تجاوزات کے خلاف آپریشن، سپریم کورٹ کے حکم پر عملدرآمد میں مشکلات

جی ایم جمالی  بدھ 30 جنوری 2019
کراچی میں تجاوزات اور غیر قانونی تعمیرات اس شہر کا سب سے بڑا مسئلہ ہیں۔ فوٹو: فائل

کراچی میں تجاوزات اور غیر قانونی تعمیرات اس شہر کا سب سے بڑا مسئلہ ہیں۔ فوٹو: فائل

 کراچی:  سپریم کورٹ آف پاکستان نے سندھ کے دارالحکومت کراچی کو 40 سال پہلے والے ماسٹر پلان کے مطابق بحال کرنے کا حکم دیا ہے لیکن وزیر بلدیات سندھ سعید غنی اور میئر کراچی وسیم اختر نے اس حکم پر عمل درآمد کو مشکل قرار دیا ہے اور واضح کیا ہے کہ وہ لوگوں کو بے گھر نہیں کر سکتے۔ یہ معاملہ ایک بحران کو جنم دے سکتا ہے۔

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان نے اپنے رکن سندھ اسمبلی محمد وجاہت کے انتقال سے خالی ہونے والی سندھ اسمبلی کی نشست پی ایس 94 کراچی کے ضمنی انتخابات جیت لیے ہیں۔ سندھ اسمبلی نے کراچی میں پولیس اہل کار کی گولی سے زخمی ہونے اور اسپتال میں بروقت علاج نہ ملنے سے ہلاک ہونے والی معصوم بچی امل عمر سے منسوب ایک قانون منظور کرلیا ہے، جس کے تحت تمام سرکاری اور نجی اسپتالوں کو پابند کردیا ہے کہ وہ زخمی کا لازمی علاج کریں۔ علاج کے لیے فوری طور پر پیسے بھی طلب نہیں کیے جائیں گے۔

کراچی میں تجاوزات اور غیر قانونی تعمیرات اس شہر کا سب سے بڑا مسئلہ ہیں۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے عدالتوں نے بھی کئی بار احکامات جاری کیے اور حکومتوں نے بھی اپنے طور پر اقدامات کیے لیکن شہر میں تجاوزات اور غیر قانونی تعمیرات میں اضافہ ہوتا گیا۔ گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے کراچی میں تجاوزات سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ خاص طور پر کنٹونمنٹ بورڈز میں عسکری اداروں کی جانب سے کمرشل تعمیرات سمیت شہر قائد میں تجاوزات سے متعلق سماعت ہوئی۔ سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ فوجی زمینوں پر کمرشل سرگرمیاں ختم کی جائیں۔ کم از کم 500 عمارتیں گرانا ہوں گی۔

عدالت نے یہ بھی حکم دیا کہ سندھ حکومت کراچی کو اصل پلان کے تحت بحال کرے۔ کارساز، شارع فیصل، راشد منہاس روڈ پر شادی ہالوں سمیت کنٹونمنٹ ایریاز میں تمام سینما، کمرشل پلازے اور مارکیٹیں گرادی جائیں۔ اس پر سندھ کے وزیر بلدیات سعید غنی کا کہنا ہے کہ عدالت کے احکامات پر عمل درآمد کسی صورت ہمارے لیے ممکن نہیں۔ عدلیہ کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔ کسی پلاٹ کو قانون کے تحت کمرشلائزڈ کرنے کے 10 یا 15 سال بعد عدلیہ یہ احکامات دے کہ اسے توڑ دو اور وہاں رہنے والے ہزاروں افراد کو بے گھر کردو یا متبادل رہائش دو تو یہ ممکن نہیں۔ سعید غنی کا کہنا ہے کہ میں وزارت سے استعفیٰ دے دوں گا لیکن لاکھوں لوگوں کو بے گھر نہیں کروں گا۔ سندھ حکومت عدالت کے اس فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی اپیل دائر کرے گی۔ میئر کراچی وسیم اختر نے بھی ایسے ہی جذبات کا اظہار کیا ہے۔

غیرقانونی تعمیرات اور تجاوزات ختم کرنے کے سپریم کورٹ کے حالیہ حکم سے پہلے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں بھی بینچ نے تجاوزات کے خاتمے کا حکم دیا تھا۔ اس حکم پر بڑے پیمانے پر عمل درآمد ہوا۔ دکانیں اور گھر مسمار ہونے سے ہزاروں افراد بے روزگار اور بے گھر ہوئے۔ اگرچہ اس حکم پر بھی پوری طرح عمل درآمد نہیں ہوا۔ اب نئے احکامات سے تجاوزات کے خلاف سارا عمل رک سکتا ہے۔ پہلے بھی عدالتوں نے تجاوزات کے خلاف آپریشن کے کئی احکامات جاری کیے لیکن کسی پر بھی مکمل عمل نہیں ہوا۔

2011ء میں بھی سابق ناظم کراچی نعمت اللہ خان کی درخواست پر عدالت نے پارکس اور کھیل کے میدانوں سمیت کراچی میں ہر جگہ تجاوزات ختم کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس پر بھی مکمل عمل درآمد نہیں ہوا۔ کراچی میں آبادی کا بہت بڑا دباؤ ہے۔ تجاوزات اور غیر قانونی تعمیرات کو گرانا بہت پیچیدہ عمل ہے، جس میں انسانی اور سیاسی پہلوؤں کو بھی سامنے رکھنا پڑتا ہے۔ سپریم کورٹ کے تمام احکامات پر عمل درآمد کے لیے ایک بڑے کمیشن کی تشکیل کی ضرورت ہے اور آئندہ کے لیے کراچی کو تجاوزات اور غیر قانونی تعمیرات سے بچانے کے لیے اس شہر کی تمام سیاسی قوتوں اور اسٹیک ہولڈرز کو مل بیٹھ کر حکمت عملے طے کرنا ہوگی۔

پی ایس 94 کراچی کے ضمنی انتخابات میں ایم کیو ایم کے ہاشم رضا 21728 ووٹ لے کر کامیاب ہو گئے جبکہ ان کے مدمقابل پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار اشرف جبار قریشی نے9223 ووٹ حاصل کیے۔ ان ضمنی انتخابات میں اندازے یہ لگائے جا رہے تھے کہ ایم کیو ایم اپنی یہ نشست ہار جائے گی کیونکہ ایم کیو ایم اندرونی اختلافات کا شکار ہے اور یہ نشست تحریک انصاف جیت جائے گی کیونکہ تحریک انصاف نہ صرف حکومت میں ہے بلکہ کراچی کے لیے بہت کچھ کرنے کا دعویٰ بھی کر رہی ہے لیکن یہ اندازے غلط ثابت ہوئے۔ اس سے کراچی کی مستقبل کی سیاست کے بارے میں بھی بہت سے اشارے ملتے ہیں۔

جون 2018ء میں پولیس اہل کار کی گولی سے زخمی ہونے والی معصوم لڑکی امل عمر اس لیے جاں بحق ہوگئی تھی کہ ایک اسپتال نے قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے اس کا علاج نہیں کیا تھا۔ دوسرے اسپتال تک پہنچنے سے پہلے وہ جان کی بازی ہار گئی تھی۔ اس واقعہ نے سندھ سمیت پورے ملک کو دکھی کردیا تھا۔ سپریم کورٹ نے اس واقعے کا ازخود نوٹس بھی لیا تھا۔ لہٰذا حکومت سندھ نے زخمی افراد کے لازمی علاج کے لیے قانون سندھ اسمبلی سے منظور کرا لیا ہے اور اسے ’’امل عمر ایکٹ‘‘ کا نام دیا گیا ہے جو اسپتال زخمی کا علاج نہیں کرے گا یا جو پولیس افسر علاج میں رکاوٹ پیدا کرے گا، اسے قید وجرمانہ کی سزا ہوگی۔ سندھ حکومت نے اس حوالے سے دوسرے صوبوں پر سبقت حاصل کر لی ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔