جہاں گشت ؛ ماں جی نے جب جب یاد کیا میں ان کے رُو بہ رُو تھا

عبداللطیف ابو شامل  اتوار 3 فروری 2019
میرے سامنے زندگی کی فلم چلنے لگی جس کے کردار اپنی پوری توانائی کے ساتھ سرگرم عمل تھے

میرے سامنے زندگی کی فلم چلنے لگی جس کے کردار اپنی پوری توانائی کے ساتھ سرگرم عمل تھے

قسط نمبر 30

وہ رات بھی عجیب تھی اور کیوں نہ ہوتی کہ اب مجھے اس پُرسکون گھر اور اس کے ایثار کیش عظیم مکینوں سے رخصت ہوجانا تھا۔ میرے سامنے زندگی کی فلم چلنے لگی جس کے کردار اپنی پوری توانائی کے ساتھ سرگرم عمل تھے۔ بہنیں خاموش تھیں اور ماں جی!

آخر میں نے اس سکوت کو توڑ دیا۔ ماں جی کیا سوچ رہی ہیں آپ؟ میں نے ماں جی سے دریافت کیا۔ کیا سوچنا ہے بیٹا، دنیا مسافر خانہ ہے، لوگ آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں، لیکن کچھ ایسے ہوتے ہیں جو کبھی بھلائے نہیں جاسکتے۔ ماں جی یہ کہہ کر پھر خاموش ہوگئیں تو میں نے کہا ماں جی! یہ تو آپ بالکل صحیح فرما رہی ہیں، لیکن کچھ لوگ لگتا ایسے ہے کہ وہ آ جا رہے ہیں کہ یہی دنیا کی رِیت ہے لیکن ماں جی وہ رہتے آپ کے ساتھ ہی ہیں، ہر لمحہ، ہر پَل۔ ہاں بیٹا! ایسا ہی ہے لیکن انسان کے اندر خدشات کا دیو جو بیٹھا ہوا ہے، اسے حقیقت سے آشنا نہیں ہونے دیتا، وسوسے پیدا کرتا ہے کہ کہیں وہ آپ کو بھول نہ جائے، کہیں وہ دُور نہ ہوجائے، کہیں کھو نہ جائے تو بس اسی سے لڑنا پڑتا ہے اور بس خود کو سمجھانا پڑتا ہے کہ نہیں ایسا نہیں ہوگا، آپ کا پیارا آپ کے ساتھ رہے گا، چاہے وہ نگاہوں سے اوجھل ہی ہوگیا ہو۔ ہاں ماں جی! ایسا ہی ہے لیکن اس کا علاج بھی تو بتایا گیا ہے ناں کہ جب وسوسے تنگ کریں تو اپنے سوہنے رب کی پناہ میں آجاؤ۔ ہاں بیٹا ایسا ہی ہے کہ اس کے سوا کوئی ان سے پناہ دینے والا بھی نہیں ہے لیکن انسان تو کم زور ہے ناں۔

لیکن ماں جی! میری بات پورے یقین کے ساتھ سُن لیجیے جب بھی، جس پَل بھی آپ اپنے اس پاگل بیٹے کو یاد کریں گی آپ کا یہ پاگل بیٹا آپ کے سامنے ہوگا، یہ وعدہ ہے میرا اپنی پیاری ماں جی سے۔ ماں جی مسکرائیں، ان کے ہاتھ کی گرفت میرے ہاتھ پر اور زیادہ شدت اختیار کرگئی اور وہ برستے ہوئے کہنے لگیں: میرے پاگل بیٹے اگر مجھے یہ یقین نہ ہوتا تو کیا میں اس وقت زندہ رہتی، نہیں میرے دل کی ڈھرکن بند ہوجاتی، مجھے یقینِ کامل ہے کہ جو کچھ میرے بیٹے نے کہا ہے، بالکل ایسا ہی ہوگا، صد فی صد ایسا ہی ہوگا۔ تب میں نے کہا: تو پھر یہ بات میری بہنوں کو بھی بتائیے جو اتنی خاموش ہیں کہ مجھے ڈر لگنے لگا ہے۔ میری چاروں بہنیں میرے ساتھ آکر بیٹھ گئیں اور میمونہ نے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بس اتنا کہا: دیکھو ہمیں یقین ہے جس رب نے ہمیں بھائی دیا ہے وہی اس کا نگہبان بھی ہے اور وہی ہے جو اسے ہمارے سر پر سایہ بنائے رکھے گا، بس تم سنبھل کر اور راہ راست پر رہنا، جو کچھ بابا نے سکھایا ہے، سمجھایا ہے اس پر عمل پیرا رہنا، باقی سب کچھ اس ذات باری تعالی پر چھوڑ دینا جس نے ہمیں تم جیسے بھائی سے نوازا ہے۔ میں سوچ رہا تھا کہ یہ سب کچھ نہ جانے میں کیسے کہہ گیا تھا لیکن کہا یقین کامل کے ساتھ اور پھر اتفاق بھی ایسا ہوا کہ ماں جی نے جب جب یاد کیا میں ان کے رُو بہ رُو تھا۔

فقیر نے آپ کو پہلے بھی بتایا تھا کہ مائیں کبھی نہیں مرتیں، وہ مر ہی نہیں سکتیں کہ رب نے انہیں زندگی بنایا ہے، کیا کہا نہیں سمجھ میں آیا، تو سوچیے، غور کیجیے، کسی دانا سے دریافت کیجیے، وہ آپ کو بتائے گا کہ ماں تو خود زندگی ہے وہ کیسے مر سکتی ہے، نہیں مائیں کبھی نہیں مرتیں بس نگاہوں سے اوجھل ضرور ہوجاتی ہیں لیکن جس سے ان کا تعلق ہو اس کی تو نگاہوں سے بھی اوجھل نہیں ہوتیں۔ ماں جوہر ہستی ہوتی ہے ناں جی تو جوہرِ ہستی عدم سے آشنا ہوتا نہیں، اور یہ میں بے عقلا، ناسجھا نہیں کہہ رہا، بابے اقبال جیسے رازداں نے کہا ہے یہ تو۔ چلیے کیا بتائیں، تو ماں کی دعائیں آپ کا حصار کیے رہتی ہیں، ہر وقت، ہر پَل، جس جس جگہ آپ کسی گھیرے میں آئیں وہ وہاں آموجود ہوتی ہے، میرا تو یہی تجربہ ہے، آپ کا آپ جانیں۔ دیکھیے ماں کی دعائیں کیسے آپ کا حصار کرتی ہیں، کیسے آپ کی حفاظت کرتی ہیں، کبھی آپ کو تنہا نہیں چھوڑتیں، ہزارہا واقعات دیکھے ہیں میں نے، لیکن دیکھیے اس وقت کیا یاد آگیا مجھے!

رب قادر، رحیم، کریم ایسا

کوئی رحیم نہی اﷲ پاک ورگا

پُتر بھاویں زمانے دا غوث ہووے

نہی ماں دے پیراں دی خاک ورگا

اور یہ دیکھیے کیسا ہے!

چلتی پھرتی ہوئی آنکھوں سے اذاں دیکھی ہے

میں نے جنّت تو نہیں دیکھی، ماں دیکھی ہے

اگر آپ مجھ ایسے فقیر کی بات مانیں تو میں آپ کو تمام مشکلات کا حل بتا سکتا ہوں، اگر آپ نے اس پر عمل کیا تو فقیر کی ذمے داری ہے کہ آپ کا جیون آسان ہوگیا، تو بس یہ کیجیے کہ ماں کو مرکز بنالیجیے، اس کے گرد رقص کیجیے، اپنی ہر مشکل اسے بتائیے، پھر دیکھیے کیا کرشمہ ہوتا ہے، آپ مشکلات سے مُکت ہوجائیں گے۔

فرطِ غم سے دل کی دھڑکن جب بھی بے قابو ہوئی

لوحِ جاں پر زندگی نے مُسکرا کر ماں لکھا!

اوہ ہو یہ کیا یاد آگیا، ہاں یہ تو کوئی ماں ہی دعویٰ کرسکتی ہے جی! یا وہ جو راز ہائے دروں خانہ کا امین ہو۔

ہم روح سفر ہیں، ہمیں ناموں سے نہ پہچان

کل اور کسی نام سے آجائیں گے ہم لوگ

ایک صاحب ہوتے تھے، نام تھا ان کا محمد بخش، واہ جی واہ کیا نام ہے ناں، تو انہوں نے مجھے اپنی کہانی سنائی تھی ایک دن، میرے سامنے ہیں ان کے شب و روز، پھر جیسے سب چلے جاتے ہیں وہ بھی اپنی اصل منزل پر پہنچ گئے، خیر سنیے ان کی بپتا اور دیکھیے مائیں کیسے آپ کے ساتھ رہتی ہیں۔

وہ تپتی دوپہر انہیں بھولتی ہی نہیں تھی، وہ حبس کہ لُو کی دعا مانگتے تھے لوگ، ہاں ایسی ہی تھی وہ دوپہر، سانس لینا دوبھر ہوگیا تھا، اور ایسے میں شفیق ماں، جو سارے رشتے نبھا رہی تھی کہ رازدار، غم گسار اور ہم درد دوست تھی۔ جیون کا سبق دینے والی استاد اور گھنا چھتنار درخت، کہ جس کی سکون آور چھاؤں میں رس تھا جیون کا، ہاں ایسی ماں بھی ساتھ ہی چھوڑ گئی تھی۔ بس وہ مر گئی تھی، اور پھر جب وہ ہی مرگئی، تو باقی رہا کیا تھا، پھر بوجھ تھا، جو اٹھانا تھا اور وہ بھی تنہا، کہ جب تک سانس چلتی ہے کوئی کاندھا نہیں دیتا۔ وہ بتاتے تھے کہ ماں اس لیے مرگئی کہ علاج کے پیسے ہی نہیں تھے۔ لیکن علاج کیا تو تھا کہ جس نے جو جڑی بوٹی، ٹونا ٹوٹکا بتایا تھا، کیا تھا۔ بس وہ علاج کہ جس میں پیسے نہیں لگتے، اس لیے کہ وہ تھے ہی نہیں، اور تھے بھی تو اتنے کہ بس رو دھو کے تھوڑا سا اناج کھا جاسکیں، پیٹ کا دوزخ بھر سکیں، بس اتنے۔ وہ اکلوتے تھے، باپ تو بچپن میں مرگیا تھا۔

گاؤں میں چھوٹا سا چھپر، جو مکان کی تہمت لیے ہوئے تھا۔ بارش ہوتی تو ڈر ہی لگا رہتا کہ گر ہی نہ جائے، باہر برسات کم اور اندر زیادہ ہوتی تھی، مکان کیا تھا، یوں سمجھو کہ بس اندھیری قبر تھی، جس میں دو افراد جی رہ رہے تھے یا بس سانسیں پوری کر رہے تھے، کھانے کو ملا ملا، نہیں ملا تو نہیں، جیون کیا تھا وہ تو ہر پَل موت تھی۔ ہر جگہ پیسے کا پجاری ہے انسان۔ رہے عزیز رشتے دار تو وہ بس نام کے ہوتے ہیں، کہ رشتہ تو بس درد کا ہوتا ہے۔ پھر میں کیا کرتا اس گاؤں میں رہ کر۔۔۔۔ ؟ اس تپتی دوپہر میں جب میں نے چندے سے ماں کو زمین کے منہ میں ڈالا کہ اس کا ہی رزق تو تھی ماں، ماں رزق خاک بن گئی، تو چند ایک عورتیں اور مرد بیٹھے تھے، جو ایک ایک کرکے چلے گئے، تو میں نے بھی وہ گاؤں چھوڑ دیا کہ اب وہاں رکھا ہی کیا تھا میرے لیے۔ تنہائی کیا ہوتی ہے یہ تو مجھے معلوم ہی تھا کہ بچپن میں ماں اکیلا چھوڑ کر گاؤں کے ملک صاحب کے گھر کام کرنے جاتی تھی۔ تنہائی نے تو میرے ساتھ ہی جنم لیا تھا۔

گاؤں سے شہر جانے والی دھول اڑاتی اکلوتی سڑک یوں لگتی تھی جیسے اپنے سر میں خاک ڈال کر بین کرتی ہو۔ بس میں چلا جا رہا تھا، کہاں؟ یہ میں نہیں جانتا تھا۔ ہاں بابا کرم دین مجھے راستے میں ملا تھا تو اس نے مجھ سے پوچھا، کہاں جا رہا ہے تُو، اور پھر خود ہی کہنے لگا، مرنے والی مرگئی اور مرنے والوں کے ساتھ کوئی مرتا نہیں ہے، سب کو مرنا ہے کہ یہی ہے اصل اور سچ، سب کا مالک اوپر والا ہے، خود کو سنبھال۔ بس وہ یہ کہہ کر چلا گیا تھا، چلتے چلتے مغرب ہوگئی تھی، اور میں نہ جانے کہاں تھا۔ اتنے میں پیچھے سے ایک لاری آئی، تو میں اس میں سوار ہوگیا۔ نہ جانے کیوں کسی نے مجھ سے بھاڑا نہیں مانگا۔ تھوڑی دیر میں شہر آگیا۔ شہر میرے لیے نیا نہیں تھا۔ ماں سودا لینے آتی تو میں بھی اس کے ساتھ ہوتا۔ لاری اڈے پر اتر کے میں ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ آدمی تو بہت تھے، آشنا کوئی نہ تھا۔ رات سر پر تھی، کالی اور بہت کریہہ۔ کسی کو دے نہیں سکتے تو مت دو اس سے چھینو تو نہیں، یہ کہا کرتی تھی ماں، مجھ سے تو سب کچھ چھن چکا تھا۔

میں اک کونے میں دبک کے بیٹھ گیا اور سوچنے لگا کیسے کٹے گا جیون۔ میں بھی ماں کے سنگ مر جاتا تو کیا تھا، لیکن میں مر تو گیا تھا، بس زندہ نظر آرہا تھا، لیکن حقیقت تو یہی تھی کہ میں زندہ تھا، سانس لے رہا تھا، دل کے اندر رسنے والے زخم کس نے دیکھے ہیں، اگر میں کسی سے کہتا کہ میں مرگیا ہوں، تو لوگ ہنستے۔ لو گوں کا تو کام ہی دوسرے کے دکھ پر ہنسنا ہے، بہت ہی کم ایسے ہیں جو دوسرے کے دکھ کو اپنا سمجھیں۔ رات بھر میں سوچتا رہا اور پھر فجر کی اذان بلند ہوئی اور میں لاری اڈے پر بنی چھوٹی سی مسجد میں چلا گیا۔ تھکن سے سارا بدن ٹوٹ رہا تھا۔ اس سے پہلے میں کبھی مسجد گیا نہیں تھا، نہ جانے میں کیوں آگیا تھا۔ اس وقت مسجد میں کوئی آیا نہیں تھا۔ تھوڑی دیر بعد لوگ آنا شروع ہوئے پھر امام صاحب بھی آگئے اور جماعت کھڑی ہوگئی۔

جیسے تیسے نماز ادا کی، نمازی جانے لگے لیکن ایک شخص قرآن کی تلاوت کرنے بیٹھ گیا، میں اسے دیکھ رہا تھا جب اس نے تلاوت کرلی اور جانے لگا پھر اس کی نظر مجھ پر پڑی، کہاں سے آئے ہو؟ اس نے پوچھا تو میں نے اپنی رام کہانی سنائی، وہ سر جھکائے سن رہا تھا۔ پھر اس نے میرا ہاتھ تھاما اور اپنے گھر لے گیا۔ بہت افسردہ تھا وہ، اس نے بیٹھک میں مجھے بٹھایا اور ناشتا لے آیا اور پھر کہنے لگا: ’’اﷲ پر بھروسا رکھو وہ ہے سب کا کارساز، سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘ ہم نے ناشتا کیا اور پھر وہ یہ کہتے ہوئے چلا گیا کہ تم آرام کرو میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں۔ جب انسان کا پیٹ بھرا ہوا ہو تو اسے نیند بھی بہت آتی ہے اور میں تو پھر رات بھر کا جاگا ہوا بھی تھا تو نیند آگئی۔ اس نے مجھے آکر جگایا مجھے حیرت ہوئی کہ ظہر کی اذان ہوچکی ہے، میں اتنی دیر تک سویا رہا۔ ہم نے مسجد جا کر نماز ادا کی، گھر آکر کھانا کھایا اور پھر اس نے مجھے ایک بیگ لاکر دیا اور کہنے لگا: ’’دیکھو حرکت میں برکت ہے، اس بیگ میں دو جوڑے کپڑے ہیں یہاں تو اتنا کام ہے نہیں، تم کراچی چلے جاؤ وہاں میرا ایک دوست علی گل ہے، اس کے نام میں نے خط لکھ دیا ہے۔ چلو اب تم تیار ہوجاؤ۔ شام کو پانچ بجے کراچی کی ریل آتی ہے، بس تم تیار ہوجاؤ۔‘‘

پانچ بجنے میں ابھی خاصی دیر تھی کہ ہم دونوں اسٹیشن پہنچ گئے اس نے مجھے ٹکٹ خرید کر دیا اور پچاس روپے بھی، اس زمانے میں پچاس روپے بہت بڑی رقم تھی۔ اس نے مجھے بہت سی نصیحتیں کیں، بہت سمجھایا اور پھر میں روانہ ہوگیا۔ کہانی بہت طویل ہے۔ میں کراچی پہنچ گیا۔ سٹی اسٹیشن پر پہنچ کر میں نے سائٹ کا راستہ پوچھا اور پھر اس کے دوست علی گل کے پاس پہنچ گیا۔ وہ چترال کا رہنے والا بہت ہنس مکھ جوان تھا۔ میں نے اسے اس کا خط دیا۔ اس نے پڑھ کر مجھے گلے لگایا اور کہنے لگا تم میرے بھائی ہو، بس اب تم پریشان نہیں ہونا۔ وہ ایک سگریٹ ساز کمپنی میں کام کرتا تھا اور ایک کمرے میں رہتا تھا۔ اب ہم دو ہوگئے تھے ، دوسرے دن وہ مجھے اپنے ساتھ اپنی کمپنی لے گیا اور اسی دن میں وہاں لوڈر بھرتی ہوگیا۔

میں بہت زیادہ خوش تھا۔ تن خواہ بہت اچھی تھی کھانے پینے کی بہت اچھی کینٹین تھی۔ بس یوں سمجھو کہ میری تو لاٹری نکل آئی تھی۔ ہم دونوں بھائیوں کی طرح رہتے تھے۔ وہ میرا بہت خیال رکھتا تھا، بہت زیادہ۔ مجھے پہلی تن خواہ ملی تو عجیب سی خوشی ہوئی جسے بیان نہیں کیا جاسکتا۔ میں نے وہ سارے پیسے علی گل کو دیے تو وہ بہت حیران ہوا اور رونے لگا۔ میں حیران تھا۔ پھر وہ کہنے لگا: ’’میرا کوئی بھائی نہیں تھا، اﷲ نے تمہیں میرا بھائی بنا کر بھیج دیا۔ میں تمہارے پیسے بینک میں جمع کرادیا کروں گا، یہ تمہاری امانت ہے۔ میں نے کہا اس میں سے کچھ پیسے اپنے دوست کو منی آرڈر کردو اس نے میری بہت مدد کی ہے اور باقی کے مجھے ضرورت نہیں ہیں، میرا کون ہے جسے میں دوں گا، بس یہ تمہارے ہیں جو چاہے کرنا۔‘‘ میں اور علی گل بھائیوں کی طرح رہتے تھے۔

دن گزرتے رہے اور بہت اچھے دن۔ ایک دن علی گل نے مجھے کہا میں اپنے گاؤں جانا چاہتا ہوں ایک مہینے کی چھٹی لے لوں گا، تم اپنا بہت خیال رکھنا، سچی بات ہے میں بہت افسردہ ہوگیا تھا۔ اس نے مجھ سے پوچھا کیا بات ہے میں نے کہا، میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا، تو کیا ہوا تم میرے ساتھ چلو، علی گل نے تو مسئلہ ہی حل کردیا تھا، میری خوشی کا تو کوئی ٹھکانا ہی نہیں تھا۔ ہم دونوں نے چترال جانے کی تیاری شروع کردی، کمپنی سے ہمیں ایک ماہ کی چھٹی بھی مل گئی تھی۔ آخر وہ دن آگیا کہ میں اور وہ چترال جانے کے لیے روانہ ہوئے، وہ میری زندگی کا خوب صورت ترین دن تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ ماں کی موت کے بعد میں سمجھا تھا کہ میرے لیے دنیا میں اب کچھ نہیں رہا لیکن ایسا تھا نہیں، میں بہت خوش تھا۔ آخر ہم دونوں گاؤں پہنچ گئے، علی گل نے میرا تعارف کرایا اور یہ دیکھ کر میں حیران رہ گیا کہ علی گل کی ماں نے مجھے ویسا ہی پیار کیا جیسے علی گل کو کیا تھا۔ میں رونے لگا تو ماں پریشان ہوگئیں اور پوچھنے لگیں کہ کیا ہوا ہے؟ علی گل نے میری رام کہانی انہیں سنائی تو وہ بھی آب دیدہ ہو گئیں اور کہنے لگیں: مائیں کبھی نہیں مرتیں، بس روپ بدل لیتی ہیں۔ آج سے میں تمہاری ماں ہوں اور بعد میں یہ ثابت بھی ہوگیا کہ وہ واقعی میری ماں تھیں۔

علی گل کی دو بہنیں تھیں، بہت نیک اور سگھڑ، وہ بھی میرا بہت خیال رکھتی تھیں۔ ایک ماہ کیسے گزر گیا ہمیں پتا ہی نہیں چلا۔ آخر ایک دن ہم کراچی کے لیے واپس نکل گئے۔ رخصتی کے وقت عجیب عالم تھا ہم سب رو رہے تھے، لیکن پیٹ کا دوزخ تو بھرنا ہوتا ہے اور اس کے لیے کام بھی کرنا ہوتا ہے۔ ہم کراچی پہنچ گئے اور زندگی پھر سے رواں دواں ہوگئی۔ گھر سے خط کے ذریعے رابطہ رہتا تھا۔ ایک دن ہم گھر پہنچے تو ایک خط آیا ہوا تھا اور وہ خط میرے لیے زندگی کی خوشیوں کی نوید لے کر آیا۔ ماں نے علی گل کو لکھا تھا کہ تمہاری بہن شادی کے قابل ہوگئی ہے اور میں چاہتی ہوں کہ اس فرض کو ادا کردوں۔ میں نے بہت سوچا ہے اور میں چاہتی ہوں کہ اس کی شادی تمہارے دوست سے کردوں۔ تم اس کے بارے میں کیا کہتے ہو، مجھے بتا دو۔

علی گل بہت دیر تک خاموش رہا اور کہنے لگا: تم نے ماں کی خواہش سن لی ہے مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے، بل کہ میں خوش ہوں، تم اچھی طرح سوچ لو اور مجھے بتا دو۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا لیکن جواب تو دینا تھا سو میں نے کہا، اگر ایسا ہو جائے تو یہ میری خوش بختی ہوگی، میں تیار ہوں باقی میں سب کچھ تم پر چھوڑتا ہوں، لیکن میری بھی ایک خواہش ہے اور وہ یہ کہ ہم دونوں کی شادی ایک ساتھ ہو۔ تم ماں سے بات کرو کہ وہ تمہارے لیے بھی لڑکی تلاش کریں۔ وہ بہت زور سے ہنسا اور دوسرے دن ہم نے ماں کو خط لکھ دیا۔ ایک دن ہمیں ماں کا خط ملا کہ انہیں بہت خوشی ہوئی اور انہوں نے علی گل کے لیے پہلے سے ہی ایک لڑکی دیکھی ہوئی تھی۔ اس کے گھر والے بھی راضی ہیں، تم لوگ جب مناسب سمجھو اس کام کے لیے آجانا۔ ہمیں کراچی آئے ہوئے تین ماہ ہی ہوئے تھے اور شادی کی تیاری بھی کرنی تھی، ہم شادی کی تیاریوں میں لگ گئے۔ فارغ وقت اور چھٹی کے دن ہم سامان خریدنے لگے، وہ میرے لیے اور میں علی گل کے لیے۔ اس دوران ہمارا گھر والوں سے رابطہ رہتا تھا ہم بہت خوش تھے اور میں تو بہت زیادہ۔ ایک سال بعد ہم نے کمپنی سے ایک ماہ کی رخصت لی اور گاؤں پہنچ گئے۔ قصہ مختصر ہماری شادی ہوگئی اور پھر تو بہار ہی بہار تھی۔ ایسی بہار جس پر کبھی خزاں نہیں آئی۔

محمد بخش اپنی بپتا سناتے ہوئے رونے لگتے تھے اور جب میں پوچھتا کہ اب کیوں رو رہے ہیں تو وہ کہتے خوشی میں بھی تو انسان رونے لگتا ہے ناں۔ میں نے محمد بخش اور گل خان کو یک جا ہی دیکھا، بل کہ یک جان۔ انہوں نے تین منزلہ مکان بنالیا تھا اور کمپنی سے ریٹائرمنٹ کے بعد سبزی منڈی میں آڑھت کا کام شروع کردیا تھا۔ خدا نے انہیں وافر رزق فراہم کیا تھا اور اب وہ کاروبار علی گل اور محمد بخش کے بیٹے سنبھال رہے تھے اور ان میں بھی مثالی اتحاد تھا۔ سچ کہتے ہیں ایک اکیلا اور دو گیارہ ہوتے ہیں۔ اتفاق اور اتحاد ہی میں برکت ہے۔

ایک دن علی گل کی طبیعت خراب ہوگئی اسے دل کا دورہ پڑگیا تھا۔ ڈاکٹر تک پہنچنے سے پہلے ہی وہ دنیا سے رخصت ہوگیا تھا۔ محمد بخش کی حالت ہم سب نے دیکھی تھی، وہ سنبھل ہی نہیں رہے تھے، ان پر بار بار غشی کے دورے پڑ رہے تھے۔ علی گل کے میت قبرستان پہنچ گئی تھی اور اسے سپرد خاک کرنے کی تیاری ہو رہی تھی کہ محمد بخش کو دل کا دورہ پڑگیا اور وہ وہیں اپنے دوست علی گل کے پاس چلے گئے۔

میں اکثر ان سے ملتا تھا تو پوچھتا کہ آپ اور علی گل ماما کی دوستی بہت مثالی ہے اور وہ کہتے میں اپنے بھائی علی گل کے بغیر سانس بھی نہیں لے سکتا۔ ہاں ایسا ہی تھا انہوں نے یہ سچ کہا تھا۔ وہ واقعی علی گل ماما کے بنا سانس بھی نہیں لے سکتے تھے۔

ہاں وہ تپتی دوپہر انہیں بھولتی ہی نہیں تھی کہ لوگ لو کی دعا مانگتے تھے، وہ بھی ایک ایسی ہی تپتی حبس زدہ دوپہر ہی تھی جب وہ اس جہاں سے رخصت ہوگئے، ہاں محمد بخش اور علی گل ماما آج بھی ساتھ ہی رہتے ہیں۔ میوہ شاہ کے شہر خموشاں میں۔ ہاں اب بھی ساتھ ساتھ۔

کیا اب بھی آپ نہیں جان پائے کہ ماں کبھی نہیں مرتی وہ ہمیشہ آپ کے ساتھ ہی رہتی ہے ہوسکتا ہے اُس کا نام کچھ اور ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔