افغان جگن نے امریکی وزیر دفاع کی چھٹی کرائی

سید عاصم محمود  اتوار 3 فروری 2019
افغانستان سے نصف فوج کی واپسی کے سوال پر صدر ٹرمپ سے تنازع نے جنرل (ر) جیمز ماتس کو گھر بھجوادیا

افغانستان سے نصف فوج کی واپسی کے سوال پر صدر ٹرمپ سے تنازع نے جنرل (ر) جیمز ماتس کو گھر بھجوادیا

’’مجھے بتاؤ کہ اس نے میرے لیے کیا خدمات انجام دیں؟ افغانستان میں کس قسم کی مفید سرگرمیوں کو جنم دیا؟ جرنیلوں نے جتنی رقم مجھ سے مانگی، میں نے دی، مگر کیا افغانستان میں کامیابی ملی؟ بالکل نہیں۔ یہ کوئی اچھا کام نہیں تھا۔ افغانستان میں اس نے جو کچھ کہا، اسے دیکھ کر میں بالکل خوش نہیں۔ اسی لیے میں نے اس کو نکال دیا، مجھے نتائج چاہئیں۔‘‘

یہ وہ جملے ہیں جو دنیا کی اکلوتی سپرپاور کے سربراہ، صدر ٹرمپ نے 3 جنوری کو نئے سال کے پہلے کابینہ اجلاس میں سبھی وزیروں کے سامنے ادا کیے۔وہ وزیر دفاع، جیمز ماتس کے متعلق بات کررہے تھے جنہوں نے 20 دسمبر کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا تھا۔تب سننے میں آیا کہ شام سے امریکی فوج کی واپسی کے مسئلے پر دونوں میں تنازع اٹھ کھڑا ہوا۔ پھر امریکی میڈیا نے انکشاف کیا کہ صدر اور وزیر دفاع کے مابین اصل تنازع افغان مسئلہ  تھا۔گویا  افغانستان میں چھڑی امریکا کی جنگ ایسے نازک موڑ پہ پہنچ گئی کہ 1980ء کے بعد پہلی بار ایک اہم عہدے پر فائز امریکی شخصیت کو گھر جانا پڑگیا۔بعد ازاں خبر آئی کہ امریکا اور طالبان کے مابین جنگ بندی معاہدہ ہو سکتا ہے۔پچھلے سال تک صدر ٹرمپ طالبان کو نیست ونابود کرنا چاہتے تھے۔ پھر کایا پلٹ ہوئی اور وہ ان سے دوستی کرنے کی سعی کرنے لگے۔جنگ کاپانسہ پلٹنے کی داستان ڈرامائی اور سبق آموز ہے۔

٭٭

جب صدر ٹرمپ خلاف توقع صدارتی الیکشن جیت گئے تو ریپبلکن پارٹی کے نامی گرامی رہنما یہ سوچ کر پریشان ہوئے کہ موصوف کار حکومت چلانے کا کوئی تجربہ نہیں رکھتے۔ اسی لیے بزرگ لیڈروں کے اصرار پر صدر ٹرمپ نے اپنی کابینہ میں ریٹائرڈ جرنیل بھرتی کرلیے۔ مقصد یہ تھا کہ وہ اہم قومی و بین الاقوامی معاملات میں صدر ٹرمپ کو موزوں و مناسب مشورے دیں۔صدر ٹرمپ افغانستان میں جاری امریکی جنگ ختم کرنا چاہتے تھے۔

ان کا استدلال تھا کہ امریکا ہر سال اربوں ڈالر افغان جنگ پر خرچ کررہا ہے۔ یہ امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ بن چکی مگر کامیابی کا دور دور تک امکان  نہیں۔ لہٰذا امریکا کو یہ جنگ ختم کردینی چاہیے تاکہ بچنے والے اربوں ڈالر ملکی تعمیر و ترقی پر خرچ ہوں۔لیکن وزیر دفاع جنرل (ر) جیمز ماتس، چیف آف سٹاف جنرل جان کیلی، مشیر قومی سلامتی جنرل (ر) ایچ آر میک ماسٹر اور افغانستان میں کمانڈر امریکی فوج ،جنرل نکولسن نے ٹرمپ کے منصوبے کی مخالفت کردی۔ ان کی مخالفت تین دلائل پر مبنی تھی۔اول یہ کہ فوج افغانستان سے رخصت ہوئی تو امریکا کی مخالف اسلامی اسلامی تنظیمیں وہاں دوبارہ اپنے گوریلا کیمپ قائم کرسکتی ہیں۔ شدت پسند گروہ پھر فدائین کو عسکری تربیت دے کر امریکی تنصیبات پر حملے کیں گے۔ ممکن ہے کہ وہ نائن الیون کی طرح سرزمین امریکا پر کوئی خوفناک جانی ومالی حملہ کر ڈالیں۔ امریکی جرنیلوں نے دوسرا استدلال یہ پیش کیا کہ جنگ کومنطقی انجام تک پہنچائے بغیر واپسی بین الاقوامی سطح پر امریکا کی شکست و ہزیمت سمجھی جائے گی۔ یوں امریکی فوج کو ویت نام کے مانند جگ ہنسائی کا سامنا کرنا پڑتا۔ تیسری دلیل یہ تھی کہ  امریکا نے کابل میں اپنی کٹھ پتلی افغان حکومت کا ساتھ چھوڑ دیا تو وہ آن واحد میں تاش کے پتوں کی طرح بکھر سکتیہے۔

جنوری 2017ء میں نئی حکومت میں شامل  ریٹائرڈ جرنیلوں کی پتنگ چڑھی ہوئی تھی۔ ٹرمپ کو یقین تھا کہ وہ ان کی مدد سے مسائل حل کرلیں گے۔ اسی لیے ٹرمپ نے افغانستان سے امریکی فوج واپس بلانے کا فیصلہ ملتوی کردیا۔ نئی حکمت عملی کے تحت افغان طالبان اور افغانستان میں مصروف عمل امریکا مخالف دیگر تنظیموں کے خلاف حملے تیز ہوگئے۔ امریکا نے مزید تین ہزار امریکی فوجی افغانستان بھجوا ئے۔ یوں وہاں امریکی فوجیوں کی کل تعداد تقریباً چودہ ہزار ہوگئی۔ لیکن دسمبر 2017ء تک صدر ٹرمپ اور امریکی جنگوں کے مخالف ان کے ساتھیوں کو احساس ہوگیا کہ افغانستان میں جنگ کامیابی کی سمت نہیں بڑھ رہی۔ اس امر نے صدر ٹرمپ کو پریشان کردیا۔ وجہ یہ تھی کہ انتخابی مہم کے دوران انہوں نے اپنی قوم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اقتدار سنبھال کر غیر ملکی جنگیں ختم کریں گے۔ لیکن امریکی جرنیل اس منصوبے کی راہ میں رکاوٹ بن گئے۔

اب امریکی عوام صدر ٹرمپ سے سوال کرنے لگے  کہ وہ افغانستان سے کب فوج واپس بلارہے ہیں؟دسمبر 2017ء میں امریکی کابینہ کا ایک اجلاس ہوا، تو اس میں صدر ٹرمپ نے اپنے ریٹائرڈ جرنیل مشیروں کو بتایا کہ وہ افغانستان میں ان کی کارکردگی سے خوش نہیں۔افغان طالبان بدستور جنگی قوت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہی نہیں، کئی اضلاع میں ان کا اثرورسوخ بڑھ رہا تھا۔ اس موقع پر امریکی جرنیلوں نے اپنی کرسیاں بچانے کی خاطر ناکامی کا سارا ملبہ پاکستان پر ڈال دیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ پاکستان میں افغان طالبان نے کمین گاہیں بنا رکھی ہیں اور یہ کہ پاکستانی حکمران ٹولے میں شامل بعض عناصر انہیں اسلحہ بھی فراہم کرتے ہیں۔یہ سراسر الزامات تھے جو امریکی جرنیلوں نے محض اپنے عہدے بچانے کے لیے پاکستان پر لگائے۔ افغانستان میں اپنی ناکامیوں کا ذمے دار پاکستان کو قرار دے کر انہوں نے اپنے قدیمی دوست کو قربانی کا بکرا بنا ڈالا۔ پاک فوج کو خصوصاً ان سے ایسی بے وفائی اور دھوکا دہی کی امید نہ تھی۔

اسی کابینہ اجلاس میں شرکت کرنے کے بعد 1 جنوری 2018ء کو صدر ٹرمپ نے اپنی مشہور زمانہ ٹویٹ کی جس نے پاکستان میں ہلچل مچا دی ۔ انہوں نے لکھا کہ امریکا پچھلے پندرہ سال سے پاکستان کو 33 ارب ڈالر دے چکا مگر ہمیں بدلے میں جھوٹ اور دھوکا ہی ملا۔ وہ (پاکستانی) ان دہشت گردوں کو محفوظ ٹھکانے دیتے ہیں جنہیں ہم  مار رہے ہیں۔ اب ایسا نہیں چلے گا۔ اس ٹویٹ کے بعد صدر ٹرمپ نے  پاکستان کو ملنے والی امریکی امداد ختم یا کم کردی۔ پاکستان نے صدر ٹرمپ کو باور کرایا کہ افغانستان میں جاری امریکی جنگ سے پاکستانی عوام اور پاک افواج ،دونوں کو بے پناہ جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا ۔ حتیٰ کہ پاکستانی معاشرے کے تاروپود بکھر کر رہ گئے۔ صد افسوس کہ ٹرمپ حکومت نے پاکستان کی قربانیاں نظر انداز کردیں اور دیرینہ دوست کو بے سروپا الزامات کا نشانہ بنایا۔ اس ٹویٹ اور ٹرمپ حکومت کے عملی اقدامات نے پاکستان اور امریکا کے تعلق کشیدہ کردیئے۔

2017ء کے وسط ہی سے ٹرمپ حکومت  یہ سعی کرنے لگی  کہ جنوبی ایشیا میں بھارت کو بالادست طاقت بنادے۔ امریکا افغانستان میں بھی بھارت کے کردار کو وسعت دینا چاہتا تھا تاکہ افغان طالبان کو شکست دی جاسکے۔ چناں چہ ہم نے دیکھا کہ بھارت افغانستان اور ایران سے تجارتی روابط بڑھانے لگا۔ اس نے خلیجی ممالک سے بھی تعلقات بڑھائے تاکہ پاکستان کو تنہائی کا نشانہ بنایا جاسکے۔ لیکن امریکا کی سرپرستی میں چلنے والی بھارت کی یہ مہم  کامیاب نہیں ہوسکی۔حتیٰ کہ جب 2019ء کا سورج طلوع ہوا تو چشم فلک نے انوکھا مظاہرہ دیکھا۔ نئے سال کے پہلے کابینہ اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے دنیا والوں کو بتایا ’’میں وزیراعظم مودی کا اچھا دوست بن گیا۔ مگر وہ مجھے کہتے رہتے ہیں کہ انہوں نے افغانستان میں لائبریری بنائی ہے۔ ٹھیک ہے، لائبریری بنادی۔ مگر ہم وہاں (افغانستان) میں جتنا کچھ خرچ کررہے ہیں اس کے مقابلے میں ان (بھارتی حکومت) کا خرچہ کچھ بھی نہیں۔(اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترداف ہے۔)وہ (مودی) بہت سمارٹ ہے۔ یہ بتا کر چاہتا ہے کہ ہم (امریکا) اس کا شکریہ ادا کریں۔‘‘

وزیراعظم مودی اور بھارتی حکومت کے خلاف ٹرمپ کے تضحیک آمیز جملوں نے بھارت میں سنسنی  پھیلا دی۔ بھارتی میڈیا نے خصوصاً مودی سرکار کو آڑے ہاتھوں لیا اور ٹرمپ حکومت سے دوستی کی پینگیں بڑھانے پر  تنقید کا نشانہ بنایا۔صدر ٹرمپ کے جملوں نے سب سے بڑھ کر دنیا والوں پر آشکار کردیا کہ افغانستان میں خصوصاً بھارت کو پاکستان پر بالادستی دلانے کی امریکی کوششیں بری طرح ناکام ہوچکیں۔ بھارتی حکومت افغانستان میں فلاح و بہبود کے کئی منصوبے مکمل کرنے کے باوجود افغان عوام کا دل نہیں جیت سکی۔ وجہ صاف ظاہر ہے… بھارتی حکومت افغانستان پر غاصب امریکیوں اور ان کی کٹھ پتلی افغان حکومت کی ساتھی ہے۔

بھارتی حکمرانوں نے افغانستان میں صرف اس لیے مختلف فلاحی منصوبے شروع کیے تاکہ وہاں پاکستان کا اثرورسوخ  کم کرسکیں۔ مگر بھارتی حکمران ٹولے کی یہ چال بھی کامیاب نہ ہوسکی۔2018ء کے اواخر تک ٹرمپ حکومت کو احساس ہوگیا کہ اگر امریکا باعزت طور پر افغانستان سے نکلنا چاہتا ہے تو اسے افغان طالبان سے معاہدہ امن کرنا ہوگا۔ اس صورت حال میں امریکی حکمرانوں کو پھر پاکستان یاد آگیا۔ ماضی میں دیرینہ تعلقات کے باعث افغان طالبان کے رہنما اب بھی پاکستان کا کہا سن لیتے ہیں۔ اسی لیے ٹرمپ حکومت دوبارہ پاکستان کی سمت جھکنے اور دوستی کے اشارے دینے لگی۔ اسی قسم کے یوٹرن لینے سے کہا جاتا ہے کہ امریکی حکمران صرف اپنے مفادات مدنظر رکھتے ہیں اور ان کا کوئی دین ایمان نہیں۔ بہرحال ماضی کی تلخیاں بھلا کر پاکستانی حکومت کوشش کرنے لگی کہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لایا جائے۔اس ضمن میں پاک فوج بھی بہت متحرک رہی۔اس ساری سعی کا مثبت نتیجہ برامد ہوا۔

صدر ٹرمپ کا مستحسن فیصلہ

دسمبر 2018ء کے اوائل ہی میں صدر ٹرمپ نے افغانستان سے آدھی امریکی فوج بلانے کا فیصلہ کرلیا۔ اس کی وجہ سرزمین افغاناں میں بڑھتے جنگی اخراجات تھے۔ امریکا ہر سال افغان جنگ پر ’’46 ارب ڈالر‘‘ خرچ کررہا ہے۔ یہ رقم پاکستان کے پورے سالانہ بجٹ سے کچھ ہی کم ہے۔ اتنا زیادہ سرمایہ لگانے کے باوجود امریکا افغانستان میں کچھ حاصل نہیں کرپایا۔ اسے عسکری کامیابی نہیں ملی اور نہ ہی افغان عوام امریکا کو اپنا دوست یا نجات دہندہ سمجھتے ہیں۔ اُدھر امریکی عوام یہ دیکھ کر عاجز آچکے کہ ان کے ادا کردہ ٹیکسوں کی رقم فضول افغان جنگ پر خرچ ہورہی ہے۔

اب امریکی عوام شیطان کی آنت کے مانند لمبی ہوتی اس جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں۔افغانستان سے آدھی امریکی فوج بلانے کا اعلان کر کے صدر ٹرمپ نے مستحسن فیصلہ کیا۔ یوں اندرون و بیرون ملک ان کی تیزی سے گرتی ساکھ  کو کچھ سہارا ملا۔ امریکی وزیر دفاع، جنرل(ر)جیمز ماتس نے مگر اس فیصلے کی مخالفت کردی۔ اہم وجہ یہ ہے کہ امریکی افواج ہر سال حکومت سے ’’سات سو ارب ڈالر‘‘ دفاعی بجٹ کے نام پہ لیتی ہے۔یہ دنیا میں سب سے بڑا جنگی بجٹ ہے۔ظاہر ہے، یہ زرکثیر خرچ کرنے کی خاطر امریکی افواج کو جنگیں بھی درکار ہیں۔جنرل(ر)جیمز ماتس کو امریکی فوج کے جرنیلوں اور بھارتی حکومت کی بھی حمایت حاصل تھی۔حقیقت میں جب وزیراعظم مودی کو صدر ٹرمپ کے فیصلے کی خبر ملی، تو انہوں نے واشنگٹن میں اپنے دوست احباب سے درخواست کی کہ وہ افغانستان سے امریکی فوج بلانے کے فیصلے کی پرزور مخالفت کریں۔ یوں امریکی دارالحکومت میں فیصلے کے حمایتوں اور مخالفین کے درمیان زبردست لڑائی چھڑگئی۔

یہ عیاں ہے کہ اس خفیہ لڑائی میں فیصلے کے حامی جیت گئے کیونکہ صدر ٹرمپ افغانستان میں جاری جنگ اب کسی بھی طرح ختم کرنا چاہتے ہیں۔ جب جیمز ماتس اپنا موقف نہیں منواسکے تو انہوں نے استعفیٰ دے دیا۔ اس استعفیٰ نے امریکا بھر میں سنسنی پھیلا دی۔ دراصل امریکی حکومت میں وزیر دفاع کا عہدہ نہایت اہمیت رکھتا ہے۔ لہٰذا جب یہ وزیر اپنا عہدہ چھوڑ دے، تو اس کا یہی مطلب ہے کہ صدر سے اختلافات نہایت شدت اختیار کرچکے تھے۔ اب شاید مستقبل میں جیمز ماتس اپنی آپ بیتی میں ان اختلافات کی نوعیت بیان کریں گے۔امریکی میڈیا نے تاہم انکشاف کیا کہ صدر ٹرمپ نے وزیر دفاع کو پیغام دے دیا تھا ، وہ یکم جنوری کو اپنا عہدہ چھوڑ دیں۔ گویا صدر ٹرمپ نے جیمز ماتس کو برطرف کیا تھا، وزیر دفاع نے پہلے استعفیٰ نہیں دیا۔ جب شکست یقینی ہوگئی، تبھی بادل نخواستہ انھوں  نے اپنی کرسی کو خیرباد کہہ دیا۔

مودی لابی کو شکست

اس سارے ڈرامائی کھیل سے عیاں ہے کہ مودی سرکار کی طاقتور لابی کو بھی واشنگٹن میں منہ کی کھانا پڑی۔ بھارتی لابی کی سرگرمیوں ہی نے صدر ٹرمپ کو بھی ناراض کر ڈالا اور انہوں نے اپنی پریس کانفرنس میں مخصوص انداز میں بھارتی وزیراعظم کا مذاق اڑا دیا۔ صدر ٹرمپ دراصل سرتا پا کاروباری ہی۔ وہ ہر معاملے کو نفع یا نقصان کے ترازو میں تولتے ہیں۔ افغانستان سے آدھی فوج بلوانے کے اعلان پر انہیں توقع تھی کہ امریکی عوام اس کا خیر مقدم کریں گے۔ یوں عوام میں ان کی مقبولیت بڑھ جاتی اور یہ نفع کا سودا تھا۔ مگر وزیراعظم مودی اس سودے کی ماہیت سمجھ نہ پائے اور دنیا بھر میں بظاہر اپنے دوست، ٹرمپ کے ہاتھوں ذلت کروا بیٹھے۔ بھارت دراصل یہ چاہتا ہے کہ امریکی فوج ہر حال میں افغانستان میں موجود رہے۔ ظاہر ہے، امریکی فوج ہی نے افغان حکومت اور افغان فوج، دونوں کو سہارا دے رکھا ہے۔

اگر امریکا نے عسکری و معاشی لحاظ سے افغان حکومت کی مدد کرنے سے ہاتھ کھینچ لیا تو وہ چند ماہ بھی نہیں گزار سکتی۔ جلد ہی افغان طالبان کابل پر قبضہ کرسکتے ہیں۔ ایسی صورت میں افغانستان میں بھارت کے مفادات کا دھڑن تختہ ہوجائے گا۔ اس نے افغانستان میں اثرورسوخ بڑھانے کی خاطر جو اربوں روپے خرچ کیے ہیں، وہ ضائع جائیں گے۔ اس ناکامی پر مقامی اور بین الاقوامی میڈیا میں لازماً بھارتی حکمرانوں کو تنقید کا نشانہ بننا پڑے گا اور ان کی بھد اڑے گی۔بھارتی حکمرانوں کو یہ بھی خطرہ ہے کہ برسراقتدار آکر افغان طالبان مقبوضہ کشمیر میں بھارتی غاصب فوج سے نبرد آزما مجاہدین کی ہر ممکن مدد کریں گے۔اسی لیے بھارت  خفیہ و عیاں سرگرمیوں سے کوشش کرتا ہے کہ کسی طرح امریکا اور افغان طالبان کے مابین جنگ بندی اور امن کا معاہدہ نہ ہو پائے۔افغان حکومت کی بھی درپردہ یہی خواہش رہی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔