کچھ کراچی کے بارے میں … (آخری حصہ)

زاہدہ حنا  بدھ 30 جنوری 2019
zahedahina@gmail.com

[email protected]

ہم جوکراچی کے باسی ہیں ، یہ جانتے ہیں کہ کراچی جسے کسی زمانے میں ’’ ملکہ مشرق ‘‘ کہا جاتا تھا ، آج بے ہنگم اور بے ڈھنگا ہوگیا ہے لیکن شہر خود تو ایسے نہیں ہو جاتے۔ ہم جو اس کے رہنے والے ہیں، ہم نے اپنے شہرکو اس حال تک پہنچایا ہے ۔ ہم میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو گزرے ہوئے دنوں میں اس کے تعمیراتی حسن ، توازن اور تہذیبی نفاست کو تلاش کرتے ہیں ۔گزشتہ چند برسوں میں پرانے کراچی کی کھوج میں کئی کتابیں لکھی گئیں ۔

حمیدہ کھوڑو سندھ کی بیٹی ہیں، ان کے والد مرحوم ایوب کھوڑو سندھ کے وزیر اعلیٰ رہے ہیں ۔ حمیدہ اور ان کے والد کو اپنی زمین سے گہری وابستگی رہی ہے ۔ حمیدہ کھوڑو اور انور موراج نے ’’کراچی میگا سٹی آف اَ وَر ٹائمز‘‘ مرتب کی جس میں اہم لکھنے والوں کے مضامین اکٹھے کیے گئے ہیں۔ یاسمین لاری نے کراچی کی تعمیراتی تاریخ پر بہت خوب لکھا ۔ سید احمد حسین کی کتاب ’’بحیرۂ گوہر عرب‘‘ اور عثمان دمودہی کی ’’کراچی : تاریخ کے آئینے میں‘‘ اس کے علاوہ بھی بہت سی کتابیں کراچی پر لکھی گئیں جن میں سے  چند انیسویں صدی کے انگریزوں کی لکھی ہوئی ہیں۔

حالیہ دنوں میں سب سے دلکش اور نظر نواز ’’انڈوومنٹ فنڈ ٹرسٹ‘‘کی شایع شدہ کتاب ہے۔ یہ ٹرسٹ سندھ کے ثقافتی ورثے کے تحفظ کے لیے قائم کیا گیا اور اسی کی زیر نگرانی Karachi: Legacies of Empire ، 2014ء میں شایع ہوئی۔ یہ کتاب پیرزادہ سلمان کی  تلاش، لکھت اور فہیم صدیقی کی کھینچی ہوئی تصویروں کا رنگین مرقع ہے ۔ ایک ایسا شاہکار جو اس ساحلی شہر سے عشق میں گرفتار ہونے والوں کی محبت کی کہانی ہے ۔ پیر زادہ سلمان شاعر بھی ہیں ، ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’ وقت ‘‘ ، چند مہینوں پہلے شایع ہوا ہے جس پر انھیں داد مل رہی ہے لیکن ان کا اصل کارنامہ کراچی کی کولونیل تعمیرات اور اس کی شوکت رفتہ کو ہمارے سامنے لانا ہے۔ یہ عمارتیں اور طرزِ تعمیر ہم سب کی نگاہوں کے سامنے تھا لیکن ہم انھیں دیکھ کر بھی نہیں دیکھتے تھے ۔ ان عمارتوں اور طرزِ تعمیر پر وقت کی مکڑی نے جالا بن دیا تھا جسے صاف کرکے پیرزادہ اور فہیم ہمارے سامنے لائے ہیں ۔

پیرزادہ سلمان کراچی میں پیدا ہوئے۔ اس کی گلیوں میں کھیلے،پلے بڑھے، سندھ کے شہروں کے پھیرے لگائے۔ انھیں صوفیوں کی اس سرزمین سے عشق ہے، کراچی کی گلیاں ان کی چھانی ہوئی ہیں ۔ ایسا ہی ایک شخص شہر کے حسن کو دریافت کرسکتا تھا ، پتھروں سے شہر کی تاریخ کشید کرسکتا تھا ۔

وقت ہم سب کی طرح پیرزادہ کو بھی لبھاتا ہے، شاید اسی لیے یہ کتاب میری ویدر ٹاور کے گھنٹہ گھر سے شروع ہوتی ہے۔ اس کا سنگ بنیاد 1884ء میں رکھا گیا اور یہ 1892ء میں مکمل ہوا۔ پتھر میں کیسی دیدہ زیب کشیدہ کاری کی گئی ہے ۔ اس کی پیشانی پر ستارۂ داؤدی اپنا جاہ و جلال دکھاتا ہے ، چند برس پہلے اس کے جالے صاف کیے گئے،اس کے پتھر چمکائے گئے لیکن کچھ لوگوں کو اپنے دل کا غبار نکالنے کے لیے اس کی دیواریں اور اس کے ستون ، موزوں اور مناسب محسوس ہوئے ۔ سو انھوں نے اس پر اپنے دل پسند نعرے لکھ دیے ۔ ان لوگوں کو شاید حسن اور فنی مہارت سے بغض ہے ۔

اسی طرح شاہانہ عمارت کراچی پورٹ ٹرسٹ کی ہے۔ اس کے گنبد کے گرد چکرکاٹتے ہوئے کبوتروں کے جھنڈ ہیں ۔ ایمپریس مارکیٹ ہے جہاں سے ملکہ وکٹوریہ کا ’’مہارانی کا مجسمہ‘‘ ہٹا دیا گیا ہے اور خوانچے والوں کی بھر مار ہے۔ وہ وسیع اور کشادہ صحن جو ایمپریس مارکیٹ کو نگاہوں میں زندہ کر دیتا تھا، اب چھوٹی چھوٹی عارضی دکانوں سے بھرچکا ہے ۔ اب سے دہائیاں پہلے یہ ایک شاندار بازار تھا جہاں برطانوی اور یورپین خریدارآتے تھے ، اس دورکا خاتمہ ہوئے زمانہ ہوا ۔

ہندو جم خانہ کیا دلکش عمارت ہے۔ چوبرجیوں، کنگورے دار محرابوں اور مناروں سے بنی ہوئی اس عمارت کو 1980ء میں گرانے کی کوشش ہوئی ۔کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ یہاں جدید اندازکی ایک کئی منزلہ عمارت زیادہ اچھی رہے گی لیکن ہیریٹج فاؤنڈیشن آڑے آئی اور  ہندو جم خانہ کو بچا لیا گیا ۔ یوں 1925ء میں بنائی جانے والی یہ دلکش عمارت لٹیروں کے ہاتھوں سے محفوظ ہوگئی۔

اس دورکی روا داری کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ کراچی کی ہندو برادری نے بنوائی اور اس کے معمار ایک مسلمان احمد حسین آغا تھے ۔ اب کئی برس سے اس میں ضیاء محی الدین کی سربراہی میں ’’ناپا‘‘ کا ادارہ قائم ہے ۔ یہاں تھیٹر اور موسیقی آزاد فضاء میں سانس لیتے ہیں اور بیسویں صدی میں بنائی جانے والی ایک شاندار عمارت اپنی شان کے ساتھ زندہ ہے ۔

ڈی جے کالج کی عمارت کے ستونوں کو فہیم صدیقی نے اپنے کیمرے کی آنکھ سے کیا خوب محفوظ کیاہے ۔ پرانی عمارتیں تاریخ کے نقش قدم ہیں اور انھیں قائم و دائم رکھنا ہم سب کی ذمے داری ہے ۔ ڈی جے سائنس کالج سے ہزارہا نوجوان پڑھ کر نکلے ہیں، جنھیں اندازہ نہیں کہ انیسویں صدی میں قائم ہونے والے اس ادارے کے سرپرست اور مربی سیٹھ دیا رام جیٹھا مل کے ممنونِ احسان ہیں، جنہوں نے اپنی دولت اور توجہ سے ایک ایسا تعلیمی ادارہ قائم کیا تھا جو آج تک علم کے جو یا نوجوانوں کی پیاس بجھا رہا ہے۔

اس کتاب میں ہمیں سینٹ پیٹرک کیتھیڈرل کی پرشکوہ عمارت نظر آتی ہے۔ جس کا تقدس ہمیں اپنے حصار میں لے لیتا ہے اور اسی میں موہٹا پیلس ہے۔ زرد رنگ کے گزری اورگلابی رنگ کے جودھ پوری پتھروں سے بنی ہوئی عمارت جسے چھوکر دیکھیں تو گزرے ہوئے زمانے سانس لیتے ہیں۔ یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ موہٹا پیلس اب ایک میوزیم میں تبدیل ہوچکا ہے اور یہاں آنے والے اس عمارت میں تاریخ کی گزری ہوئی سانسیں سن سکتے ہیں اور اس کے قدموں کی چاپ انھیں بہت کچھ سوچنے اور وقت کی بھول بھلیوں میں پھرنے پرمجبورکرتی ہے ۔

اس کتاب کے صفحوں میں اس مندرکی تصویریں بھی ہیں جو لگ بھگ 200 برس پرانا ہے اورکراچی سے چلے جانے والوں کی یاد دلاتا ہے ۔

اس کتاب کو پڑھتے ہوئے مجھے ایک پیاؤ نظر آیا جس میں گردن جھکائے ایک گھوڑا پانی پی رہا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی مجھے اپنے گھر کے قریب بنا ہوا پیاؤ یا د آیا جہاں سے فٹن والے اپنے گھوڑوں کو پانی پلاتے تھے ۔ یہ پارسیوں یا ہندوؤں کے بنائے ہوئے تھے ۔ اب ان میں سے اکثر غائب ہوچکے ہیں ۔

پیرزادہ کی یہ کتاب ہمیں کراچی کی ان گلیوں میں لے جاتی ہے جس سے گزرتے ہوئے ہمیں یاد نہیں رہتا کہ ان گلیوں کی کیا اہمیت رہی ہے۔ اسی طرح بہت سی عمارتیں ، بازار اور اسکول ہیں جن میں قدم رکھیے تو وقت کے دھندلکوں میں گم ہوجانے والوں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں ۔ پرانی کاروان سرائیں اور ان کے بلند و بالا پھاٹک نظر آتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ ان کاروان سرائیوں میں دور دراز علاقوں سے آنے والے کاروان ٹہرتے تھے، سامان تجارت لے کر آتے تھے اور انھیں فروخت کرتے تھے ، نیا سامان اونٹوں کی کمر پر لادتے تھے اور چل پڑتے تھے ۔

زمانہ اسی طرح رواں دواں ہے ۔ پیر زادہ سلمان اور فہیم صدیقی نے ہم پرکرم کیا کہ اس شہرکی کئی صدیاں اپنے قلم اور کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کر لیں ۔ سپریم کورٹ سے پرانا کراچی بحال کرنے کا جو حکم آیا ہے، وہ سر آنکھوں پر لیکن یہ سوچنے کی بات ہے کہ اس کے بے ڈھنگے پن کو کچھ کم کرتے ہوئے یہ ضرور دیکھا جائے کہ آنے والے دنوں میں بالواسطہ اور بلاواسطہ طور پر تقریباً ایک کروڑ لوگوں کو بیروزگار اور بے گھرکیے بغیر کس طرح کراچی کو سنوارا اور تعمیر کیا جائے تاکہ سندھ کا یہ تاریخی شہر دوبارہ قدیم اور جدید تہذیب کا ایک حسین امتزاج بن سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔