حکومتی کارکردگی بہتری کی طرف گامزن مگر رفتار بڑھانا ہوگی

رضوان آصف  بدھ 30 جنوری 2019
اگر چھوٹے میاں یہ تمام یقین دہانیاں کروانے میں کامیاب ہو گئے تو انہیں ملکی سیاست میں کچھ جگہ بھی دے دی جائے گی۔ فوٹو: فائل

اگر چھوٹے میاں یہ تمام یقین دہانیاں کروانے میں کامیاب ہو گئے تو انہیں ملکی سیاست میں کچھ جگہ بھی دے دی جائے گی۔ فوٹو: فائل

 لاہور:   مسلم لیگ (ن)اور پیپلزپارٹی کی مشکلات میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ’’فیصلہ ساز طاقتوں‘‘ نے حتمی طور پر یہ طے کر دیا ہے کہ پاکستان کی سیاست میں میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔

شہباز شریف کے نام پ ’’کراس‘‘ نہیں لگایا گیا البتہ سوالیہ نشان ضرور لگایا گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ میاں شہباز شریف کو اپنے ’’قول‘‘ اور ’’فعل‘‘ کے ساتھ یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ اپنے بڑے بھائی کی طرح نہ تو خود کو’’حقیقی‘‘ حکمران سمجھنے کی غلطی کریں گے اور نہ ہی وہ داخلہ امور اور خارجہ پالیسی میں تن تنہا فیصلے کرنے کی “گستاخی” کریں گے۔

اگر چھوٹے میاں یہ تمام یقین دہانیاں کروانے میں کامیاب ہو گئے تو انہیں ملکی سیاست میں کچھ جگہ بھی دے دی جائے گی اور شاید کبھی ان کے اقتدار کی باری بھی آہی جائے کیونکہ ’’قوتوں‘‘ کو عمران خان کا مدمقابل بھی چاہئے وہ کپتان کو کھلا میدان نہیں دے سکتے جبکہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ کپتان ’’ناقابل کنٹرول‘‘ فرد ہے لہٰذا کپتان کو ڈرائے رکھنے کیلئے شہباز اور بلاول کا’’بھاؤ‘‘ رکھنا پڑے گا۔ بلاول بھٹو کی سیاسی ساکھ اور مستقبل نہ صرف شریف برادران بلکہ اپنے والد گرامی سے زیادہ روشن ہے کیونکہ بلاول پر ایسا کوئی الزام نہیں ہے کہ اس نے بذات خود کبھی کوئی کرپشن کی ہے۔

بلاول ایک اعلی تعلیم یافتہ نوجوان ہے اور بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے والد کی زیر نگرانی چلنے والی سندھ حکومت کے انداز حکمرانی اور پیپلز پارٹی کے طرز سیاست سے مطمئن نہیں ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد سے ابتک پیپلز پارٹی جس بدترین زوال کا شکار ہے وہ ایک قومی سیاسی المیہ ہے۔ پنجاب میں پیپلز پارٹی کا تقریباً صفایا ہو چکا ہے جبکہ سندھ میں بھی لوگ نکمی حکومت سے تنگ ہیں۔ایسے میں بلاول بھٹو زرداری ہی جیالوں کیلئے آخری امید ہیں۔ بلاول کو اپنے والد صاحب اور اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے فری ہینڈ مل جائے تو وہ پیپلز پارٹی کو حالت نزع سے نکال سکتے ہیں۔

تحریک انصاف کی حکومت ابتدائی چھ ماہ کی مشکلات اور سخت تنقید سے باہر نکلتی دکھائی دے رہی ہے۔ عمران خان کے دوست ممالک کے دوروں کے نتیجہ میں ملکی معیشت سنبھلنا شروع ہوئی ہے اور اس میں استحکام آ رہا ہے۔ حکومت کی جانب سے پیش کردہ منی بجٹ کو عوام، سرمایہ کاروں اور تاجروں نے پسند کیا ہے گو کہ اس میں کئی اعلانات ایسے ہیں جن پر عملدرآمد نئے مالی سال یعنی 5 ماہ بعد ہوگا لیکن مجموعی طور پر حکومت کو منی بجٹ سے سیاسی فائدہ ہوا ہے اور مسلسل جاری منفی تاثر رک گیا ہے۔کئی ماہ سے معاشی بحران کا ذمہ دار ٹھہرائے جانے والے اسد عمر کو بھی ریلیف ملا ہے۔

عمران خان کی سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ ان کی نیت ٹھیک ہے وہ کرپشن فری انسان ہیں لیکن ان کے پاس اچھی ٹیم نہیں ہے۔ وفاق اور پنجاب کے 2 تہائی وزراء ہر طرح سے “فارغ” ہیں۔ ان کو نہ تو اپنے ماتحت محکموں میں دلچسپی ہے اور نہ ہی وہ کوئی غیر معمولی تو کیا معمولی سی کارکردگی دکھانے کے لئے پر عزم دکھائی دیتے ہیں۔ ان میں سے بعض کیلئے جھنڈے والی گاڑی، محکمہ کا ریسٹ ہاوس اور بعض “خواہشات”کی تکمیل کرنے والے ماتحت ہی کافی ہیں۔ پنجاب حکومت کا سب سے بڑا مسئلہ تو خود وزیر اعلی پنجاب ہیں جو آج بھی ایک خول میں بند ہیں، تمام تر غیر جانبداری کے ساتھ بھی ان کی ابتک کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تونتیجہ “صفر” ہی نکلتا ہے۔

پنجاب کی بیوروکریسی بھی پریشان ہے کہ ایسے کام کب تک چلے گا۔ عمران خان کو سمجھ نہیں آرہی کہ کرکٹ ٹیم میں وسیم اکرم بنانا مختلف چیز ہے لیکن ملک کے سب سے بڑے صوبے کیلئے وسیم اکرم پلس قسم کا وزیر اعلی بنانا بالکل مختلف معاملہ ہے۔ سردار عثمان بزدار کا کرپشن فری ہونا ان کی ذاتی خوبی ہے لیکن ان کا ایک ناکام چیف ایگزیکٹو ہونا ملک و قوم کی ناکامی ہے۔کپتان گزشتہ 6 ماہ سے سردار عثمان کیلئے جتنی لابنگ اور امیج بلڈنگ کی کوشش کر رہے ہیں اتنی تو انہوں نے کبھی اپنے لئے بھی نہیں کی لیکن کپتان بھول رہے ہیں کہ صرف سردار عثمان بزدار کی ایمانداری اور عاجزی کو بیان کرنا بھی عثمان بزدار کیلئے منفی ثابت ہو رہا ہے کیونکہ یہ تاثر مضبوط ہو رہا ہے کہ 6 ماہ کے دوران وزیر اعلی پنجاب کے کریڈٹ پر ایک بھی ایسا کام نہیں ہے۔

جسے عمران خان میڈیا اور قوم کے سامنے پیش کر کے کہہ سکیں کہ دیکھیں میرے وزیر اعلی نے یہ کمال دکھایا ہے۔اسلام آباد کے طاقتور حلقوں میں وزیر اعلی پنجاب کے مستقبل کے حوالے سے چہ مگوئیاں بڑھ رہی ہیں اور خان چاہے اپنی تقاریر میں سردار عثمان کے بارے جو بھی کہیں لیکن اسلام آباد کے باخبر حلقے سمجھتے ہیں کہ دھواں وہیں سے اٹھتا ہے جہاں چنگاریاں سلگ رہی ہوتی ہیں۔ اب کس وقت ہوا کا تیز جھونکا ان چنگاریوں کو آتش بنا دے یہ کس کو خبر۔

سینئر وزیر پنجاب عبدالعلیم خان نے گزشتہ دنوں بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے بلدیات کے وزراء کو لاہور مدعو کر کے نئے بلدیاتی نظام کے حوالے سے جو مشاورت کی ہے وہ قابل تحسین ہے، صوبوں کے درمیان حکومتی سطح پر اس طرح کا بامعنی اور مخلص تعاون جاری رہنا چاہئے۔اس مشاورت کے نتیجہ میں نئے بلدیاتی نظام کے حوالے سے کئی نئی عمدہ تجاویز بھی سامنے آئی ہیں۔ عبدالعلیم خان اس وقت پنجاب کے سب سے متحرک وزیر ہیں جنہوں نے نئے بلدیاتی نظام کی تیاری کے حوالے سے بہت شاندار کام کیا ہے جبکہ لاہور سمیت دیگر بڑے شہروں میں صفائی کی صورتحال کو نمایاں انداز میں بہتر کرنے کیلئے بھی علیم خان کی کاوشیں رنگ لا رہی ہیں۔

پنجاب میں عمران خان کے اعلان کردہ سستے گھروں کی تعمیر کے منصوبہ میں پیش رفت ہوئی ہے۔ پنجاب کے وزیر ہاوسنگ میاں محمود الرشید نے منصوبے کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پہلے مرحلہ میں رینالہ خورد،چشتیاں اور لودھراں میں6 ہزار سستے گھر بنائیں گے، 3 مرلہ گراونڈ فلور کی قیمت 17 لاکھ50 ہزار روپے، فرسٹ فلور کی 16 لاکھ 50 ہزار روپے ہو گی جبکہ 5 مرلہ گراونڈ فلور کی قیمت 23 لاکھ روپے اور فرسٹ فلور کی قیمت 21 لاکھ روپے ہو گی۔ شفاف قرعہ اندازی کے ذریعے منتخب ہونے والے افراد کو ڈیڑھ برس میں گھر کا قبضہ دے دیا جائے گا۔

دوسرا مرحلہ فروری میں شروع کیا جائے گا اور لیہ، چنیوٹ، سیالکوٹ اور فیصل آباد میں 20 ہزار گھروں کیلئے درخواستیں طلب کی جائیں گی۔ دیہی علاقوں میں پائلٹ پراجیکٹ کے طور پر فی گاوں 50 گھروں کی تعمیر کا بھی ارادہ ہے۔ میاں محمود الرشید کا شمار پنجاب کابینہ کے ان چند وزراء میں ہوتا ہے جو عملی طور پر اپنی وزارتوں میں محنت کر رہے ہیں ورنہ دو تہائی وزراء تو’’درشنی پہلوان‘‘ ہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔