صاحبان علم وعرفان کی خدمت میں

سعد اللہ جان برق  بدھ 30 جنوری 2019
barq@email.com

[email protected]

حافظ شیرازی کی غزل کا یہ مطلع بھی خاصا مشہور ہے کہ:

واعظاں کیں جلوہ بر محراب و منبر می کنند

چوں بہ خلوت می روند، آں کار دیگر می کنند

یعنی واعظ حضرات جو محراب ومنبر پر جلوہ گری فرماتے ہیں،جب یہ اتر کر خلوت میں جاتے ہیں تو ’’کاردیگر‘‘ کرتے ہیں۔ حافظ نے اس کاردیگر کی تفصیل نہیں بتائی ہے کہ ان کے زمانے میں وہ کار دیگر کیا ہوتا تھا۔ ہوگا کوئی کاردیگر ہمیں اس سے کیا ہمیں تو اس کے اسی غزل کے دوسرے شعر سے غرض ہے کہ:

مشکلے دارم ز دانشمند مجلس باز پرس

توبہ فرمایاں چرا خود توبہ کمتر می کنند

یعنی ہمیں ایک ایسے ’’دانش مند مجلس‘‘ کی بڑی شدت سے تلاش ہے جو ہمارا ایک مسئلہ حل کر دے جس نے ہمیں ایک عرصے سے پریشان کیا ہوا ہے۔ ہمارے اردگر یعنی دسترس میں جو لوگ دانش مندی کرتے ہیں ان پر ہمیں کچھ زیادہ بھروسہ نہیں ہے کیونکہ ان کے ’’کاردیگر‘‘ کا ہمیں پتہ ہے یعنی پشتو محاورے کے مطابق ان سے پوچھنے پر ’’دل ہمارا پانی نہیں پیتا‘‘ چنانچہ کسی اور دانش مند کو ڈھونڈ رہے تھے، ایک علامہ ڈاکٹر پروفیسر مولانا طاہر القادری کے نام پر ’’دل پانی پیتا‘‘ تھا لیکن وہ ہمارے خیال وخواب سے بھی دور چلے گئے ہیں، شاید کسی ضروری کاردیگر کے لیے۔

ہم تقریباً مایوس ہوچلے تھے لیکن اللہ ہم پر مہربان ہوا اور اس نے ہمیں ایک ’’صاحب علم وعرفان‘‘ کی ایک تقریر سننے کا موقع فراہم کردیا حالانکہ یہ تقریر نہیں بلکہ چند جملے تھے جو ایک دوست کے فون پر ہمیں بطور رنگ ٹون سنائی دیے۔ دل نے کہا جاایں است پھر ہم نے تلاش کی اور اس دل پذیر آواز میں اور بھی بہت کچھ سنا۔دل نے فوراً غٹ غٹ بہت سارا پانی پی لیا۔

پوچھنا یہ ہے کہ جہاں تک ہمارا ناقص علم کام کرتاہے تو ہمیں دین نے بتایا ہے کہ دین دو بنیادوں پر قائم ہے۔ایک حقوق اللہ اور دوسری حقوق العباد۔حقوق اللہ کے بارے میں امید کی جاسکتی ہے کہ وہ انتہائی کریم رحیم اور رحمان اپنے حقوق بخش دے یا ان میں رعایت دے لیکن حقوق العباد کے بارے میں سختی سے کہاگیا ہے کہ ان میں کسی رعایت کا کوئی امکان نہیں اور ان کا کڑا احتساب ہوگا۔

حقوق اللہکو ہم اردو میں عبادات کہتے ہیں اور حقوق العباد کو ’’معاملات‘‘ کانام دیتے ہیں اور ہمارا عقیدہ ہے کہ یہ دونوں ہی’’دین‘‘ ہیں۔لیکن کچھ عرصے سے ہم دیکھ رہے ہیں بلکہ محسوس ہو رہا ہے ہمارے ملک میں جیسے حقوق العباد یعنی ’’معاملات‘‘ والی شق بالکل معطل بلکہ منسوخ ہو اور صرف حقوق اللہ یعنی عبادات کو دین سمجھ لیا گیا ہو۔

ہم چونکہ عام دھارے سے الگ ایک دیہاتی اور اندھیری دنیا میں رہتے ہیں، اس لیے یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ حقیقت کیا ہے، وطن عزیز میں ایسا کیوں محسوس ہوتا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں ہواکہ ہمارے اس ملک خداداد پاکستان میں صاحبان علم وعرفان کا کوئی بڑا اجتماع ہوا ہو اور اس میں ’’نظریہ ضرورت‘‘ کے تحت حقوق العباد کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ جان کر یکسر منسوخ کر دیاگیا ہو کیونکہ یہاں پر تو ایک کثیرالجہت کثیر المعنی اور کثیر المقاصد جمہوریت بھی تو ہے جس میں جمہوریت کی اتھارٹی کو تمام اتھارٹیوں سے بالاتر جانا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ جمہوریت مذاہب وادیان کو تو کیا فطرت کو بھی رد کر کے اپنے فیصلے نافذ کر سکتی ہے جیسا کہ جمہوریت کے سب سے بڑے علمبردار ملک میں ’’ہم جنس پرستی‘‘کو جائز قرار دیاگیا ہے جو کائنات اور فطرت کے اصولوں کے بھی خلاف ہے۔اس لیے ہو سکتا ہے کہ وطن عزیز میں کسی وقت کسی قسم کی جمہوریت نے قرار دیا ہو کہ آج  سے حقوق العباد معطل اور حقوق اللہ پر سارا زور دیا جائے گا اور ہم جیسے بے خبر بے علم پینڈو اور عامی کو خبر نہ ہوئی ہو۔

ایک مرتبہ پھر ہم معذرت خواہ ہیں کہ ہم روشنیوں کے روشن روشن شہروں سے دور ایک جاہل اور بے خبر معاشرے کے باسی ہیں اس لیے یہ عین ممکن ہے کہ اس ’’باسہولت تبدیلی‘‘ سے بے خبر رہے ہوں اس لیے جاننا چاہتے ہیں کہ کیا واقعی ایسا کچھ ہوا ہے؟ اگر ہوا ہے تو ہمیں بھی اپنی فصیح وبلیغ زبان میں بتا دیں کیونکہ ان کم بخت حقوق العباد یا معاملات یا رزق حلال نے تو ہماری جان ضیق میں کی ہوئی ہے کیونکہ ’’عبادات‘‘ تو اتنی مشکل نہیں، مساجد بے شمار ہیں جو ہر قسم کی سہولتوں سے آراستہ ہیں اور آدمی ان کو نہ صرف آسانی سے ادا کر سکتا ہے بلکہ خلق خدا کو دکھادکھاکر داد بھی وصول کر سکتا ہے۔

لیکن حقوق العباد؟ غالباً وہ بال سے باریک اور تلوار سے تیز صراط مستقیم یہی حقوق العباد ہیں جن کی وجہ سے ہم بمشکل ایک سوکھا ساکھا سا نان و نفقہ اپنے اور اپنے بچوں کے پیٹ میں ڈال سکتے ہیں۔ ارد گرد کیا نعمتیں  نہیں ہیں، ایک خوان لغما بچھا ہوا ہے لیکن یہ حقوق العباد؟ بلکہ حقوق العباد کی ممانعتوں سے گزر کر ہم حقوق اللہ کے لیے وقت ہی نہیں نکال پاتے۔اب اگر ہمیں پتہ لگ جائے کہ حقوق العباد ’’منسوخ‘‘ ہو چکے ہیں اور ایسا اس لیے لگ رہا ہے کہ ملک بھر میں صرف عبادات ہی عبادات ہیں، معاملات کو دین سے خارج کر دیا گیا ہے۔

آپ سے خصوصی طور پر اس لیے پوچھنا چاہتے کہ آپ  صاحبان علم وعرفان ہیں، کیونکہ ایک صاحب علم ، ان کی تقاریر میں صرف اور صرف عبادات ہی عبادات کا ذکر سننے کو ملتا ہے، حقوق العباد کا کوئی ایک خانہ نہیں ملتا بلکہ یہ بھی سہولت موجود ہے کہ اگرحقوق اللہ یعنی معاملات میں انسان کیسا بھی ہو، وہ چند روز ایک خاص طریقہ عبادت میں لگاکر تمام حقوق العباد سے مکت ہو جاتا ہے بلکہ آیندہ کے لیے بھی اسے حقوق العباد سے استشنیٰ مل جاتا ہے حالانکہ ہمارے آدھے آدھورے علم میں تو یہ بات ہے کہ حقوق العباد کو خود اللہ بھی معافی یا استشنیٰ نہیں دیگا، دے تو سکتا ہے لیکن اس نے صاف صاف کہا ہے کہ نہیں دوں گا البتہ اپنے حقوق بخش سکتا ہوں اور اب جید اور نابغہ علمائے دین ومشائخ کو بتانے کی تو ضرورت ہی نہیں کہ حقوق العباد کا دائرہ کہاں کہاں تک ہے۔

یہاں تک کہ اگر جسم و لباس کتنا ہی صاف کیوں نہ ہو ،اگر اس کے اندر کا جسم پاک نہ ہو تو نماز کیسے نماز ہو سکتی ہے، جب پورا جسم رگ وپے خون وگوشت وپوشت بلکہ اس کے اوپر کا صاف و شفاف لباس تک انسانوں کے خون میں لتھڑا ہوا ہو

کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔