کیپ اٹ اپ …پاکستان کرکٹ ٹیم

ایاز خان  پير 22 جولائی 2013
ayazkhan@express.com.pk

[email protected]

دورہ ویسٹ انڈیز کا آغاز شاہد آفریدی کے نام رہا۔ بُوم بُوم نے دوبارہ موقع ملنے کے بعد پہلے میچ میں 76شاندار رنز بنانے کے بعد وسٹ انڈیز کی 7 وکٹیں بھی لے لیں۔ مصباح الحق اور کسی حد تک عمر اکمل نے اپنی موجودگی کا احساس ضرور دلایا مگر میلہ آفریدی نے لوٹا۔ پاکستان نے پہلے ون ڈے میں ویسٹ انڈیز کو بیٹنگ، بولنگ اور فیلڈنگ تینوں شعبوں میں آؤٹ کلاس کر دیا۔ بڑے مارجن سے پہلا میچ جیتنے کے بعد پاکستانی کھلاڑیوں کا اعتماد آسمان کو چھو رہا تھا۔ دوسرے ون ڈے میں بھی ان سے اچھی کارکردگی کی توقع تھی مگر کپتان کے غلط فیصلے نے ویسٹ انڈیز کوسیریز میں واپس آنے کا موقع دے دیا۔

مصباح الحق کو پچ میں کہیں نمی نظر آ گئی اور انھوں نے ویسٹ انڈیز کو ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کی دعوت دے ڈالی۔ ویسٹ انڈیز کا اسکور جب 200 سے اوپر گیا تو ہمارے بیٹسمینوں کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ شاہد آفریدی اپنے کوٹے کی بیٹنگ چونکہ پہلے میچ میں ہی کر چکے تھے اس لیے انھوں نے وکٹ پر زیادہ دیر ٹھہرنا مناسب نہ سمجھا اور محض 5 رنز بنا کر چلتے بنے، البتہ 2 وکٹیں لے کر انھوں نے اپنی بولنگ کا جادو جگا دیا۔ عمر اکمل نے ففٹی اسکور کی اور اب تک ان کی وکٹ کیپنگ بھی اچھی جا رہی ہے۔ کامران اکمل سے کہیں بہتر۔ دوسرا میچ پاکستان ہار گیا اور ویسٹ انڈیز سیریز برابر کرنے میں کامیاب ہو گیا۔

تیسرے ون ڈے میں براوو نے مصباح والی غلطی کی اور ٹاس جیت کر پاکستان کو پہلی باری دے دی۔ کپتان کے 75، عمر اکمل 40 اور حارث سہیل کے ڈیبیو پر 26 پراعتماد رنز کی بدولت پاکستان نے 229 کا فائٹنگ ٹوٹل حاصل کر لیا۔ میچ ختم ہونے سے چار اوور پہلے تک جیت یقینی لگ رہی تھی لیکن ویسٹ انڈین ٹیل اینڈرز نے امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ سنیل نرائن، سعید اجمل کے اوور میں 18 رنز بنا کر ٹیم کو میچ میں واپس لے آئے۔ آخری اوور شروع ہوا تو ویسٹ انڈیز کو جیت کے لیے 15 رنز درکار تھے۔

ابھی چند دن پہلے تین ملکی ون ڈے سیریز کے فائنل میں سری لنکا کے خلاف بھارت کو اتنے ہی رنز درکار تھے تو ان کے کپتان دھونی نے وہ کر لیے تھے اور بھارت فائنل جیت گیا تھا۔ میں دھونی کی وہ اننگز دیکھ کر خاصا متاثر ہوا تھا۔ اس لیے نہیں کہ 15 رنز کا حصول ناممکن تھا، اس کی وجہ یہ تھی کہ دھونی پوری طرح فٹ نہیں تھے اور پھر بھی انھوں نے انتہائی اعتماد سے ہدف حاصل کر لیا۔ ویسٹ انڈیز کے خلاف تیسرے میچ میں کپتان نے وہاب ریاض کو آخری اوور کرنے کے لیے بلایا تو کمنٹیٹر رمیض راجہ باکس میں تقریباً چیخ پڑے۔

ان کا خیال تھا کہ وہ اوور عبدالحفیظ سے کرانا چاہیے تھا۔ رمیض کا خدشہ درست ثابت ہوا، گیارہویں نمبر کے ٹیل اینڈر جیسن ہولڈر نے ایک چھکا اور ایک چوکا لگایا اور جب آخری گیند پر عمر اکمل اپنی ناتجربہ کاری کے باعث تھرو نہ روک سکے تو ہولڈر دوسرے رنز کے لیے کریز پر پہنچ چکے تھے اور پاکستان جیتا ہوا میچ ٹائی کرانے میں ’’کامیاب‘‘ ہو چکا تھا۔ کہاں سیریز میں دو ایک سے برتری ملنی تھی اور کہاں تیسرا میچ ختم ہونے کے بعد سیریز ایک ایک سے برابر تھی۔ مصباح الحق نے تیسرے میچ میں بھی ویسٹ انڈیز کو پہلے کھلانے کی دعوت دے دی اور بارش سے متاثرہ میچ میں 49 اوورز میں پاکستان کو 260 رنز کا ٹارگٹ مل گیا۔ اس میچ پر بعد میں بات کرتے ہیں پہلے یہ دیکھ لیں کہ چار میچ ہو چکے ہیں اور ان میں ہمارے اسٹار کرکٹرز کی اب تک کی کارکردگی کیسی رہی ہے۔

کرکٹ کے پروفیسر محمد حفیظ نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ کسی ایسی وکٹ پر اسکور نہیں کر سکتے جس میں تھوڑی سی بھی جان ہو، بولنگ ان کی البتہ مناسب ہوتی ہے۔ ان حالات میں ٹیم مینجمنٹ کو چاہیے کہ حفیظ کو اوپر والے نمبروں پر بیٹنگ کرانے کے بجاثے چھٹے، ساتویں نمبر پر کھلایا جائے۔ گیند زیادہ پرانی ہو گی تو شاید پروفیسر بہتر پرفارمنس دے سکے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ چوتھے ون ڈے میں حفیظ کی پرفارمنس زور دار رہی ہے تو اس کی وجہ بڑی آسان ہے‘ پورے ٹورنامنٹ کی یہ پہلی وکٹ تھی جس میں بولرز کے لیے جان نہیں تھی۔

وکٹ سیدھا کھیلی تو حفیظ بھی ففٹی کر گئے۔ شاہد آفریدی سے زیادہ توقعات وابستہ کرنے کا نقصان ہو گا۔ یہ بات اب مان لینی چاہیے کہ بُوم بُوم بولنگ آل راؤنڈر ہے۔ یعنی بولنگ میں وہ اکثر اچھی پرفارمنس دے گا اور کسی ایک آدھ میچ میں گیند بیٹ پر آتی رہی تو ففٹی شفٹی کر لے گا۔ حارث سہیل کا مستقبل شاندار لگ رہا ہے‘ اس نوجوان کو اعتماد دینے کے لیے پورا چانس دینے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اس وقت ایک جینوئن آل راؤنڈر کی ضرورت ہے جو کاٹ دار بولنگ کے ساتھ ساتھ قابل اعتماد بیٹسمین بھی ہو۔

ایسا آل راؤنڈر جو کریز پر آئے اور میچ کا نقشہ بدل دے۔ بولرز میں محمد عرفان کی فٹنس مجھے حیران کر رہی ہے۔ اس کی پرفارمنس بھی شاندار ہے۔ محمد جنید کی کارکردگی بھی ٹھیک ہے۔ وہاب ریاض کو اپنی فیلڈ کے مطابق بولنگ کرنے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ اسد علی بولر ٹھیک ہے مگر اس کے پاس اسپیڈ نہیں ہے۔ عمر اکمل کو اب ٹیم میں رکھ کر اعتماد دینے کی ضرورت ہے۔ تھوڑے سے تجربے کے ساتھ وہ مستند وکٹ کیپر بھی بن جائے گا۔ بیٹنگ اس کی پہلے ہی شاندار ہے۔ ماضی میں جو غلطیاں اس نے کیں وہ اب بھلا دینی چاہئیں۔ اس کی مخالفت محض اس وجہ سے بھی نہیں ہونی چاہیے کہ وہ کامران اکمل کا بھائی ہے۔ کامران کے کیریر کا شاید دی اینڈ ہو چکا ہے۔ مصباح کی کپتانی پر بعض جگہ سوالیہ نشان لگ جاتے ہیں۔ بیٹنگ میں پاکستان کی وہ واحد مضبوط دیوار ہے جسے گرانا مخالفین کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے۔

چوتھے میچ میں چونکہ بارش کی وجہ سے میچ میں بار بار رکاوٹ پیش ہونے کی پیش گوئی تھی اس لیے مصباح نے ٹاس جیت کر ویسٹ انڈیز کو پہلے بیٹنگ کی دعوت دے کر درست فیصلہ کیا۔ انھیں اپنے بولروں پر پورا بھروسہ تھا اس لیے یہ رسک لے لیا۔ ویسٹ انڈیز کے بیٹسمین مارلن سیموئلز کی شاندار سنچری کی وجہ سے پاکستان کو 262 رنز کا ٹارگٹ دے دیا۔ پاکستان کی اننگز میں بارش نہ ہوتی تو یہ ٹارگٹ قریب قریب ناممکن ہو جاتا۔ اب پاکستان جیت گیا ہے تو ریکارڈ بکس میں پاکستان کی ایک اور کامیابی کے طور پر درج ہو چکا ہے۔ پاکستان کو اب سیریز میں دو ایک کی ناقابل شکست برتری مل چکی ہے۔ ویسٹ انڈیز کل کے آخری میچ میں جیت بھی گیا تو سیریز دو دو سے برابر ہو جائے گی۔ غیرجانبداری سے دیکھا جائے تو پاکستان کی ٹیم ویسٹ انڈیز کی ٹیم سے خاصی تگڑی ہے۔ ہماری بولنگ کی ورائٹی دنیا کی کسی بھی مضبوط ترین ٹیم کا مقابلہ کرتی ہے۔ شاہد آفریدی چوتھے ون ڈے میں بھی محض سات رنز بنا سکے لیکن کرس گیل کی وکٹ لے لی۔ گیل کا زیرو پر حفیظ نے کیچ چھوڑا تو خطرہ تھا کہ وہ بڑا اسکور کر لے گا اگر ایسا ہوتا تو میچ پاکستان کی گرفت سے نکل جاتا۔ مصباح نے اپنی فارم برقرار رکھی ہوئی ہے۔ چوتھے میچ میں ان کی ناقابل شکست ففٹی نے جیت میں مرکزی کردار ادا کیا۔ ویسٹ انڈیز کی ٹیم کمزور ضرور ہے لیکن اس جیت پر اپنی ٹیم کو مبارک باد دینی چاہیے۔ گرین شرٹس وہی ہیں جنھیں اپنے ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ نہیں مل رہی۔ آخری میچ کا نتیجہ جو بھی رہے‘ ٹیم پاکستان کی کارکردگی شاندار رہی ہے۔ وہ انگریزی میں کیا کہتے ہیں‘ کیپ اٹ اپ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔