ٹریفک جام۔۔۔۔رُکی ہوئی زندگی، ٹھہرے ہوئے کام

سید بابر علی  اتوار 3 فروری 2019

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کیلئے سبسکرائب کریں

ٹریفک جام ایک ایسا عالم گیر مسئلہ ہے جس کا سامنا ترقی یافتہ اور ترقی پذیر دونوں ممالک یکساں طور پر کر رہے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں سڑکوں پر چلنے والی گاڑیوں کی تعداد اگلی دو دہائیوں میں دگنی ہوجائے گی۔ ٹریفک کے اس بہاؤ کو رواں رکھنے کے لیے ٹریفک لائٹس، روڈز اور دوسرے انفرا اسٹرکچر کی بھی ضرورت پیش آئے گی۔

ٹریفک جام نے ہماری تیزرفتار اور ماڈرن زندگی کو مرجھا کر رکھ دیا ہے، لیکن ہم اس اہم مسئلے کو فرسودہ طریقوں سے حل کرنے کی کوششوں میں جتے ہوئے ہیں۔ ہم سب ایک ہی روایتی طریقے سے سفر کرتے ہیں جس کے ہم عادی ہوچکے ہیں، یہاں تک کہ ہمارا ٹریفک مینیجمنٹ کا نظام بھی ٹریفک جام کے اس مسئلے سے نمٹنے کی جدوجہد میں لگا ہو ا ہے۔ خراب موسم، بیک وقت کئی ٹریفک لائٹس کا کام کرنا اور ان جیسے دیگر عوام گاڑیوں کی روانی میں تعطل پیدا کرتے ہیں۔ چند سال پہلے ورلڈ اکنامک فورم کی جانب سے کیے گئے ایک سروے کے اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2040 تک دنیا بھر میں چلنے والی کاروں کی تعداد دگنی ہوجائے گی، یعنی دو ارب تک پہنچ جائے گی۔ اس رپورٹ کے مطابق ٹریفک جام کا مسئلہ صرف زمین پر چلنے والی گاڑیوں کے لیے ہی نہیں بلکہ ہوا میں پرواز کرنے والے جہازوں کے لیے بھی مشکلات کا سبب بن رہا ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق 2015 تک دنیا میں چلنے والی کاروں کی تعداد ایک ارب دس کروڑ تھی، جو کہ 2025 تک بڑھ کر ڈیڑھ ارب اور 2040 تک بڑھ کر دو ارب تک پہنچ جائے گی۔ 2015 تک دنیا بھر میں چلنے والے ٹرکوں کی تعداد37کروڑ 70لاکھ تھی جو2025میں بڑھ کر50کروڑ7لاکھ اور2040 تک بڑھ کر 79 کروڑ تک پہنچ جائے گی۔ دنیا بھر میں گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے جہاں سڑکوں پر ٹریفک کے دباؤ میں اضافہ ہوا ہے تو دوسری جانب اس مسئلے کی وجہ سے دنیا بھر میں انفرا اسٹرکچر کی دیکھ بھال، نئی موٹر ویز، ذیلی سڑکوں کی تعمیر میں اربوں روپے کے اخراجات بھی ہورہے ہیں۔ جب کہ ان گاڑیوں میں جلنے والے ایندھن کی وجہ سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کی شرح میں بھی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔

ان تمام عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے دنیا بھر میں ٹریفک جام کے مسائل پر قابو پانے کے لیے کوششیں جاری ہے۔ اس حوالے سے ٹرانسپورٹ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر نئی مواصلاتی ٹیکنالوجی کو مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل ایٹیلیجنس ) عطا کردی جائے تو اس سے نہ صرف سڑکوں پر ٹریفک کے دباؤ کو کم کیا جاسکتا ہے بلکہ دنیا بھر میں گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے مسئلے سے نمٹنے میں مدد مل سکتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت ٹریفک جام کے تدارک کے لیے سب کی نظریں سیلف ڈرائیونگ وہیکلز (بنا ڈرائیور چلنے والی گاڑیاں) پر ٹکی ہوئی ہیں، اگرچہ بہت سی سیلف ڈرائیونگ گاڑیاں ٹریفک جام کے مرض میں اکسیر ہیں، کیوں کہ یہ روبوٹکس گاڑیاں انسانی ڈرائیوروں کی نسبت کسی تذبذب کا شکار ہوئے بنا تیزی سے سوچنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، لیکن اگر ہم آج سے آغاز کریں تو تب بھی ان گاڑیوں کے ہماری سڑکوں پر مثبت اثرات مرتب ہونے میں بھی کم از کم دو دہائیاں درکار ہیں۔

اس دوران شہری پلاننگ کے منصوبہ سازوں اور ہائی وے حکام کو ٹریفک جام کے حل کے لیے انسانی، نیم خود مختار اور خود مختار روبوٹکس ڈرائیورز کے پیچیدہ اشتراک سے ایک حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ ٹریفک جام کے حل میں مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلیجنس) کو استعمال کرتے ہوئے جرمنی کی ایک کمپنی Siemens Mobility  نے آزمائشی طور پر ایک مانیٹرنگ نظام تیار کیا ہے جو ٹریفک کیمروں کے ذریعے مصنوعی ذہانت استعمال کرتا ہے۔ یہ ٹریفک کیمرے خود کار طریقے سے گاڑیوں کی شناخت کرکے اس کی معلومات واپس مرکزی کنٹرول سینٹر بھیج دیتے ہیں، جہاں یہ نظام ایک الگوریتھم کی مدد سے سڑک پر ٹریفک کے دباؤ کا اندازاً لگا کر روڈ کی حقیقی صورت حال کا ادراک کرتے ہوئے ٹریفک لائٹس کے نظام میں تبدیلی کرتا ہے۔

اس سارے طریقۂ کار میں سڑک کے انفرااسٹرکچر، موبائل فونز کی مدد سے کار اور ان کے ڈرائیورز کی معلومات پر مشتمل بہت زیادہ ڈیٹا ملتا ہے۔ اس کے علاوہ سڑکوں پر موجود لاکھوں کیمروں کی قطاریں اور تارکول کے نیچے چھپے دھاتی پھندے گزرنے والی گاڑیوں سے پیدا ہونے والے معمولی کرنٹ سے ٹریفک کی صورت حال کے بارے میں مزید معلومات فراہم کرتے ہیں۔ ڈرائیور حضرات اس سسٹم کی مدد سے ٹریفک کی فوری اپ ڈیٹس بھی بھیج سکتے ہیں۔ اس میں سے کچھ مانیٹرنگ ٹیکنالوجیز ساٹھ کی دہائی سے استعمال میں ہیں، جب کہ ٹریفک کو ٹریک کرنے اور نمبر پلیٹ پڑھنے کی صلاحیت رکھنے والے کیمروں کا استعمال حال ہی میں ہوا ہے، لیکن اصل بات حاصل ہونے والی تمام معلومات کے موثر استعمال کی ہے۔

یونیورسٹی آف مشی گن کے ایسوسی ایٹ پروفیسر  Gabor Orosz کا اس بابت کہنا ہے کہ ’ہم سر آئزیک نیوٹن کے دور سے ریاضیاتی ماڈلز بنا کر دنیا کو متاثر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اگر ہمارے پاس ڈیٹا (معلومات) ہے تو پھر ہمیں چاہیے کہ ہم اس میں سے کوئی نتیجہ اخذ کرکے ٹریفک رواں رکھنے میں استعمال کریں۔‘ اس کام کے لیے ہمیں مصنوعی ذہانت درکار ہوگی، کیوںکہ آرٹیفیشل انٹیلجنس بڑی مقدار میں حاصل ہونے والی معلومات کا مشاہدہ کرنے اور اس کے ذریعے ہمارے شہروں میں ٹریفک پر قابو پانے میں مدد دے سکتی ہے۔

لندن کےThe Alan Turing انسٹی ٹیوٹ اور ٹویوٹا موبیلیٹی فاؤنڈیشن کے محققین نے حال ہی میں ایک مشترکہ پراجیکٹ کا آغاز کیا ہے، جس کے تحت ٹریفک مینیجمنٹ کے نظام کو مصنوعی ذہانت کے ذریعے زیادہ متحرک اور موثر بنانے پر کام کیا جا رہا ہے۔ ٹویوٹا موبیلیٹی فاؤنڈیشن کے ہیڈآف ریسرچ اینڈ انوویشن ویلیم شیرنکوف کا کہنا ہے کہ ہم سیمیولیشن (سیمولیشن طبعی پروسیس یا آبجیکٹ کی پروگرام کے ذریعے ایک نقل جوکمپیوٹر کے لیے حساب کتابی طریقے سے ڈیٹا کا جواب دینے اور ایسے حالات میں بدلنے کا باعث بنتا ہے) استعمال کرتے ہوئے اپنے الگوریتھم کی مدد سے ٹریفک میں تبدیلی کے دوران پیش آنے والے مسائل کی پیمائش کر رہے ہیں۔ اس وقت یہ پراجیکٹ تجرباتی مراحل میں ہے اور جلد ہی اس نظام کو حقیقی دنیا پر لاگو کردیا جائے گا۔ مشینوں کا گہرائی میں مطالعہ کرکے ہم ممکنہ ٹریفک جام کی پیش گوئی کرنے کی صلاحیت میں بہتری لاسکتے ہیں۔ اگر ہم قریب ترین پیش گوئی کرنے میں کام یاب رہے تو پھر ٹریفک سگنل کو ٹریفک کے بہاؤ کے مطابق خود کار طریقے سے کھولا اور بند کیا جاسکے گا۔

امریکی شہر پٹس برگ کی  Carnegie Mellon یونیورسٹی کے روبوٹکس انسٹی ٹیوٹ کے محققین بھی2012 سے اسی تصور پر کام کر رہے ہیں، انہوں نے ٹریفک کو کنٹرول کرنے والا مصنوعی ذہانت سے لیس ایک سسٹم ریپڈفلو ٹیک نامی کمپنی کی مدد سے پٹس برگ میں لگایا ہے۔ ان کیSurtrac ٹیکنالوجی اس وقت پٹس برگ کے 50 انٹرسیکشنزپر استعمال ہورہی ہے۔ مصنوعی ذہانت کے اس نظام کی بدولت شہر کے چوراہوں پر انتظار کا وقت 40 فی صد تک کم ہوچکا ہے، جب کہ سفر کے دورانیے میں 25 فی صد اور گاڑیوں سے کاربن ڈائی کے اخراج میں20 فی صد تک کی کمی ہوچکی ہے۔

ریپڈ فلو ٹیک کے چیف ایگزیکٹوGriffin Schultz  کا کہنا ہے کہ یہ نظام سڑک اور چوراہے پر موجود گاڑیوں اور فٹ پاتھ پر پیدل چلنے والے افراد کو خودمختار طریقے سے شناخت کرکے ان کی ویڈیوز کو استعمال کرتا ہے۔ یہ نظام حاصل ہونے والی معلومات کو مصنوعی ذہانت کی مدد سے لمحہ بہ لمحہ استعمال کرتے ہوئے ٹریفک لائٹس کو کنٹرول کرتا ہے۔ Surtracخودکار طریقے سے فیصلہ کرتے ہوئے دوسرے چوراہوں پر بھی معلومات کا تبادلہ کرتا ہے۔ گریفین کا کہنا ہے کہ موبائل فونز اور وائر لیس ٹیکنالوجی کی مدد سے سڑک پر موجود گاڑیاں اس نظام سے اور زیادہ مربوط ہوجاتی ہیں، جس سے ہمارے نظام کو اور زیادہ معلومات ملتی ہے۔ Surtrac سے منسلک ہونے والی گاڑیاں اپنی رفتار، ڈرائیور کے رویے اور یہاں تک کہ اطراف میں موجود انفرا اسٹرکچر میں کسی ممکنہ کوتاہی کے بارے میں معلومات کے تبادلے کی اہل ہیں۔ گریفین نے بتایا کہ اس وقت ہم تجرباتی مراحل پر Surtracکو محدود علاقے میں استعمال کررہے ہیں تاہم مستقبل میں ہم اس کا لامحدود استعمال کر سکیں گے۔

سیمینز موبیلیٹی انٹیلی جینٹ ٹریفک سسٹم کے سربراہ Markus Schlitt کا کہنا ہے کہ ہم دنیا بھر کے شہروں اور میونسپلٹیز کے ساتھ ٹریفک جام کے خاتمے کے لیے کام کر رہے ہیں، کیوں کہ مصنوعی ذہانت کے بنا مستقبل میں نظام ٹریفک بہت زیادہ پیچیدہ ہوجائے گا جس کے لیے ہمیں آرٹیفیشل انٹیلیجنس سے لیس نظام کی ضرورت ہے جو کہ حاصل ہونے والے ڈیٹا کی مدد سے ٹریفک کا بہاؤ برقرار رکھ سکے۔ جس کے نتیجے میں سفر کا دورانیہ اور مضر گیسوں کا اخراج بھی کم سے کم ہوگا۔ ہم جرمن شہر ہیگن میں ٹریفک لائٹس کو کنٹرول کرنے اور چوراہوں پر انتظار کے وقت میں کمی کے لیے مصنوعی ذہانت کا تجرباتی استعمال کر رہے ہیں۔

اس تجرباتی استعمال سے پیدا ہونے والے نتائج بہت خوش گوار ہیں کیوں کہ اس سے انتظار کے وقت میں 47 فی صد تک کمی آئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آرٹیفیشل انٹیلجنس کے اس نظام سے صرف گاڑی رکھنے والے ہی مستفید نہیں ہورہے بلکہ سیمینز موبیلیٹی پرتگال کے شہر لزبن ٹریفک کے بہاؤ کو کم کرنے کے لیے 14سو الیکٹرک موٹر سائیکلز کے بیڑے کو بھی آپریٹ کر رہی ہے، اور ہر 140بائیکس سے حاصل ہونے والی معلومات کو ہم مشین لرننگ کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ جس سے نہ صرف ٹریفک جام میں کمی ہوئی ہے بلکہ یہ ماحول کے لیے مفید ہے۔ ٹریفک جام کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے لندن کنگز کالج کے پروفیسر اور ٹریفک مانیٹرنگ کمپنی Worldsensing کے بانی رکن Mischa Dohlerکمبوڈیا کے شہر بگوٹا میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس اور مشین لرننگ کی تربیت دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ٹیکنالوجی کی مد د سے ہم پہلے ہی روڈ سگنلز اور کسی حادثے کی صورت میں ٹریفک کا بہاؤ میں کم کرنے اور آنے والی ٹریفک کا رخ موڑنے کے لیے بہتر نتائج حاصل کرچکے ہیں۔ مصنوعی ذہانت استعمال کرتے ہوئے ہم ٹریفک جام اور سے متعلقہ دیگر مسائل کے حل کے لیے مزید بہتر نتائج حاصل کرسکتے ہیں۔ تاہم ابتدا میں لوگوں کو یہ بات سمجھانا تھوڑا مشکل ہوگا کہ انہیں راستہ تبدیل کرنے کا کیوں کہا جا رہا ہے۔

دوسری جانب برطانوی حکومت کی جانب سے ٹریفک جام سے نمٹنے کے لیے ملٹن کیینز کے علاقے میں مصنوعی ذہانت کی مدد سے ٹریفک سگنلز کو کنٹرول کرنے والی کمپنی  Vivacity Labs کے عہدے دار مارک نکلوسن کا کہنا ہے کہ سڑکوں پر اسمارٹ ٹیکنالوجیز کی تنصیب سے ٹریفک جام سے تحفظ بہت زیادہ آسان ہوجائے گا۔ نئی ٹیکنالوجیز کے بہت سے دیگر فوائد میں سے ایک سب سے بڑا فائدہ ’کم خرچ‘ ہے، کیو ں کہ نہ اس میں بھاری بھرکم مہنگے آلات نصب کرنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی اس نظام کو چلانے کے لیے بہت زیادہ افرادی قوت درکار ہے۔ مصنوعی ذہانت کے حامل یہ خودمختار نظام سڑ ک استعمال کرنے والے سائیکل سوار، کار سوار، بسوں اور دیگر اقسام کی گاڑیوں میں تمیز کرنے کے اہل ہیں، جس سے ایک طرف تو حادثات کی شرح میں کمی ہوگی دوسری طرف ٹریفک کا بہاؤ میں روانی اور مضر گیسوں کا اخراج کم ہوجائے گا، جب کہ اس نظام کی بدولت پارکنگ کرنا بھی نسبتاً زیادہ آسان ہوجائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم ’ٹریفک کے نظام کو زیادہ سے زیادہ خودمختار کرکے انسانوں کے لیے سہولت پیدا کرنے کے خواہش مند ہیں، اس کے ساتھ ساتھ ہم ہوا میں آلودگی کی سطح کو کم سے کم رکھنے کے بھی خواہش مند ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ ہم نے تجرباتی بنیادوں پر ملٹن کینیز پراجیکٹ شروع کیا جس کے تحت ہم نے شہر کے اہم چوراہوں پر 411 اسمارٹ ٹریفک کیمرے نصب کیے۔ اس پراجیکٹ کے تحت ہم نے پورے شہر میں اینٹیلی جنس کیمرے لگائے ہوئے ہیں جو تمام اقسام کی گاڑیوں اور سڑک استعمال کرنے والوں کو شناخت کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ ان کیمروں سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کی مدد سے اب ہم یہ جانتے ہیں کہ کس روڈ پر کس وقت ٹریفک زیادہ ہوتا ہے، اور لوگ زیادہ تر کس جگہ پارکنگ کرنا پسند کرتے ہیں، ان تمام معلومات سے ہمیں شہری منصوبہ بندی میں بھی مدد ملے گی۔ ان کیمروں میں لگے سینسرز نہ صرف روڈ استعمال کرنے والوں کی درجہ بندی کرتے ہیں بلکہ ایک جنکشن سے دوسرے جنکشن تک کے درمیانی فاصلے کی بھی براہ راست تصویر کنٹرول سینٹر کو بھیجتے ہیں۔

یہ نظام 89فی صد درستی کے ساتھ ٹریفک کی صورت حال سے15منٹ پیشگی اطلاع کر دیتا ہے۔ نکولسن کا کہنا ہے کہ ہمارا یہ نظام نہ صرف لوگوں کو پارکنگ کے لیے دست یاب جگہ کی معلومات فراہم کرتا ہے بلکہ یہ ملٹن کینیز شہر میں مستقبل سے مربوط خودمختار ٹرانسپورٹ ٹیکنالوجی کا سنگ بنیاد بھی ہے۔

سید بابر علی
[email protected]

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔