اصل مکھڑے کی رونمائی

ڈاکٹر یونس حسنی  منگل 29 جنوری 2019

مودی جی کو یہاں پاکستان میں ہندو بنیاد پرست کے طور پر جانا جاتا ہے اور ان کا بھارت میں اقتدار میں آنا اہل پاکستان کو پسند نہیں آرہا ہے۔ وہ ان کی وزارت عظمیٰ کو خطے کے لیے بدقسمتی سمجھتے ہیں۔

ہمارے خیال میں بھارت میں مودی جی کا برسر اقتدار آنا بڑا مبارک ہے وہ اصل ہندو ذہن کی نمایندگی کرتے ہیں اور معتدل مزاج ہندو جو بات کہتے ہچکچاتے اور اسے سینوں میں دبائے رکھتے ہیں ، مودی جی اس کو علی الاعلان کہتے ہیں اور اپنے عزائم کو پوشیدہ نہیں رکھتے۔

اگر یہ مہاشے کچھ اور عرصہ برسر اقتدار رہے اور اپنا اصل چہرہ اسی طرح بے نقاب کرتے رہے تو عالمی ضمیر جو مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے مواقعے پر سوتا رہتا ہے ، جاگنے پر مجبور ہوجائے گا ، ہندو فرقہ پرستی بے نقاب ہوجائے گی۔ بھارتی سیکولر ازم کا جادو اتر جائے گا اور بھارت ایک ہندو مملکت کے طور پر ابھر کر سامنے آجائے گا۔ اس مملکت میں نہ کسی کے لیے برداشت ہوگی نہ مواقع خصوصاً مسلمانوں کو بری طرح مظالم کا شکار بنایا جاتا رہے گا اور بھارتی جمہوریت اور اس کی ہمہ قومی حیثیت بری طرح متاثر ہو کر رہ جائے گی۔

بھارت بالآخر ایک ایسی ریاست بن جائے گا جس میں ’’ہندوتوا‘‘ کے علاوہ کسی اور مسلک کا اظہار ممکن نہ رہے گا۔ ایسے میں ایک طرف جہاں بھارت کی جمہوریت، سیکولر حیثیت، رواداری اور مذہبی ہم آہنگی کا خاتمہ ہوگا، وہیں دیگر مذہبی ریاستوں کے لیے جواز مہیا ہو جائے گا۔ اس لیے اہل پاکستان ان کے اقتدار کو بھارت کی قومی خودکشی قرار دیتے ہیں اور ان سے بڑی امید لگائے ہوئے ہیں۔

ہندو دانشوروں کا دعویٰ ہے کہ ہندو دھرم میں اتنی لچک اور ایسی جاذبیت ہے کہ وہ دوسرے مذاہب کو یا دوسری اقوام کو اپنے اندر ضم کرلیتا ہے اور یہاں کسی دوسرے مذہب کے لیے گنجائش نہیں رہی۔ میرے ایک جان کار ہندو نے قبول کیا کہ ہندو مذہب کسی ’’کتاب‘‘ کے مطابق نہیں چلتا بلکہ روایات اور رسوم کا پابند ہے ،اس لیے وہ بہت جلد دوسرے مذاہب کو اپنا گرویدہ بناکر اپنے اندر ڈھال لیتا ہے۔ اس کی مثال انھوں نے بجا طور پر بدھ مت، سکھ مذہب اور جین مت کو قرار دیا جو ویدک دھرم نہ ہوتے ہوئے بھی آج ہندو دھرم کا حصہ سمجھے جاتے ہیں۔

البتہ اسلام ایک سخت جان مذہب ثابت ہوا ۔ ایک تو وہ برصغیر کی حدود سے باہر سے آیا تھا دوسرا اس میں توحید پر شدید ایمان و ایقان اور قرآنی تعلیمات سے روگردانی نہ کرنے کی ایسی قیود تھیں کہ ہندو دھرم کی لچک اسلام کو اپنے اندر پوری طرح سمو نہ سکی۔

یہ اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام کی بنیادی تعلیم کی غیر معمولی طاقت اور اثرکے باوجود مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے نے پیدائش سے موت تک اور عقیقے سے شادی بیاہ تک کے تمام رسم و رواج میں ہندوؤں کی پیروی کو اپنا شعار بنالیا ہے مگر پھر بھی عقیدے اور عبادات کے امور میں بڑی حد تک وہ نہ صرف ہندو اثرات سے محفوظ بلکہ متصادم رہا۔

اسلام کی یہی صلاحیت ہندو ذہن میں کھٹکتی رہی ہے اور وہ برصغیر سے مسلم عقائد ومسلم معاشرت کے نقوش مٹانے کو اپنا مذہبی حق سمجھتے رہے ہیں۔ لیکن جنگ آزادی کے دنوں میں وہ ہندو مسلم یک جہتی کو بھی برداشت نہیں کرسکے اور ان کی تنگ نظری نے بالآخر پاکستان کو ’’وجود‘‘ بخشا ۔ پاکستان کے وجود میں آنے میں مشیت ایزدی تو سب سے بڑا عنصر تھا ہی قائد اعظم کی جدوجہد اور ان کی غیر معمولی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ ہندوؤں کی تنگ نظری نے اہم رول ادا کیا اور اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا اگر ہندو اتنی تنگ نظری کا مظاہرہ نہ کرتے تو پاکستان کا قیام اتنا آسان نہ تھا یا شاید ممکن نہ رہتا۔

تقسیم کے بعد ہندو تنگ نظری ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ، وہ اس زخم کو جو وجودِ پاکستان کی شکل میں ان کی اپنی حماقت سے ان کے جسم و جاں پر لگا ہے چاٹ رہے ہیں۔ آئے دن ملک میں ہندو مسلم فساد برپا ہوتے رہتے ہیں۔ صرف ایک گائے کے کاٹے جانے کی افواہ پر درجن بھر مسلمان قتل کردیے جاتے ہیں۔

2013 میں ایودھیا میں بابری مسجد کو یہ کہہ کر مسمار کردیا گیا کہ کسی زمانے میں یہاں رام مندر تھا۔ حالانکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ رام چندر جی خود کوئی تاریخی حقیقت نہیں افسانوی کردار تھے۔ ہم مانتے ہیں کہ ہندو مذہب کے متعدد دیوتا بھی ’’ افسانوی کردار‘‘ ہی ہیں اس لیے اگر اس افسانوی کردار کے نام پر مندر تعمیر کرلیں تو ہرج نہیں۔ مگر بابر کے عہد میں اس کے ایک وزیرکی تعمیر کردہ مسجد ہی کی جگہ پر رام مندر تعمیر کرنا کیوں کر ضروری ہوا۔

اب بھارت میں مرکزی حکومت بھی مودی صاحب جیسے جنونی ہندو کی لیڈر شپ میں قائم ہے اور یوپی میں تو ایک ہندو انتہا پسند سادھو ادتیہ ناتھ وزیر اعلیٰ کے عہدے پر فائز ہیں۔ اس بار دیوالی پر انھوں نے ایک تقریر میں کہا کہ وہ رام مندرکی تعمیر کرکے رہیں گے اور مندر میں رام جی کی بڑی مورتی نصب کی جائے گی اور دیکھتا ہوں کہ کون مائی کا لال ہمیں اس کام سے روک سکے گا۔

’’مائی کا لال‘‘ سے ان کی مراد بھارتی سپریم کورٹ تھا۔ کیونکہ جب ایودھیا کی بابری مسجد کے انہدام کے لیے ہزاروں ہندو کدالیں اور پھاؤڑے لے کر مسجد کے گنبد پر چڑھ گئے تھے توگھنٹوں بعد بھارتی پولیس نیند سے (حسب معمول) بیدار ہوئی تھی اور مسجد کو مکمل انہدام سے بچا لیا گیا تھا مگر جو نقصان پہنچانا تھا وہ پہنچایا جاچکا تھا۔ پولیس اس کے بعد ہی ’’شانتی شانتی‘‘ کہتی آئی ہے۔ تب سے یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔

اب اگلا سال بھارت میں انتخابات کا سال ہے بابری مسجد/رام مندر معاملہ پھر اٹھایا گیا ہے تاکہ ہندو عوام کے جذبات رذیلہ کو بھڑکا کر ووٹ حاصل کیے جاسکیں۔ اب صورتحال یہ ہے وشوا ہندو پریشد نے 20 ہزار، شیو سنہا نے دس ہزار اور آر ایس ایس نے پندرہ ہزار رضا کار فراہم کیے ہیں۔ یہ پچاس ہزار رضا کار رام سینک یعنی رام چندر جی کی فوج کہلائیں گے۔ یہی رام مندر کی تعمیر بھی کریں گے اور اس کی تعمیر میں رکاوٹ بننے والوں کی سرکوبی بھی کریں گے۔ اس کے لیے انھیں پٹا بھنوٹ، لٹھ بازی، ترشول اندازی اور آتشیں اسلح کے استعمال کی تربیت دی جائے گی۔

یہ رضاکار ایودھیا پہنچنا شروع ہوگئے ہیں، مورتیاں تراشی جا رہی ہیں۔ پتھر کاٹے جا رہے ہیں۔ سلیب تیار ہو رہے ہیں۔ ہتھیاروں پر دھاریں رکھی جا رہی ہیں 2019 شروع ہوگیا ہے اور یہ جنگی تیاریاں بھی شروع ہیں ایودھیا ہی نہیں پورے بھارت کے مسلمان سہمے ہوئے ہیں ۔ یہ لاوا پھٹے گا یا آتش فشاں آگ نہیں اگل سکے گا مگر دھواں ضرور اٹھے گا اور اپنے پیچھے ہندو عزائم کی خوفناک صورت گری ضرور چھوڑ جائے گا۔

ہندوؤں کا یہ انداز حکمرانی رنگ لا کر رہے گا۔ چہرے سے نقاب اتر جائے گا اور اصل مکھڑے کی رونمائی بھی ضرور ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔