قوسِ قضاء اور دوسری کتابیں

نسیم انجم  اتوار 3 فروری 2019
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

کئی ہفتوں سے کئی کتابیں زیر مطالعہ رہیں انھی میں ’’آئینہ ایام‘‘، ’’قوس قضاء‘‘ ، ’’مشکلیں اتنی پڑیں‘‘ شامل تھیں تینوں کتابوں کے مصنف کیپٹن نذیرالدین خان ہیں، دو کتابیں اس سے قبل بھی بعنوانات ’’پہلا پتھر‘‘ اور ’’کردار کی دیمک‘‘ کے عنوان سے شایع ہوچکی ہیں۔

اس طرح پانچ اہم کتابوں کے وہ قلم کار ہیں۔ یہ کتابیں بحری مہم جوئی پر مبنی ہیں جنھیں ہم خود نوشت کہہ سکتے ہیں ان کا تعلق مرچنٹ نیوی سے رہا ہے اور زندگی کا بڑا حصہ کھلے سمندروں میں سفر اور فرائض منصبی کو ادا کرتے ہوئے گزرا ہے۔ زندگی کے تینوں ادوار اور ان میں پیش آنے والے حیرت انگیز واقعات اور سانحات نے مصنف کو مضبوط اعصاب کا مالک بنادیا۔ ویسے بھی وہ ایک بہادر، نڈر اور جری انسان تھے یہ صفحات گویا ان کی گھٹی میں پڑی تھیں جب ہی تو انھوں نے سنگین حالات کا مقابلہ کیا اور بے شمار مسائل کے ساتھ زندگی کا سفر طے کرتے رہے اور اب ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے تجربات کو لفظوں میں ڈھال دیا ہے۔ یہ عام لفظ نہیں ہیں بلکہ ان میں جاذبیت ہے اور پڑھنے کی طلب میں اضافہ کرتے ہیں ان کی تحریروں کا قاری پوری کتاب ایک ہی نشست میں پڑھ کر دم لیتا ہے۔

وہ اچھے نثرنگار ہیں انھوں نے کتابوں کی شکل میں اپنی آپ بیتی تحریر کی ہے لیکن اس آپ بیتی میں ناول کا مزہ بھی ملتا ہے اور سفر نامے کا رنگ بھی۔ کرداروں کی مکالمہ نگاری اور ماحول کی عکاسی نے ایک داستان یا قصے کو طویل کہانی میں بدل دیا ہے اور طویل کہانی ناول سے ہی مماثلت رکھتی ہے، اگرچہ فنی لوازمات کا بھی اہتمام کیا گیا ہو، مصنف کی تحریر میں غیر ارادی طور پہ جھلک نظر آتی ہے، اگر کسی بھی کام کا مصمم ارادہ کرلیا جائے تو وہ ایک چیلنج یا ضد میں بدل جاتا ہے۔

کیپٹن نذیر الدین بچپن ہی سے ضدی واقع ہوئے تھے بچپن کا ایک واقعہ لکھتے ہیں کہ ’’ایک دن والد صاحب ایک چھوٹی سی بھاپ سے چلنے والی کشتی لے آئے، کشتی کو دیکھ کر بیک وقت میں نے اور بڑے بھائی نے حق ملکیت کا دعویٰ کردیا، قریب تھا کہ ہابیل اور قابیل کا ڈرامہ شروع ہوتا، والد صاحب نے اسی وقت بیگ میں سے ایک اور پیکٹ نکالا اس میں چابی سے چلنے والا ہوائی جہاز تھا جسے بھائی نے پسند کرلیا۔ شاید اسی دن سے کپتانی لاشعوری طور پر میرے خوابوں کی تعبیر بن گئی تھی یا قدرت نے میرا رزق سمندر کے سپرد کردیا تھا۔‘‘

کیپٹن نذیر الدین کی ضد اور حوصلہ ان کے روشن مستقبل کی ضمانت بنا وہ سمندری موجوں اور طوفانوں سے نبرد آزما رہے یہ طوفان اور طلاطم حالات کا پیش خیمہ تھے لیکن شپ کی ملازمت ان کی منتظر اور راستہ خارزار تھا جہاں قدم قدم پر پاؤں میں چھالے پڑ رہے تھے بھوک، افلاس، جیل دھوکہ دہی کرنے والے انھیں قدم قدم پر مل رہے تھے، مصنف کا تعلق ایک اچھے اور باوقار خاندان سے تھا، اس لیے وہ دلدل کے قریب سے گزرتے ہوئے بھی اپنے پیروں کو مضبوطی سے زمین پر گاڑے رہے، یہ زمین لوگوں کے لیے ہوتی ہی مادر گیتی ہے۔

ان کے دادا نے ایک موقع پر ان کے والد سے کہا تھا۔ تحریک پاکستان اور تعبیر پاکستان کے سرگرم رکن تھے ’’تم جو اسلامی مملکت کا رٹا لگائے ہوئے ہو، تو کیا تمہیں نظر نہیں آتا کہ اس طرح ہندوستان سے اسلام کا بوریا ہی لپیٹ کر چلے جا رہے ہو، اسلام ظالم و خائن بادشاہوں کی تلوار سے نہیں پھیلا، اسلام کبھی تلواروں کا محتاج رہا ہی نہیں بلکہ اسلام تو اولیا کرام اور صوفیائے عظام کی تبلیغ سے پھیلا ہے، ہم یہاں ہزار برس سے ساتھ رہ رہے ہیں لیکن اب پاکستان کے نام سے دشمنی کی خلیج پیدا ہوگئی ہے وہ کبھی پاٹی نہ جاسکے گی، بزرگوں کے اسی قسم کے افکار ان کی دور اندیشی کا پتہ دیتے ہیں، ایسے خاندان کا بچہ عالم باعمل ہی ہوسکتا ہے، والدین کی تعلیم و تربیت نے انھیں سونا بنادیا اور سونے سے کندن میں سانحات و تجربات نے تبدیل کردیا۔

بے شمار مشکلات کے بعد پاکستان تو وجود میں آگیا لیکن مسائل، دشمن کی ریشہ دوانیاں، مہاجرت سے پیدا ہونے والی مشکلات، افراتفری اور سر چھپانے کے لیے جگہ کے حصول نے آنے والوں کو تکلیف میں مبتلا کردیا، کیپٹن صاحب کے والد نے پریشان لوگوں کی ہر طرح سے مدد کی اور لوگوں کے رہنے کے لیے پلاٹ اور کوارٹروں کا بندوبست کیا لیکن کام کرنے کے لیے ان کے ارادے متزلزل ہوگئے جب انھوں نے قائد ملت لیاقت علی خان کے قتل کی خبر سنی یہی خبر ان کے لیے جان لیوا ثابت ہوئی۔

والد صاحب کا سایہ سر سے اٹھنے کے بعد نذیر الدین اور ان کے بڑے بھائی نے حصول رزق کے لیے جدوجہد شروع کردی گو کہ عمر کے اعتبار سے اتنے بڑے نہیں تھے کہ تعلیم کو خیرباد کہہ کر معاشی ذمے داریوں کا بوجھ اٹھا سکیں لیکن حالات زمانہ سب کچھ کرنے پر مجبور کردیتا ہے۔ کیپٹن نذیرالدین کا بچپن محنت مزدوری میں گزرا، موسم کی سنگینیوں کے پیش نظر سبزی منڈی سے کورنگی لانڈھی تک کا سفر آسان نہ تھا ایک بار ابرِ باد و باراں نے انھیں سخت تکلیف میں مبتلا کردیا، اور انھیں مسجد میں پناہ لینی پڑی، مسجد سے ایک شفیق ہستی نے اپنے گھر لے جاکر تیمار داری کی اور وہ صبح جس وقت اپنے گھر پہنچے تو ماں کو اپنا منتظر پایا، جیل میں بھی سات دن کی قید ریل کا ٹکٹ لینے کے باوجود کاٹنا پڑی، یہاں بھی اسپتال کی نرس مریم آنٹی کی شکل میں اللہ کی مدد موجود تھی۔

ہزارہا آزمائشوں کے بعد آخرکار انھیں گورنمنٹ کی شپنگ کمپنی میں نوکری مل گئی، اس رات وہ حسین خوابوں کی سیر کرتے رہے، اور اپنے آپ کو انگریزی فلموں کا ہیرو سمجھتے رہے۔ ایک موقع ایسا بھی آیا جب جہاز کے کپتان نے مصنف کا حوصلہ محنت اور لگن کو دیکھتے ہوئے ان کو روشن مستقبل کے مشورے دیے اور یہ بھی کہہ دیا کہ تمہاری منزل وہ ہونی چاہیے جہاں آج میں کھڑا ہوں، ان کی اس بات نے بہت سی امیدوں کو تر و تازہ کردیا۔ لیکن وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوجائے۔ کپتان صاحب تو یہ بات کہہ کر بھول گئے مگر موجودہ کپتان نے اسی بات کو پلو میں باندھ لیا اور شب و روز کی محنت، ساتھ میں تعلیم کی طرف توجہ اور پھر اس میں کامیابی کے بعد انھیں منزل سے ہمکنار کردیا۔

کیپٹن نذیر الدین کی کتاب ’’قوس قضاء‘‘ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ یہ وہ قوس ہے جو موت سے ہمکنار کر سکتی ہے۔ مصنف نے اس کے بارے میں لکھا ہے اگر’’ قوس قضا‘‘ جیسی کمان فضا میں نمودار ہوجائے، جس کا رنگ انتہائی غلیظ، پیلاہٹ مائل ہو اور جس میں نہایت زہریلی گیس بھی ہو تو پھر وہ موت کی علامت بن جاتی ہے اور ایسی ہی صورت حال سے سمندری سفر کے دوران وہ اور ان کے ساتھی دوچار ہوئے اور یہ کتاب بھی اسی مہم جوئی کا نتیجہ ہے۔ کتاب قابل قدر قلم کاروں کی آرا سے مزین ہے انھی میں سے چند کے نام، محترمہ صفورا خیری، ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی، احمد عمر شریف، زیب اذکار حسین اور جہانگیر سید، ان سب نے کیپٹن نذیر الدین کی تحریروں کو سراہا ہے اور اپنے گراں قدر خیالات کا اظہار کیا ہے۔

اس میں شک کی گنجائش ہرگز نہیں ہے کہ کیپٹن کی لکھی ہوئی کتابیں قاری کو ایک ایسے طلسماتی جزیرے میں قید کردیتی ہیں جہاں سے آزادی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کتاب اختتام تک نہ پہنچ جائے۔ اس میں ایسے کئی واقعات درج ہیں کہ جنھیں پڑھنے والا اسی ماحول کا حصہ بن جاتا ہے۔ جیسے سیف کا زندہ سلامت سانپ پکڑنا اور پیٹر کو خوفزدہ کرنا اور ساتھ میں سمندر کی ان لہروں کا مقابلہ کرنا جو موت کا پیغام دیتی ہوئی انسانی جانوں کو دبوچنے کے لیے بھرپور طاقت کا استعمال کر رہی تھیں لیکن وہ طاقت جو زندگی کو بچانے کے لیے پیدا ہوتی ہے وہ بھی بھرپور مزاحمت کر رہی تھی۔

’’آئینہ ایام‘‘ میں کیپٹن نذیر (ماسٹر میری نر) نے امت مسلمہ کے زوال اور تباہ حالی کے اسباب کا تاریخی اور عمرانی جائزہ پیش کیا ہے۔ ضخامت کے اعتبار سے 504 صفحات کا احاطہ کرتی ہے۔

تلخ حقائق کی نشاندہی بے حد دردمندی اور جرأت کے ساتھ کرتے ہیں ’’ڈھائی ہزار برس سے زمانے کی ٹھوکروں میں روندی جانے والی ذلیل و خوار حقیر و بے توقیر قوم یہود نے دو ارب مسلمانوں کو ٹھوکروں میں روند کر القدس چھین لیا، مسلمانوں کے دل میں خنجر گھونپ دیا، اس کے باوجود آج بھی یہ سادہ و معصوم ’’حرم کی پاسبانی‘‘ کے فریب خیال میں خواب خرگوش کی مانند محو خواب ہے کیا یہ اس قابل ہے کہ حرمین و شریفین کی پاسبانی کرسکے؟ یہ ایک سوال ہے جس کا جواب امت مسلمہ کے اتحاد کی شکل میں سامنے آسکتا ہے۔ لیکن کب؟ کیپٹن نذیر الدین کی ملاقات طاہر نامی شخص سے اس وقت ہوتی ہے جب ان کا جہاز بحیرہ روم میں واقع فرانس کے تاریخی شہر مارسیلز کی بندرگاہ میں لنگر انداز ہوا تھا، طاہر وہ شخص ہے جس کے دل میں اسلام کی روح سما چکی ہے، کیپٹن صاحب خود محب دین اور محب وطن میں مسلمانوں کے زوال اور بے توقیری کا درد دونوں کا مشترکہ ہے۔ اسی لیے پوری کتاب میں طاہر کا کردار بھرپور اور کلیدی ہے ۔ گویا یہ کتاب بھی ناول نما ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔