نیو برانڈ ورلڈ

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  جمعرات 31 جنوری 2019
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

مجھے بچپن ہی سے سائن بورڈ پڑھنے کا شوق تھا، میں جہاں بھی جاتا سڑکوں کے کنارے اور عمارتوں پر لگے سائن بورڈ مجھے بیحد پرکشش دکھائی دیتے۔کراچی شہر میں گولیمار بس اسٹاپ کے قریب ایک بڑا سا الیکٹرک سائن بورڈ لگا ہوا تھا جو رات کے وقت روشن ہوکر عجیب جادوئی منظر پیش کرتا تھا۔ اس منظر میں ایک ہاتھ سے سکہ گرتے ہوئے نظر آتا تھا جو نیچے ایک تھیلی میں جا کرگرتا تھا، میں حیرت سے اسکو دیکھتا اور سوچتا تھا کہ بار بار ایک سکہ اس تھیلی میں گر رہا ہے، یہ اتنے سارے سکے کہاں جاتے ہونگے؟ یہ سوال میری چھوٹی سی عقل میں گھومتا رہتا تھا پھر جب بڑے ہوگئے تو اس کا راز بھی جانا لیکن بڑے ہونے کے بعد ایک سوال پھر کسی اور طریقے سے ان سائن بورڈ کو دیکھ کر ذہن میں آیا۔ اب سوال یہ تھا کہ یہ سائن بورڈ جن کو اب بل بورڈ بھی کہا جانے لگا ہے۔

ان پر اتنا خرچہ کیوں کیا جاتا ہے؟ شہر میں بجلی کی کمی ہو، لوڈ شیڈنگ زندگی عذاب بنا دے مگر پھر بھی رات کو یہ بل بورڈ خوب چمکتے دکھائی دیتے ہیں اور بعض توکسی ایل ای ڈی ٹی وی کی طرح اشتہار بھی پیش کر رہے ہوتے ہیں۔ کون ان پر اس قدر پیسہ خرچ کرتا ہے اورکیوں؟ اس کا جواب راقم کو چند روزقبل ملا جب Naomi Klein, کا ایک مضمون No Logo: Taking Aim at  the Brand Bullies, پڑھنے کا اتفاق ہوا ۔

مصنف نے اس میں لکھا کہ آج کی انتہائی مشہور مصنوعات بنانیوالی کمپنیاں مصنوعات تیار نہیںکر رہی بلکہ اس کی تشہیر میں مصروف عمل ہیں یعنی بجائے مصنوعات کے برانڈ پرکام کیا جا رہا ہے، یہ کمپنیاں مکمل طور پر مختلف طریقے کار استعمال کرکے اور چیزوں کو نئے نئے طریقوں کے ذریعے تشہیرکرکے اپنے مال کے نام برانڈ کوبہتربنانے میں لگی ہوئی ہیں ۔ ایک اور اہم بات جو بڑی اہم ہے مگر لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس جانب دھیان نہیں رکھتی۔ اس کا کہنا ہے کہ بحیثیت عام آدمی میں نے اب تک اشتہاری بورڈز میں لوگوں کے لیے کوئی بہتری نہیں دیکھی۔ ہر منظرہی خوش کرتا ہے،آدمی جب کسی بل بورڈ کے سامنے کھڑا ہوتا ہے، اپنے آپ کوحقیرسمجھتا ہے۔ یہ جملہ پڑھ کر میں شدید حیرت میں مبتلا تھا کیونکہ میرے ایک ساتھی نے ایک روز چائے پیتے ہوئے اپنی پریشانی کاذکرکیا کہ وہ جب بھی اپنی بیگم کو کہیں لے کر جاتا ہے،ان کی بیگم کسی نہ کسی اشتہاری بورڈ کو دیکھ کرکہتی ہیں، ’’سنیے فلاں برانڈ کے کپڑوں پر 50فیصد سیل لگی ہے۔

کل آفس سے جلدی آجائیں، چل کے دیکھتے ہیں، سنیے یہاں بغیر ایڈوانس کے ایل ای ڈی قسطوں پر مل رہی ہے ،کیا خیال ہے قسطوں پر نہ لے لیں؟‘ مصنف کا مضمون پڑھ کر اب زیادہ اندازہ ہو رہا تھا کہ واقعی یہ برانڈ اور ان کے یہ بل بورڈ ہماری زندگیوں کو کس قدر مشکل اور مصیبت سے دو چارکردیتے ہیں، ہمیں احساس کمتری کا شکارکردیتے ہیں اور ہم اپنے آپکو بڑا بنانے کے لیے دوڑ تے رہتے ہیں جب کہ ملٹی نیشل کارپوریشن ہماری اس انسانی کمزوری سے فائدہ اٹھا تے رہتے ہیں ۔Naomi Klein اپنے مضمون میں لکھتا ہے کہ ملٹی نیشنل کار پوریشن کی دن دگنی رات چوگنی ترقی اور اس کے نتیجے میں معاشرے پر ان کے اثرات پچھلے پندرہ برسوں سے بہت زیادہ ہوئے ہیں جب سے انھوں نے یہ نظریہ اپنایا ہے کہ کارپوریشن سب سے پہلے برانڈ بناتی ہے۔

80ء کی دہائی میں جو کساد بازاری آئی اور دنیا کے بہت زیادہ طاقتور مصنوعات بنانے والے بھی ناکامی کا شکار ہوئے تو ایک سوچ یہ بھی ابھری کہ کاروبار کرنے کا یہ اندازجس میں تنہا کاروبارکرنا، ہزاروں ملازمین مستقل نوکریوں پر رکھنا ، مصنوعات بنانے والے کے لیے ایسا سفر شروع کرتا ہے جو منافعے کے بجائے سوائے ذمے داریوں کے اورکچھ نہیں چنانچہ پھر انفرادی کاروبارکے بجائے کارپوریٹ سطح کا کاروباری انداز اختیارکیا جانے لگا اور یہ رحجان بھی بعد میں سامنے آیا کہ ایسی کمپنیاں بنائی جائیں جن میں کام کرنیوالے ملازمین کم ہوں اور انتہائی طاقتور برانڈ ہو جوکہ باقی مصنوعات کے مقابلے میں بہتر دکھائی دے چنانچہ اب یہ تصور حقیقت بن چکا ہے کہ اشتہار میں خرچہ کرنا سیل کی کامیاب حکمت عملی سے کہیں زیادہ کامیاب ہے۔

جتنا زیادہ خرچہ کرینگے اتنا ہی کمپنی کی اہمیت میں اضافہ ہوگا۔ مصنف کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس میں کوئی حیرت کی بات نہیںکہ اس کے بعد اشتہارات کی دنیامیں کافی زیادہ پیسے کا اضافہ نظرآرہا ہے۔یوں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ برانڈ اور اشتہارات نے عوام کی زندگیوں پر وہ اثرات مرتب کردیے ہیں کہ لوگ اب بے چین رہتے ہیں کہ وہ فلاں فلاں برانڈ کی اشیاء حاصل کریں تاکہ ان کا معیار زندگی بھی بلند لگے۔ لوگوں میں یہ بے چینی بلاسبب نہیں ہے یہ اس ماحول کے سبب ہے کہ جس میں مارکیٹنگ کی حکمت عملیاں، برانڈڈ اشیاء اور ان کے اشتہارات لوگوں کا دن رات پیچھا کر رہے ہوتے ہیں مثلاً آج لوگوں کے ذہنوں میں کسی سپر مارکیٹ سے خریداری کرنا بھی ایک بڑے وقارکا کام محسوس ہوتا ہے چنانچہ وہ کوشش کرتے ہیں کہ جوبھی خریداری کرنی ہو وہ یہاں سے کریں۔

جب وہ ان بڑے بڑے سپر اسٹور یا مارکیٹ میں داخل ہوتے ہیں تو پہلی نظر ان کی بڑے بڑے برانڈ پر پڑتی ہے۔ خوبصورت ماحول اور اشتہارات کی چکا چوند ان کو متاثرکرتی ہے۔ اب یہاں ان کی انسانی نفسیات سے پورا پورا فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ آنیوالے لوگوں کو فوراً ہی باسکٹ کی سہولت فراہم کردی جاتی ہے جس میں گود کے بچے کو بیٹھانے کی سہولت بھی ہوتی ہے، مقصد یہ ہوتا ہے کہ آپکو سہولت ملے اور آپ زیادہ سے زیادہ خریداری کریں یعنی بڑی باسکٹ میں صرف ایک دو آئٹم ڈالیں گے تو شرم آئیگی آپ خود سے ہی کوشش کرینگے کہ دو چار زائد ہی اشیاء خرید لی جائیں، اسی طرح ان اسٹورز میں بچوں کی اشیاء مثلاً بسکٹ ، چاکلیٹ وغیرہ نیچے کے حصوں میں رکھی جاتی ہیں تاکہ بچوںکے ہاتھ آسانی سے پہنچ جائیں اور وہ بڑوں کی اجازت سے پہلے خود ہی اپنے ہاتھوںسے زیادہ سے زیادہ چیزیں اٹھا کر باسکٹ میں ڈال لیں اور بڑے منع کرتے ہوئے شرمائیں۔

ضرورت کی لازمی اشیاء مثلاً پتی، چینی وغیرہ اندر کی طرف رکھی جاتی ہیں اور جو اشیاء لوگوں کی لازمی ضرورت نہ ہوں وہ سجا کر سامنے رکھی جاتی ہیں تاکہ جب تک آ پ اپنی ضرورت کی اشیاء لینے اندر پہنچیں، کئی غیر ضروری اشیاء خود بخود خرید لیں۔ اسی طرح تمام سپر اسٹورز میں اندر آنے کا راستہ الگ اورجانے کا دوسری جانب ہوتا ہے تاکہ جب لوگ اندر آجائیں تو باہر جاتے جاتے قریب قریب تمام ہی اشیاء ان کی نظروں کے آگے سے گزریں، اس طرح تو آنیوالا وہ اشیاء بھی خرید لے گا جس کو خریدنے کا ارادہ ہی نہیں ہوگا۔ اسی طرح ان اسٹورز میں کہیں بیٹھنے کے لیے کوئی کرسی وغیرہ نہیں ہوگی تاکہ آپ بیٹھ کر وہاں وقت نہ گزار سکیں، جتنا وقت بھی وہاں رہیں بس خریداری کرتے رہیں۔

ہاں کھانے کے لیے ریسٹورانٹ کی طرز پر سہولت ہوگی صرف وہاں آپ بیٹھ سکتے ہیں مگر اس کی بھی آپ قیمت ادا کر رہے ہونگے یعنی کھانا کھانے کی قیمت! گھڑی بھی ان بڑے اسٹورز میں نظر نہیں آتی تاکہ یہاں آنیوالا بے فکر ہوکر خریدار ی ہی کرتا رہے۔ کہنے کو یہ سب معمولی سے باتیں معلوم ہوں گی لیکن غورکریں تو ان کے اثرات ہماری نجی زندگیوں میں بھی مسائل کھڑا کر رہے ہیں۔ آیے ! ایک لمحے کو غور کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔