شوقینوں کی سیاست

عبدالقادر حسن  بدھ 30 جنوری 2019
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

میری تحریری زندگی کے تین چار زاویے ایسے ہیں جن کے گردو پیش میں اپنی تحریروں کو ذہن سے اتار کر کاغذ پر منتقل کرتا ہوں۔ یعنی وہ تحریریں جو میں اپنے محترم قارئین کو پڑھانا چاہتا ہوں اور ان تحریروں کے دھندلے سے خاکے میرے ذہن میں ابھرتے ہیں ا ن کو تحریری صورت دینے کی خواہش کرتا ہوں۔ اگرچہ میں اس کام سے تھک گیا ہوں جو کئی برسوں سے کر رہا ہوں اور مجھ سے زیادہ میرے قارئین بھی ان تحریروں سے تھک یا اکتا چکے ہوں گے جو دنیا کے ایک جیسے حالات اور میرے دماغ کی قریباً ایک جیسی سوچ کی پیداوار ہوتے ہیں۔

میں نے باورچی سے جب شکوہ کیا کہ وہ ماکولات میں کچھ تنوع پیدا کرے یعنی کھانے میں زبان کو کچھ نیا پن بھی ملے اور لکھتے ہوئے بھی کچھ ذہنی حرکت پیدا ہو جو کچھ نیا لے کر قارئین کی خدمت میں حاضر ہوں لیکن باورچی جو باقاعدہ اخبار بھی پڑھتا ہے اور سیاست میں منہ بھی مارتا ہے مزید برآں کھانوں میں سیاسی ذائقہ بھی تلاش کرتا ہے جواب دیتا ہے کہ آپ کچھ نیا سامان خورونوش لائیں تو ہمیں بھی اسے پکانے میں کچھ لطف ملے۔ لیکن ہر روز وہی گوشت کے چند ٹکڑے اور کسی سبزی کی چند قاشیں کیا ندرت پیدا کر سکتی ہیں ۔

خور ونوش کی دنیا نہ جانے کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہے اور اس میں کتنی ندرت پیدا ہو چکی ہے مگر آپ ہمیں جو کچھ لے کر دیتے ہیں بازار سے جو سامان لاتے ہیں اور پرانی آگ والے چولہوں پر ہم جو کچھ جوں توں کر کے پکاتے ہیں اس میں ورائٹی اور ندرت کہاں پیدا ہو سکتی ہے ۔ پھر آپ جو بسیار خوری سے توضع نہیں کرتے  لیکن کھانوں میں وہ ندرت اور ورائٹی پیدا نہیں کرنے دیتے  جو ہانڈی کو نیا رنگ اور ذائقہ دیتی ہے پھر صرف کسی چیز کے پکانے کی بات ہی نہیں ہے اس کونیا ذائقہ دینے کا سوال بھی ہے اور کوئی چیز بھی پکائیںاس کے ذائقے میں تبدیلی اور نیا پن لایا جا سکتا ہے ۔

ایک باورچی کا یہی کمال ہے کہ وہ کھانوں میں ندرت اور نیا ذائقہ پیدا کرے۔ مثلاً گوشت تو ہر کوئی پکاتا ہے مگر اس میں نیا ذائقہ کوئی ماہر باورچی ہی ڈال سکتا ہے ۔ اسی طرح سیاست کا حال بھی ہے کہ سیاست تو ہر سیاست دان کرتا ہے مگر اس میں نیا رنگ اور اندازکوئی ماہر سیاستدان ہی پیدا کر سکتا ہے اور سیاست کو آگے بڑھانے کے لیے جس ذائقے اور ندرت کی ضرورت ہوتی ہے وہ ہانڈی کے روایتی سامان میں نہیں ہوتی اسے نیا رنگ دینا پڑتا ہے تا کہ قارئین کا ذائقہ خراب نہ ہو اور سیاسی قارئین کا ذائقہ تو ہر لمحے بدلتا رہتا ہے اور کسی نئے لیڈر کی آمد پر اس میں جو نیا رنگ پیدا ہوتا ہے اس رنگ کو سنبھالنے اور سیاسی عوام کے ذائقے کے مطابق بنانے میں سیاست کی دنیا میں کچھ بے تکلفی پیدا کرنی ہوتی ہے جو کسی سیاستدان اور اس کے عوام کی پسندیدہ ہو۔

سیاست کا میدان سیاستدانوں سے بھرا پڑا ہے اور اس میں اضافہ بھی دن بہ دن ہو رہا ہے۔ خدا بھلا کرے صحافت کا کہ اخبارات کسی نئے سیاستدان کو آگے بڑھانے اور اس میں کچھ جان ڈال کر اونچا اٹھانے کی کوشش بھی کرتے ہیں ۔ اب یہ کسی نئے سیاستدان پر منحصر ہے کہ وہ نئی دنیا کا سیاستدان بنتا ہے یا پرانی طرز کی سیاست کو زندہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ہمارے ہاں نئی اور پرانی سیاست کے نمونے افراط کے ساتھ موجود ہیں اگر نوبزادہ نصر اللہ خان جیسا پرانی سیاست کا نمایندہ موجود نہ بھی ہو تب بھی سیاست کی رونق قائم رہتی ہے ۔ ثقہ سیاستدانوں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں جہاں وہ اکثر وقت موجود رہتے ہیں اور سیاست کی ڈوبتی تیرتی ناؤ کو رکنے نہیں دیتے۔

یہ سیاست دان جنھیں آپ نادر روزگار بھی کہہ سکتے ہیں اب رفتہ رفتہ ناپید ہو گئے ہیں اور بہت کم سیاستدان ایسے ہیں جو اپنے پیچھے اپنی کوئی سیاسی یادگار چھوڑ جاتے ہیں۔ اگر نوابزادہ نصر اللہ خان اپنے کسی جانشین سے محروم رہے تو اور تو کوئی سیاستدان دکھائی نہیں دیتا جو سیاست کی جدو جہد میں اپنا ترکہ چھوڑ جائے۔

اب سیاستدان آتے ہیں اور وقت کی ضرورت اور اپنے سیاسی شوق کو پورا کر کے گم ہو جاتے ہیں ۔ اب تو ایسی سیاسی جماعتیں بھی باقی نہیں رہ گئیں جو اپنے نقش پا چھوڑ جائیں اور آنے والے سیاستدان ان نقوش پا پر چل کر سیاست کی دنیا کو زندہ کر سکیں اور آگے بڑھا سکیں۔ اب تو سیاست زیادہ تر اخباری بیانات تک محدود رہ گئی ہے عوام نہیں اخبارات جسے چاہئیں سیاستدان بنا دیں یا سیاست کے اندھیرے گوشے میں گم کر دیں ۔

مجھے تو یوں لگتا ہے کہ کلاسیکی سیاست رفتہ رفتہ ختم ہو جائے گی اور اخباری سیاست باقی اور زندہ رہ جائے گی اور یہ بھی غنیمت ہے کہ سیاست کا نام باقی رہ جائے اور سیاست بھی ثقہ سیاست کیونکہ عام سیاست تو ہر حال میں چلتی ہی رہے گی کیونکہ سیاست ایک کھیل ہے جسے ہر شوقین اور خوشحال کھیلتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔