسکی جمپنگ میں ایک طرف تو کھلاڑی جمپ پر کودنے سے پہلے مخصوص ٹریک پر جو فاصلہ طے کرتا ہے مقابلے میں موجود منصف اس کو دیکھتے ہیں جب کہ دوسری کھلاڑی کو دیا گیا مخصوص کودنے کا اسٹائل بھی  مقابلے کے فیصلے کا اہم حصہ ہوتا ہے۔ جمپنگ کے لیے مکمل فنی صلاحیت، قوت اور دیے گئے دورانیے کے مطابق رفتار کا صحیح استعمال کام یاب جست لگانے میں مدد دیتے ہیں۔ کھلاڑی کی جمپ اسٹینڈ سے لگائی گئی انتہائی جست کو انگریزی کے حروف ’’کے‘‘ سے ظاہر کیا جاتا ہے۔ ایسا کھلاڑی سب سے زیادہ پوائنٹس حاصل کرتا ہے۔ پانچ جج مقابلے کے منصف ہوتے ہیں۔ ٹیم مقابلوں میں چار کھلاڑیوں کی ٹیم اپنے ملک کی نمائندگی کرتی ہے۔

نارڈک کمبائنڈ:۔

نارڈک کمبائنڈ اسکی انگ کا تیسرا حصہ نارڈک کمبائنڈ ایک روایتی ایونٹ کا درجہ رکھتا ہے۔ یہ ایونٹ کراس کنٹری اسکی انگ اور جمپ پر مشتمل ہوتا ہے۔ نارڈک کمبائنڈ کے کھلاڑی کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ ہمہ جہد صلاحیتوں کا مالک ہو، نارڈک کمبائنڈ میں کھلاڑی کی طرف سے’’کراس کنٹری‘‘ اور ’’اسکی جمپ‘‘ کا مشترکہ مظاہرہ اس کی آل رائونڈ کارکردگی اور بہترین پوائنٹس کے حصول میں اس کو کام یابی سے ہم کنار کرتے ہیں۔ نارڈک کمبائنڈ کے مقابلے تقریباً24گھنٹے تک جاری رہتے ہیں۔ خواتین اسکیٹرز پہلی بار 2014کے سوچی سرمائی اولمپکس میں جمپنگ کرتی نظر آئیں گی۔ نارڈک مقابلے انفرادی اور ٹیم کی شکل میں ہوتے ہیں۔ ایک ٹیم چار کھلاڑیوں پر مشتمل ہوتی ہے۔

اسکی انگ کی دوسری بنیادی قسم الپائن اسکی انگ کہلاتی ہے۔ الپائن اسکی انگ پانچ حصوں (ایونٹس) پر مشتمل ہے جو ڈائون ہل، سلالم، جائنٹ سلالم، سپر جائنٹ سلالم اور سپر کمبائنڈ کہلاتے ہیں۔ ان تمام ایونٹس میں مرد اور خواتین دونوں کے لیے مقابلے ہوتے ہیں۔

ڈائون ہل:۔

ڈائون ہل کے مقابلے پچاس کلو میٹرز نارڈک کراس کنٹری کی طرز پر ہوتے ہیں۔ یہ ایونٹ ’’الپائن کوئن ‘‘ بھی کہلاتا ہے۔ ڈائون ہل کے کورس کو سرخ رنگ کے گیٹس سے آراستہ کیا جاتا ہے۔ جن کے درمیان آٹھ میٹرز کا فاصلہ رکھا جاتا ہے۔ اس ایونٹ میں ایک کھلاڑی ڈیڑھ سو کلو میٹرک فی گھنٹہ کی رفتار سے پہاڑی سے ڈھلوان سطح پر نیچے تیکنیکی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے بھرپور توجہ بلاکا اسٹیمنا اور موقع کی مناسبت سے اپنے وجود کو ٹانگوں پر اسکینر کے ذریعے گھمانے کی کام یاب مشق کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے۔ مردوں کے لیے آٹھ سو سے ایک ہزار میٹرز ڈھلان اور ایک منٹ30سیکنڈ سے لیکر دو منٹ تک کا دورانیہ درکار ہوتا ہے۔ ڈائون ہل مقابلے کے لیے منتخب کیے جانے والے راستے میں آنے والے ’’جرکس‘‘ زیادہ سخت اور خشک نہیں ہونا چاہیے۔ دھکے جو خاص طورپر مقابلے میں کھلاڑیوں کو عبور کرنے کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ ان جرکس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ یہ کسی جگہ سے کریک نہ ہوں۔ ایسی صورت میں کھلاڑی کو دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور حادثے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ ڈائون ہل کے راستے میں ڈھلان تیز موڑ اٹھے ہوئے نہیں ہوتے ہیں، خاص طور پر جہاں کھلاڑی کی رفتار تیز ہوتی ہے، تنگ راستے نہیں بنائے جاتے ہیں۔ یہ راستے کے مطابق زیادہ چوڑے بنائے جاتے ہیں۔ راستوں میں باہر کی جانب اضافی جگہ چھوڑی جاتی ہے جو ’’فال زون‘‘ کہلاتی ہے۔ یہ راستے چوڑائی میں30میٹرز ہونا ضروری ہیں۔ مقابلوں کا انسپکٹر مقابلے کے لیے بنائے جانے والے راستوں کی چوڑائی کو اگر مناسب سمجھتا ہے تو کم یا زیادہ کرواسکتا ہے، جب کہ انسپکٹر کی تصدیق حتمی ہوتی ہے۔

سلالم:۔

الپائن اسکی انگ کا دوسرا ایونٹ سلالم ہے۔ سلالم کے مقابلے کے لیے بنائے جانے والے ٹریک پر چھڑیوں کی مدد سے قطار میں گیٹس بنائے جاتے ہیں جن کے اوپر کے حصے میں نشانی کے طور پر سرخ جھنڈیاں لگائی جاتی ہیں۔ گیٹس آپس میں ایک دوسرے سے خاص فاصلے پر بنائے جاتے ہیں۔

سلالم مقابلے میں ایک کھلاڑی (اسکیٹر) کو اپنی بے پناہ تیکنیکی قابلیت اور مہارت کا ثبوت فراہم کرنا ہوتا ہے کہ وہ کس طرح اپنا وجود پھرتی کے ساتھ ایک ٹانگ سے دوسری ٹانگ پر منتقل کرتا ہے۔ کھلاڑی اپنی مہارت کو کام میں لاتے ہوئے ان گیٹس کو زگ زیگ کی شکل میں عبور کرتے ہوئے گزرتا ہے۔ راستے کی تیزی سے بدلتی ہوئی سمتیں کھلاڑی کی تیکنیکی صلاحیت کا امتحان ہوتی ہیں، کیوںکہ سلالم ٹریک کی بناوٹ کے مطابق اس کی سمت کسی قدر ڈھلان سطح میں ہوتی ہے۔ یہ سمت جیسے جیسے کھلاڑی آگے کی طرف بڑھتا ہے اس میں تبدیلی آتی چلی جاتی ہے۔ ایک سلالم کا مقابلہ دو رائونڈز پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ دو رائونڈز دو مختلف راستوں (ٹریکس) میں ہوتے ہیں۔ مقابلے کا فیصلہ ان دونوں رائونڈ میں طے کردہ فاصلے کے دونوں دورانیوں کو آپس میں جمع کرنے کے بعد کیا جاتا ہے۔ مردوں کے لیے140سے200ڈھلان اور 35سے75گیٹس اور خواتین اسکیٹرز کے لیے 120سے180ڈھلان اور 45سے60گیٹس درکار ہوتے ہیں۔

جائنٹ سلالم:۔

مقابلوں کے لیے تیار کیے جانے والے کورس (علاقے) کو پوری طرح استعمال کرنے پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ اس کورس کو سرخ اور نیلے رنگ کے گیٹس سے آراستہ کیا جاتا ہے۔ ان گیٹس کے درمیان چار سے آٹھ میٹرز کا فاصلہ رکھا جاتا ہے اور ان کے درمیان تقریباً دس میٹرز کی اضافی جگہ بھی چھوڑی جاتی ہے۔ جائنٹ سلالم کا ایونٹ ایک روز میں دور ریس پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ دونوں ریس دو مختلف کورس میں ہوتی ہیں۔ مقابلے میں شریک ہونے والے کھلاڑیوں کو اجازت ہوتی ہے کہ وہ مقابلوں سے پہلے اگر چاہیں تو کورس کا معائنہ کرسکتے ہیں۔ لیکن وہ اس کورس کو مقابلے سے قبل استعمال نہیں کرسکتے۔ مقابلے کے آغاز کے لیے ہر کھلاڑی کو ایک منٹ اور 30سیکنڈ کا وقت دیا جاتا ہے۔ مقابلے کے دوران اگر کھلاڑی کو اس سے باہر نکال دیا جائے یا وہ گیٹس سے نہ گزر پائے ایسی صورت میں وہ مقابلے سے خارج بھی ہوسکتا ہے، لیکن فوراً ہی کورس میں آجانے کی صورت میں وہ مقابلے میں رہتا ہے۔ مقابلے کا فاتح وہ کھلاڑی ہوتا ہے جو دونوں ریسوں میں بہترین وقت کے ساتھ مقابلہ ختم کرتا ہے۔ جائنٹ سلالم کے لیے بنائے جانے والے موڑ سمجھ کے مطابق چھوٹے بڑے کرنے کی اجازت بھی ہوتی ہے۔ اس ایونٹ میں کھلاڑی کو یہ اجازت بھی ہوتی ہے کہ وہ اپنی مرضی سے مقابلے کے لیے کورس(علاقے) کا انتخاب کرے جو مختلف گیٹس پر مشتمل ہوتے ہیں۔ جائنٹ سلالم میں ایک کھلاڑی کو اپنی تیز ترین رفتار کے ساتھ طویل اور مختصر موڑوں کو خوب صورتی سے کاٹنے کی صلاحیت کا ثبوت فراہم کرنا پڑتا ہے۔

سُپرجائنٹ سلالم:۔

الپائن اسکی انگ کا چوتھا ایونٹ سپرجائنٹ سلالم ہے جو ’’سپرجی‘‘ بھی کہلاتا ہے۔ سپر جی کو جدید اسکی انگ کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ یہ ایونٹ 1988کے کالگری سرمائی اولمپکس میں کھیلوں کا حصہ بنا۔ سپرجائنٹ سلالم کو ڈائون ہل اور جائنٹ سلالم کی درمیانی شکل کہا جاسکتا ہے۔ سپر جائنٹ کورس کی بناوٹ ڈائون ہل کے مقابلے میں قدر عمودی ہوتی ہے۔ سپر جی مقابلوں میں کھلاڑیوں (اسکیٹرز) کے لیے پہلے کورس کا خاکہ مقابلے کے دوران رفتار کے مختلف علاقوں کے بارے میں معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔ اس ایونٹ میں گیٹس کی تعداد جائنٹ سلالم کے برابر ہوتی ہے۔ سرخ اور نیلی جھنڈیوں کے فرق سے یہ گیٹس تیار کیے جاتے ہیں۔ دونوں رنگ کے جھنڈیوں کی تعداد برابر ہوتی ہے۔ سپر جائنٹ مقابلہ صرف ایک ریس میں ہوتا ہے۔ ریس کا آغاز ڈائون ہل ریس کی طرز پر ہوتا ہے۔

سپر کمبائنڈ:۔

سپر کمبائنڈ مقابلہ ڈائون ہل اور سپر جی ایونٹس پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہی ایک اسکیٹر (کھلاڑی) ان دونوں ایونٹس یکے بعد دیگرے حصہ لیتا ہے۔ سپر کمبائنڈ کے مقابلے 2 روز میں مکمل ہوتے ہیں۔ ان مقابلوں کا آغاز ڈائون ہل سے ہوتاہے۔ یہاں ڈائون ہل کے مقابلے سادہ ڈائون ہل سے کچھ مختلف ہوتے ہیں۔ مثلاً مقابلہ 150میٹرز اونچائی سے نیچے کی سمت شروع ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کورس سے متعلق دیگر ضابطے سادہ ڈائون ہل کی طرز پر ہی ہوتے ہیں۔ ریس کے لیے پندرہ بہترین اسکیٹرز کا انتخاب کیا جاتا ہے جو عالمی اسکی فیڈریشن کی ریکنگ کے مطابق مقابلہ شروع کرتے ہیں۔ سپر جی کا دوسرا ایونٹ سپر جائنٹ سلالم سے جہاں 2روسیں کورس میں تیار کیے گئے بہت نزدیک گیٹوں کے ساتھ ہوتی ہے۔

فری اسٹائل اسکی انگ:۔

اسکی انگ کا نوعمر ایونٹ فری اسٹائل اسکی انگ ہے۔ آرٹسٹک خصوصیات کا حامل یہ ایونٹ الپائن اسکی انگ میں کافی مقبولیت حاصل کرگیا ہے۔ اس ایونٹ میں جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کھلاڑی کی اپنی فن کارانہ صلاحیت پر منحصر ہے کہ وہ کس حد تک اپنے مد مقابل کھلاڑی سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اس ایونٹ میں کھلاڑی کی عمدہ ٹائمنگ مقابلے کے فیصلے میں اسکورنگ کا درجہ رکھتی ہے۔ فری اسٹائل اسکی انگ تین حصوں بیلٹ ریسنگ، بمپی زنرز اور آرٹسٹک جمپنگ پر مشتمل ہوتی ہے۔ فری اسٹائل اسکی انگ میں تین ایونٹس موگلز ایریلز اور اسکی کراس میں مردوں اور خواتین کے لیے مقابلے ہوتے ہیں۔

اسپیڈ اسکی انگ:۔

اسپیڈ اسکی انگ میں کھلاڑی اپنے جسموں سے چپکے ہوئے مخصوص چست لباس اور ہیلمٹ سے مکمل طور پر اپنے سر اور چہرے کو چھپائے ہوئے انتہائی منفی درجۂ حرارت میں ڈھلان سطح سے جس برق رفتاری سے نیچے کی طرف اسکی انگ کرتے ہوئے آتے ہیں۔ یہ منظر گو کہ دیکھنے والوں کے لیے خاصا دلکش نظر آتا ہے، لیکن اس دوران کھلاڑی کے لیے مسلسل خطرہ موجود ہوتا ہے۔ اس برق رفتار اسکی انگ کے دوران کھلاڑیوں کے نیچے کی سمت آنے کی رفتار سوا دو سو کلو میٹرز فی گھنٹہ سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے۔ اسپیڈ اسکی انگ کے لیے چھوٹے قد کے کھلاڑیوں کے لیے عمدہ کارکردگی کے مواقع موجود ہوتے ہیں۔

اسنوبورڈنگ:۔

اسکینر اور اس کی پولز کے ساتھ اسکی انگ کا کھیل ڈیڑھ سو سال سے کھیلاجارہا ہے۔ تاہم اسنوبورڈنگ کھیل کی عمر ابھی خاصی کم ہے۔ اسنوبورڈنگ کے مقابلے سرمائی اولمپکس میں پہلی بار 1998تا گانو(جاپان) میں شامل ہوئے۔ کھلاڑی اس کھیل میں مخصوص جوتوں کو اس بورڈ پر اسٹریپ کے ساتھ باندھ لیتے ہیں۔ اسنوبورڈنگ مقابلے ایک سلنڈر نما شکل کے آدھے کورس میں ہوتے ہیں۔ کھلاڑی خاصی برق رفتاری کے ساتھ سلنڈر کی دیواروں پر اپنے بورڈ کی مدد سے اسکی انگ کرتے ہیں۔ پانچ جج کھلاڑیوں کو ان کی کارکردگی پر پوائنٹس دیتے ہیں۔ اسنوبورڈنگ کے ایونٹس میں اسنوبورڈ کراس، ہاف پائپ اور پیرالل جائنٹ سلالم شامل ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔