ناک کی مکھی

انیس منصوری  اتوار 21 جولائی 2013
muhammad.anis@expressnews.tv

[email protected]

تبدیلی کے ٹھیکیداروں اور غیرت کے علمبرداروں کے لیے خوشخبری ہے کہ دو ماہ میں سب تبدیل ہو گیا اور اب ہر طرف چین کی بانسری بج رہی ہے ۔ عوام کی خوشحالی کا یہ عالم ہے کہ لوگ لمبی قطاروں میں آٹا لینے کے لیے نہیں کھڑے بلکہ وزیر اعظم ہائوس کے باہر اس لیے موجود ہیں کہ وہ اپنا یہ پیغام پہنچا دیں کہ  اب دنیا صرف کشمیر کو جنت کہہ کر ہماری غیرت کو ٹھیس نہ پہنچائے۔

کھوکھلے نعروں نے عقل پر پہرے لگا دیے تھے جب آنکھ کھولی تو  وہی اندھیری رات اور وہی بادشاہ کا جلاد کبھی مہنگائی اور کبھی بے روزگاری کے سانپ کی شکل میں موجود تھا۔ ڈرون ایک اشارے میں گرا دینے والے نہ جانے اب کس کے گرنے کا انتظار کر رہے ہیں۔

چھ ماہ میں بجلی کے جن کو بوتل میں بند کر دینے والے، شادی کی تاریخ بتاتے ہو ئے شرما رہے ہیں۔ اور تبدیلی کا نعرہ لگا کر دلوں پر قبضہ کر لینے والے اپنا دامن اسلام آباد کی فضائوں میں جھاڑ کر اپنی پاکیزگی کا رونا رو رہے ہیں۔

جسے متوسط طبقے سے چُن کر ہیرا کہا گیا تھا وہ پتھر بن گیا۔ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کا جب انتخاب کیا گیا تو سب نے واہ واہ کی۔ اور ہر پروگرام میں یہ نعرہ بلند کیا گیا کہ اب بلوچستان بدل جائے گا۔ وہاں سے نکلنے والا سونا، بلوچوں کو چین سے سونے کا موقعہ دے گا۔ پہاڑوں سے جب سڑکیں نکلیں گی تو میرا وہ بلوچ نوجوان بھی اُتر آئیگا جس نے  ناراضگی میں بندوق اٹھا لی ہے۔ وزارت داخلہ میں اجلاس لینے کے بعد شاید مسخ شدہ لاشیں نہیں ملیں گی۔ اور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں، ہزارہ شیعہ بھی جمہوری انداز میں جی سکیں گے۔ اگر آپ کو یاد نہیں اور آپ ہر بار کی طرح بھول چکے ہیں تو میں آپ  کو یاد دلاتا ہوں کہ ہمارے تمام ٹی وی کے پروگراموں میں یہ کہا جا رہا تھا کہ پہلی بار بلوچستان میں سرداروں کو شکست ہو ئی ہے۔ دودھ کی نہریں بہنے کو تیار ہیں، اب کوئی سردار نہیں بلکہ ایک عام بلوچ ڈاکٹر وزیر اعلی ہو گا۔ میں نہیں بھول سکتا کہ نواز شریف نے کس طرح اپنی جماعت میں نئے آئے ہو ئے سرداروں اور پرانے نوابوں کو مہاجر اور انصار کے قصے سنائے تھے۔ مگر آج بھی وہ ہی سردار کس طرح متوسط طبقے کے وزیر اعلیٰ کو اپنی طاقت دکھاتے ہیں، یہ کہانی میں آپ کو سناتا ہوں۔

مجھے بلوچستان کے پولیس افسروں اور منٹو کے کوچوان میں کوئی فرق نہیں لگتا۔ منٹو کا کوچوان بھی یہی سمجھتا تھا کہ نیا قانون آنے سے وہ انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہو گیا مگر کتابوں کے موٹے موٹے حرف عام آدمی کو بس خواب ہی دکھاتے ہیں۔ بلوچستان کے پولیس والے بھی یہ سمجھے کہ اب جب ایک عام آدمی وزیر اعلیٰ بن چکا ہے تو  وہ قانون کی حکمرانی قائم کر سکیں گے۔ اور اس کا آغاز کیوں نہ ان لوگوں سے ہی کیا جائے جو عوام کے نمایندے ہیں اور اسمبلیوں میں عوا م کے ووٹوں سے منتخب ہوئے ہیں۔ DIG صاحب نے حکم دے دیا کہ اب کو ئی بھی رکن اسمبلی اپنے محافظوں کے ساتھ اسمبلی میں داخل نہیں ہو گا۔ بدقسمتی سے یہ حکم SP سمیع اللہ  کو بھی مل گیا۔ اور سمیع اللہ نے یہ حکم اپنے ماتحتوں کو پہنچا دیا۔

قربانی کا رونا رونے والے اور پس پردہ حقیقی وزیر اعلیٰ سردار نواب ثناء اللہ زہری صاحب اپنے روایتی قافلے کے ساتھ اسمبلی کے دروازے پر آئے۔ ڈیوٹی پر موجود پولیس اہلکاروں نے درخواست کی کہ جناب حکم کے مطابق اسمبلی کے اندر آپ کے ساتھ بندوق والے لوگ نہیں جا سکتے۔ ایک سردار اور پھر حکمران جماعت کے اہم آدمی کو کسی نے روکنے کی  جرات کر دی تھی۔ سردار صاحب نے حکم دے دیا کہ میرے راستے سے ہٹ جائو۔ مگر مجبور پولیس والوں کے سر پر قانون سوار تھا۔

SP سمیع نے سردار صاحب کو سمجھایا کہ جناب یہ ایک قانونی تقاضہ ہے، مگر حکمران جماعت کا سردار تو پھر سردار ہوتا ہے۔ انھوں نے اسے اپنے احترام کے خلاف قرار دیا۔ وہیں مجھے لگا کہ تبدیلی اور قربانی کے ساتھ بلوچوں کے ارمان بھی اب خطرے میں ہیں۔ یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ حقیقی وزیر اعلیٰ کے ناک پر مکھی بیٹھ گئی ہو  اور آئینی وزیر اعلیٰ کو معلوم نہ ہو۔ ڈاکٹر عبدل مالک صاحب فوراً باہر تشریف لائے۔ اور سردار صاحب کو معاملہ رفع دفعہ کرنے کی گزارش کی۔ مگر سردار صاحب نے شرط رکھ دی کہ میں اُس وقت تک اندر نہیں جائونگا جب تک اس پولیس والے کو سبق نہیں سکھایا جاتا۔ میں سمجھ چکا تھا کہ ابھی ہزارہ برادری کو جلد امن کی نوید نہیں مل سکتی۔

مالک صاحب کی درخواست پر ثناء صاحب اندر آئے لیکن اس شرط پر کہ اُس وقت تک کوئی اور بات نہیں ہو گی جب تک اس پولیس والے کے کان نہیں کھینچے جاتے۔ کیا اب بھی آپ کو سمجھنے میں مشکل ہو گی کہ بلوچ نوجوان کیسے اس وزیر اعلیٰ کی بات پر یقین کر لے جو اپنے ایک ساتھی سردار کے سامنے مضبوطی سے کھڑا نہیں ہو پایا۔ وہ ان طاقتور اداروں سے کس طرح بات کریگا؟ پولیس والوں نے سردار صاحب کے بندوق والے ساتھیوں سے گزارش کی کہ وہ سائیڈ میں کھڑے ہو جائیں تو انھوں نے پولیس والوں پر بندوق تان لی۔ میرا قلم یہ جان چکا تھا کہ  بلوچستان  کے پہاڑوں سے نکلنے والا سونا، عام بلوچوں کو  سکون کی نیند نہیں دے گا۔ طاقت کے بت آج بھی اسی قد کے ساتھ ہمارے سامنے کھڑے تھے جہاں وہ 11 مئی سے پہلے موجود تھے۔ جب پولیس والے اس حد تک بے بس ہوں تو کوئی بتا سکتا ہے کہ کوئٹہ کے سریاب روڈ پر امن ہو جائے گا؟ علمدار روڈ پر اب کوئی جنازہ نہیں اٹھے گا؟ اور تربت کے پہاڑوں سے اب کوئی مسخ شدہ لاش نہیں ملے گی ۔

ابھی یہ منظر چل ہی رہا تھا کہ اندر سے وزیر اعلیٰ صاحب نے ایک فیصلہ سنایا۔ ’’کیونکہ پولیس افسر نے ہمارے قبائلی ماحول کا خیال نہیں کیا، اس لیے اُسے معطل کیا جاتا ہے۔‘‘  فیصلہ سنتے ہی اسمبلی میں موجود پولیس اہلکاروں کے چہرے زرد ہو گئے جیسے مون سون کے موسم میں اچانک خزاں کی ہوا چلنے لگی ہو۔ جسم ڈھیلے پڑنے لگے اور کچھ لمحوں کے افسوس کے بعد سب گپ شپ کرنے لگے۔ کئی اسمبلی کے رکن درجنوں مسلح افراد کے ساتھ آئے مگر پولیس والے سلوٹ مار کر دروازہ کھولتے رہے۔

بلوچستان میں صرف سردار ہی مسئلہ نہیں وہاں ہر طرف سے بندوق کی بُو آتی ہے اور پھر ہوتا یہ ہی ہے کہ ایک پولیس والا کسی چائے کے کھوکھے پر سکون سے چائے پیتا ہے۔ اور دہشت سڑک پر ناچتی ہے۔ قانون سے زیادہ مضبوط اگر روایات ہیں تو پھر وزیرستان کے پہاڑوں سے لے کر کراچی کے سمندر تک یہ لڑائی کیوں ہو رہی ہے؟ اگر قانون کو یوں ہی پیروں سے روندھ کر سر پر تاج بٹھانے ہیں تو پھر موٹی موٹی کتابوں کو صرف چوم کر رکھ کیوں نہیں دیا جاتا؟ ہو سکتا ہے بلوچستان اسلام آباد سے دور ہو ۔ لیکن لاہور میں جب ایک رکن اسمبلی کا بیٹا، ایک پولیس والے کو مار رہا تھا تو اس وقت کیوں نگاہ کرم  نہیں کی؟؟ لیکن ابھی دل جلانے کے لیے بجلی بہت ہے قانون کی عزت کا رونا پھر کبھی روئیں گے ۔۔۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔