ایک ہی راستہ

شکیل فاروقی  منگل 5 فروری 2019
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

بینک دولت پاکستان نے ملکی معیشت پر مالی سال 2019 کی پہلی سہ ماہی سے متعلق جو رپورٹ جاری کی ہے وہ خاصی تشویشناک ہے۔ اس رپورٹ کے مندرجات چشم کشا ہیں ۔ اس رپورٹ سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ صنعتوں کی نمو 7 سال میں پہلی مرتبہ کم ریکارڈ کی گئی ہے ، جس کا مطلب یہ ہوا کہ حکومت سال رواں کے دوران معاشی ترقی کا ہدف حاصل نہیں کرسکے گی۔

رپورٹ کے مطابق 2019 کی پہلی سہ ماہی کے دوران معاشی ماحول بہت نامساعد رہا ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ملک میں آنے والی سیاسی تبدیلی کی وجہ سے بیرونی ادائیگیوں کو غیر یقینی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا جب کہ نئی حکومت نے درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ترقیاتی اخراجات میں کٹوتی کردی۔ رپورٹ میں یہ بات قابل غور ہے کہ اس وقت صنعتوں کی نمو کو 7 سال میں پہلی مرتبہ پیش رفت میں تعطل کا مسئلہ درپیش ہے۔ اس حقیقت سے بھلا کون انکار کرسکتا ہے کہ آج کے مشینی دور میں صنعتیں کسی بھی ملک کی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتی ہیں۔ صنعتوں کا پھلنا پھولنا معاشی ترقی اور استحکام کا مظہر ہوتا ہے جب کہ صنعتوں کے پہیے کی سست روی معاشی ابتری کی علامت سمجھی جاتی ہے۔

سات سال کے عرصے میں پہلی مرتبہ صنعتی ترقی کے عمل میں سست روی کا ظاہر ہونا صرف حکومت ہی کے لیے نہیں بلکہ صنعتی و تاجر برادری اور پوری قوم کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ تاہم حکومتی سطح پر ابھی تک کوئی ایسا قابل عمل اقدام ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا جو ملک کی معیشت کا رخ درست کرکے اسے استحکام کی راہ پر گامزن کرسکے۔ اقتدار سنبھالنے کے محض چند ماہ بعد ہی حکومت کی جانب سے منی بجٹ کا پیش کیا جانا، اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ معیشت پر حکومت کی گرفت مضبوط نہیں۔

اگرچہ حکومت نے منی بجٹ کے ذریعے صنعتوں کو کچھ ریلیف دینے کی کوشش کی ہے تاہم صنعتی ماحول کو سازگار بنانے کے لیے مزید ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے ۔ وطن عزیز اس وقت ایک کٹھن دوراہے پر کھڑا ہے جسے معاشی بحران سے نکالنا ازحد ضروری ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ معاشی ابتری مزید تاخیر کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ اگر فوری طور پر ٹھوس عملی اقدامات کے ذریعے معیشت کو سہارا نہیں دیا گیا تو حالات کی خرابی کی رفتار اس قدر تیز ہوجائے گی کہ پھر کوئی بھی اقدام اسے سہارا نہیں دے سکے گا۔ صاف ظاہر ہے کہ معاشی ابتری اس سطح پر پہنچ چکی ہے کہ بلاتفریق ملک کا ہر طبقہ اس کے نتائج بھگت رہا ہے۔

تلخ معاشی حقائق یہ ہیں کہ صنعتیں مسلسل زوال کا شکار ہیں اور کاروبار ٹھپ ہوکر رہ گیا ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ صنعت سے ملک کی افرادی قوت کا بہت بڑا حصہ روزگارکے مواقعے حاصل کرتا ہے جب کہ بے روزگاری کا مسئلہ پہلے ہی بہت سنگین ہے۔ شدید بد انتظامی اور گیس و بجلی کی قلت جیسے مسائل نے صنعتوں کی بقا کو خطرات سے دوچار کردیا ہے۔ درآمدات اور برآمدات کی خلیج وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وسیع سے وسیع تر ہوتی جا رہی ہے جس کے نتیجے میں تجارتی عدم توازن تشویشناک حد تک بڑھ چکا ہے۔ گرانی کا گراف روز بروز بلند سے بلند تر ہوتا جا رہا ہے اور مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ بقول شاعر:

یہ گھڑی محشر کی ہے تو عرصۂ محشر میں ہے

پیش کر غافل اگر کوئی عمل دفتر میں ہے

یہ انتہائی گمبھیر صورتحال وزیر اعظم عمران خان اور ان کی ٹیم کی صلاحیت اور اہلیت کا سب سے بڑا امتحان ہے۔ یہ امر خوش آیند ہے کہ دوست ممالک کی جانب سے مشکل کی اس گھڑی میں پاکستان اور اس کی نئی حکومت کے حق میں دست تعاون دراز کیا گیا ہے جس سے اس حقیقت کی تائید ہوتی ہے کہ:

دوست آں باشد کہ گیرد دستِ دوست

در پریشاں حالی و در ماندگی

بلاشبہ ان دوست ممالک بشمول سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر اور چین نے آزمائش کی گھڑی میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے اور آسان شرائط پر قرضے فراہم کرنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ اس کے علاوہ اسلامی ترقیاتی بینک نے بھی پاکستان کو تین سال کے لیے ادھار تیل دینے کا فیصلہ کرکے اس کی بروقت مدد کی ہے۔ جس کی پہلی کھیپ موصول بھی ہوچکی ہے۔ سنگین بحران کے اس دور میں دوست ممالک کی جانب سے دیے جانے والے قرضے بلاشبہ قابل قدر ہیں۔ دوست ممالک اور اسلامی بینک کی جانب سے گراں قدر تعاون اور سستے قرضوں کی بروقت فراہمی نئی حکومت کی سفارتی کامیابی ہے مگر یہ بات یاد رہے کہ وطن عزیز کو ایک نہ ایک دن ان قرضوں کی واپسی بھی کرنا ہے۔

یہ امر بھی ملحوظ خاطر رہے کہ اگر حکومت کی جانب سے معاشی استحکام کی بنیاد نہیں رکھی گئی تو ملک کے مزید قرضوں کی دلدل میں دھنس جانے کا خطرہ لاحق رہے گا۔ چنانچہ حکومت کے لیے مزید کسی غلطی کی گنجائش باقی نہیں ہے۔ معاشی استحکام کے لیے سیاسی استحکام ناگزیر ہے۔ مگر بدقسمتی سے اس کا احساس نہ تو حزب اقتدار کو ہے اور نہ ہی حزب اختلاف کو۔ دونوں جانب سے ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی اور محاذ آرائی کا سلسلہ نہ صرف جاری ہے بلکہ اس میں کمی واقع ہونے کے بجائے روز بروز اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ قومی اور ملکی مفاد کا تقاضا ہے کہ سیاسی درجہ حرارت کو بڑھنے سے روکا جائے اور تمام تر توانائیاں ملکی تعمیر و ترقی کے لیے بروئے کار لائی جائیں۔ اس کے لیے سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ حکمراں قیادت صبر و تحمل کا زیادہ سے زیادہ مظاہرہ کرے اور عملی طور پر سیاسی بلوغت کا ثبوت دے۔

اس مثبت رویے کا آغاز حکومتی صفوں کی جانب سے کیا جانا چاہیے۔ مگر بدقسمتی سے ایسا ابھی تک نہیں ہوسکا۔ ہو یہ رہا ہے کہ حکومت میں شامل بعض وزرا کی جانب سے آئے دن ایسے بیانات دیے جا رہے ہیں جن سے مشتعل ہوکر حزب اختلاف کی جانب سے جواب آں غزل کے مصداق شدید بیانات داغے جا رہے ہیں۔ دریں اثناء یہ امر لائق تحسین ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے وفاقی کابینہ کے حالیہ اجلاس میں وزرا کو نئی ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ملک کی اقتصادی صورتحال پر عوام کو حقائق بتائیں۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ہر وزیر معاشی صورتحال پر بریف ہوکر میڈیا میں جائے۔ انھوں نے کہا کہ وزرا میڈیا پر گھسی پٹی بات نہ کریں، حقائق عوام کے سامنے رکھیں۔ وزیر اعظم نے وزرا سے کہا کہ اب آپ حکومت میں ہیں، اپوزیشن میں نہیں۔ حقائق کے ساتھ بات کریں۔

ملک کی معیشت کی پٹری سے اتری ہوئی گاڑی کو دوبارہ پٹری پر ڈالنے کے لیے نئی حکومت کی جانب سے کی جانے والی کوششیں لائق تحسین ہیں۔ اس سلسلے کا تازہ ترین اقدام ’’پاکستان بناؤ سرٹیفکیٹ‘‘ کا تازہ ترین اجرا ہے۔ وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کی جانب سے جاری کردہ پاکستان بناؤ سرٹیفکیٹ کے تحت بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو سرمایہ کاری کا بہترین موقع فراہم کیا گیا ہے جس سے ملک کے لیے زرمبادلہ میں بھی اضافہ ہوگا۔ وزیر اعظم عمران خان کا یہ کہنا بھی بجا ہے کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے سے ملک کے عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوتا جب کہ اوور سیز پاکستانیوں سے گزارش ہے کہ وہ عارضی بحران پر قابو پانے کے لیے پاکستانی بینکوں کے ذریعے پیسے ملک میں بھیجیں۔

ان کا یہ کہنا بھی بجا ہے کہ اوور سیز پاکستانی جتنے پیسے بھیجیں گے یہ ملک اتنا ہی تیزی سے ترقی کرے گا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ کا یہ سب سے مشکل وقت ہے۔ ان حالات میں آئی ایم ایف کے پاس جانا آسان راستہ تھا لیکن ان کی شرائط کڑی تھیں جس سے مہنگائی مزید بڑھتی۔ وقت اور حالات کا تقاضا ہے کہ معیشت کی کشتی کو منجدھار سے نکالنے کے لیے بلاتاخیر ایک موثر اور جامع حکمت عملی ترتیب دی جائے جس کے لیے سیاسی استحکام شرط اول ہے۔ حکومت اگر ملک کو موجودہ بحران سے نکالنے میں واقعی مخلص اور سنجیدہ ہے تو اسے سیاسی بے یقینی کو ختم کرنے کے لیے عملی طور پر سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ملک کی بقا اور ترقی کا بس یہی ایک راستہ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔