روحی بانو کوبالآخر دُکھ بھری زندگی کی طویل آزمائش سے رہائی مل گئی

قیصر افتخار  اتوار 3 فروری 2019
ممتاز اداکارہ کی نجی زندگی صبر آزما‘ اُلجھنوں کا شکار رہی‘ جواں سال اکلوتے بیٹے کی موت سے ذہنی توازن بھی جاتارہا

ممتاز اداکارہ کی نجی زندگی صبر آزما‘ اُلجھنوں کا شکار رہی‘ جواں سال اکلوتے بیٹے کی موت سے ذہنی توازن بھی جاتارہا

پاکستانی ڈرامہ کی بات کریں توروحی بانو کے بغیریہ تاریخ کبھی مکمل نہیں ہوسکتی۔ حقیقت سے قریب اداکاری کرنے والی روحی بانو نے پی ٹی وی کے بہت سے ڈراموں میں ایسے یادگارکردارنبھائے کہ ان کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ وہ جب شوخ چنچل لڑکی کے کردار میں دکھائی دیتی توسب خوش ہوتے اورجب سنجیدہ کردارنبھاتیں تولوگ اُداس ہوتے اور کبھی جذباتی کردارمیں نظرآتیں توسب کی آنکھیں نم ہوجاتیں۔

وہ ایک منجھی ہوئی باصلاحیت اداکارہ تھیں، اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ شکل وصورت اورفنکارانہ صلاحیتوں سے بھی مالامال تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ڈرامے آج بھی بھارت کی پونا اکیڈمی میں دکھائے جاتے ہیں۔ پاکستان میں توان کے پرستاربڑی تعداد میں بستے ہی ہیں لیکن بھارت میں بھی ان کے چاہنے والوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ اپنے عروج کے دورمیں ان گنت کردار نبھانے والی روحی بانو کی فنی زندگی تو بہت بھرپور رہی لیکن نجی زندگی بہت ہی دکھ اورتکلیفوں میں گھری ہوئی تھی۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ ٹیلی ویژن پرمنفردکردارنبھانے والی سمجھدار اداکارہ کی نجی زندگی کن مسائل سے دوچارہے؟۔ بظاہرتووہ ہنستی مسکراتی دکھائی دیتیں اوراپنی فنکارانہ صلاحیتوں کی بدولت کسی کویہ شک بھی نہ ہونے دیتیں کہ وہ کس بات پرپریشان ہیں اورخود بہت ہی ہمت اورحوصلے کے ساتھ پریشانیوںکا مقابلہ کرتی رہیں۔ شادی ہوئی اوراس کے بعدبیٹے علی کی پیدائش بھی ہوئی لیکن شادی شدہ زندگی بھی لمبی نہ چل سکی اورروحی بانو کوتنہا ہی زندگی کے کٹھن سفر پرآگے بڑھنا پڑا۔ مگراس سفرمیں ان کا ہمسفربیٹا علی بنا، جوماں کا اکلوتا اورلاڈلہ تھا۔

جیون ساتھی کا ساتھ توچھوٹا لیکن اس باہمت اداکارہ کے پاس علی کا سہارا موجود تھا لیکن ایک دن جب اس کے قتل ہونے کی خبرملی توپہلے ہی اندرسے ٹوٹی ہوئی روحی بانو مکمل طورپربکھر گئیں۔ جوان بیٹے کی موت نے جہاں ان کی زندگی میں قیامت برپا کی وہیں وہ اپنا ذہنی توازن بھی کھوبیٹھیں۔ پھرکیا تھا روحی بانو تھیں اورگلبرگ میں واقع ان کا گھر۔ نہ دن کا پتہ اورنہ رات کی خبر، وہ دیوانوں کی طرح سڑکوں پرگھومتی دکھائی دینے لگیں۔ ٹی وی پرگلیمرس رول ادا کرنے والی روحی بانو موسم کی شدت کا احساس بھی بھول چکی تھیں، سخت گرمی میں ننگے پاؤں تپتی سڑکوں پرگھومتی نظرآتیں، کبھی سردیوں کی شاموں میں جہاں لوگ اپنے آپ کومحفوظ کرنے کیلئے ہیٹرکے گرد بیٹھتے وہ شدید سردی میں کھلے آسماں تلے دکھائی دیتیں، اگرکوئی پاس آکرپوچھتا تووہ فوری گھبرا جاتیں اوراس شخص سے دوربھاگتیں۔

پہلے پہل تولوگوںکوان پرترس بھی آتا لیکن پھرایسا ہوا کہ لوگوں نے ان کا مذاق اُڑانا شروع کردیا۔ کوئی ان پرآوازیں کستا توکوئی ڈوپٹہ کھینچ لیتا، بس یہ توزمانے کی ستم ظریفی ہی تھی کہ کل تک جس اداکارہ کی جھلک دیکھنے کولوگ ترستے تھے، اس کوقریب پاکراس کے ساتھ بدتمیزی شروع کردیتے۔ روحی بانو کی زندگی کے کئی برس اسی طرح گزرے اورپھر ان کا مسکن لاہورکا فاؤنٹین ہاؤس بنا۔ یہ ایک نئی زندگی تھی جہاں ذہنی امراض میں مبتلا لوگ علاج کیلئے آتے تھے ، انہی میں ایک اضافہ روحی بانو کی شکل میں ہوا اورانہوں نے اپنی زندگی کے بہت سا عرصہ یہاں بھی گزارا۔ اس جگہ ڈریس ڈیزائنربی جی اورشی میل ایسوسی ایشن کے سربراہ عاشی بٹ بھی ان کی خیریت دریافت کرنے کیلئے آتی جاتیں۔

صدارتی ایوارڈ یافتہ اداکار ہ روحی بانو کے حوالے سے فاؤنٹین ہاؤس میں ’’روحی بانو کی کہانی روحی بانو کی زبانی‘‘کے عنوان سے ایک تقریب منعقد ہوئی جس میں اداکارہ روحی بانو نے شوبز میں آنے اور پھر دلبرداشتہ ہوکر چھوڑ جانے کے حوالے سے ایک خصوصی اسٹیج ڈرامہ پیش کیا جس کا مرکزی کردار بھی انہوں نے خود ہی ادا کیا۔ تقریب کے شرکاء طویل عرصہ بعد انہیں پرفارم کرتے ہوئے دیکھ کر زور دار تالیوں سے ان کی پرفارمنس پر داد دے رہے تھے۔ دوسری طرف بیٹے کے غم میں ذہنی توازن کھودینے والی روحی بانوکوایسی زندگی سے آزادی دلانے کیلئے ڈریس ڈیزائنر بی جی نے کچھ کوشش کی اورانہیں فاؤنٹین ہاؤس سے بلا کراپنے پاس رکھا، جہاں ان کو نئے لباس کے ساتھ انہیں خوب سجایا سنوارا۔ یہ سب دیکھ کرروحی بانو کے اداس چہرے پرمسکراہٹ دکھائی دی اوریوں محسوس ہونے لگا کہ شاید وہ دوبارہ زندگی کی جانب لوٹ رہی ہیں۔

ان کی سوشل میڈیا پرآنیوالی تصاویر کودیکھنے کے بعد کچھ نجی چینلز نے ان کی شخصیت کوکیش کرانے کیلئے پروگرام ترتیب دیئے اورپھرکچھ انعامات کااعلان بھی ہوا لیکن عملی طورپرکچھ نہ ہوسکا ۔ روحی بانو جووقتی طورپر ٹھیک محسوس ہورہی تھیں پھردوبارہ ان کی ذہنی حالت بگڑنے لگی اور انہیں فاؤنٹین ہاؤس میں داخل کرادیا گیا۔ یہ سلسلہ ان کی زندگی میں چلتا رہا مگرفنون لطیفہ کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والوں نے اپنی ساتھی اداکارہ کوزندگی میں واپس لانے کیلئے کسی قسم کی کاوش نہ کی۔ نہ کسی نے ان کی خیرخبرلی۔ دوسری جانب روحی بانو کا گلبرگ میں واقع کروڑوں روپے مالیت کاگھرتھا، جس پرقبضہ کیلئے کچھ لوگوں نے کارروائیاں شروع کردی تھیں۔

اسی دوران ان پرگزشتہ برس ایک قاتلانہ حملہ بھی ہوا، جس کی رپورٹ متعلقہ تھانے میں درج کروائی گئی اوراس کے بعد روحی بانو کہیں غائب ہوگئیں۔ میڈیا کے پاس نہ کوئی اطلاع تھی اورنہ ہی کوئی رابطہ لیکن پھراچانک ایک دن اطلاع ملی کہ روحی بانو کا ترکی میں انتقال ہوگیا۔روحی بانو کی موت کی خبرجنگل کی آگ کی طرح سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا بھرمیں پھیل گئی۔ کسی نے ان کی اداکاری کی تعریف کی توکسی نے ان کی پرکشش شخصیت کی، دوسری جانب نیوز چینلز پروہ سب فنکارتعریف کرتے دکھائی دیئے جوکبھی ان کی خیریت دریافت کرنے کیلئے بھی ان کے پاس نہیں گئے تھے۔ بیٹے کی موت توایک حادثہ تھی لیکن اصل میں توساتھی فنکاروں اورقریبی عزیزواقارب کی بے رخی اوربے حسی نے انہیں بیمار بنایا تھا۔ جس کے بارے میں وہ اکثرکہتی سنائی دیتی تھیں۔

روحی بانو کی موت کی اطلاع بہن روبینہ یاسمین نے میڈیا کودی اوربتایا کہ وہ گردوں کے مرض میں مبتلا ہونے کی وجہ سے گذشتہ 10 روز سے وینٹی لیٹر پر تھیں اوراچانک طبیعت بگڑجانے کے بعد وہ دنیائے فانی سے چل بسیں۔ انہوں نے بتایا کہ روحی بانو گردوں کے عارضے میں مبتلا اور طویل عرصے سے نفسیاتی مسائل کا بھی شکار تھیں۔ ابھی میڈیا روحی بانو کے انتقال کے حوالے سے سامنے آنے والی خبروںکو نشر کررہا تھا کہ رات کوپتہ چلا کہ ان کی بہن نے انہیں فوری طورپراستنبول کے مقامی قبرستان میں امانتاً سپردخاک کردیا ہے۔ یہ سب کیلئے بہت ہی سرپرائزنگ بات تھی اورجب بہن سے رابطہ کیاگیاتوانہوں نے یہ موقف اپنایا کہ ڈاکٹروں نے انہیں فوری دفن کرنے کا مشورہ دیا تھا، جس کے بعد ہم کچھ نہیں کرسکتے تھے ، حالانکہ ہم چاہتے ہیں کہ روحی کی تدفین لاہورمیں بیٹے علی کے پہلومیں کی جائے۔

اس سلسلہ میں انہوں نے میڈیا کے ذریعے حکومت پاکستان سے اپیل کی کہ روحی کی میت کوپاکستان لیجانے کیلئے اقدامات کئے جائیں۔ جس پرپاکستانی سفارتخانے نے کاغذی کارروائی پرکام شروع کردیا ہے لیکن دوسری طرف ڈریس ڈیزائنربی جی اورشی میل ایسوسی ایشن کی عاشی بٹ کا کہنا ہے کہ فاؤنٹین ہاؤس میں زیرعلاج رہنے کے دوران ہم مسلسل ان سے رابطے میں تھے اورانہیں ذہنی امراض کے علاوہ کچھ اورنہ تھا لیکن اچانک سے روحی بانو کا ترکی جانا اورگردوں کے مرض میں مبتلا ہونا ہماری سمجھ سے بالا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس حوالے سے حکومت روحی بانو کا پوسٹ مارٹم کروائے ، تاکہ اصل حقائق سامنے آئیں۔ کیونکہ روحی بانو ہماری بہت ہی عزیز اداکارہ تھیں، ان کی وفات سے ہمیں دلی صدمہ پہنچا ہے۔ ایک نہ ایک دن ہم سب کواس دنیا سے جانا ہے لیکن جس طرح سے روحی بانو نے دکھ تکلیف کے ساتھ زندگی بسر کی اوراچانک ان کی موت ہوئی اس پرہم افسوس کرنے کے ساتھ یہ سوچنے پرمجبورہیں کہ کہیں انہیں جائیداد کیلئے تونہیں مارا گیا، اس لئے حکومت پاکستان ایک ناموراداکارہ کی موت کی تحقیقات کرے اورحقائق سب کے سامنے لائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔