چور مچائے شور

شرجیل انعام میمن  جمعرات 23 اگست 2012
شرجیل انعام میمن

شرجیل انعام میمن

صحافت کا لفظ صحیفے سے نکلا ہے اسی لیے صحافت ہمیشہ مقدس پیشہ رہا ہے کیونکہ صحیفے آسمانوں سے نازل ہوتے تھے۔ پیشہ صحافت سے منسلک لوگ اپنے قلم کی عصمت کو داغدار ہونے سے بچانے کے لیے ہر قسم کی مشکلات اور صعوبتیں برداشت کیا کرتے تھے لیکن پھر اس پیشے میں قلم سے ازار بند ڈالنے والوں کی آمد شروع ہوئی۔ قلم فروشوں نے یہ بھلا دیا کہ قرآن پاک کی سورۂ القلم میں قلم کی قسم کھائی گئی ہے، انھوں نے صحافت کو منافقت، منافرت، منفعت اور تہمت طرازی کا کاروبار بنا دیا۔ کسی زمانے میں کالم نگار حضرات قومی مسائل کا تجزیہ کرکے ارباب اختیار کو حل تجویز کیا کرتے تھے آج کئی کالم نگار اپنی تشنہ آرزوئوں کی تکمیل کے لیے جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنا کر پیش کرتے ہیں۔

ایسا ہی ایک کالم عید الفطر کے دن مورخہ 20اگست 2012 کو مقامی اخبار میں ’’چلتے چلتے‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ بھارتی فلم پاکیزہ کے ایک گانے سے اپنے کالم کا نام تلاش کرکے پاکستان میں سچائی کا علم بلند کرنے کے دعویدار کالم نویس شاہین صہبائی کے اس آرٹیکل میں کئی تضادات موجود ہیں۔ یہ کالم کم اور موصوف کے ذہنی خلفشار کا نمونہ زیادہ ہے۔ حضرت نے اپنے کالم کے آخر میں ایک فہرست دی ہے اور کچھ نامعلوم اداروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس فہرست میں شامل لوگوں کو پاکستان سے بھاگنے نہ دیا جائے بلکہ ان سے پوچھا جائے کہ پچھلے پانچ سال میں کس کس نے کہاں کہاں کرپشن کی کیونکہ فہرست میں شامل لوگ پانچ سال تک بہت اہم کردار ادا کرتے رہے۔ اس فہرست میں صدر آصف علی زرداری کے سیکریٹری سلمان فاروقی کا نام، یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف سے پہلے شامل کیا گیا ہے۔

شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ سلمان فاروقی کے پاس موصوف کے بارے میں ایک بڑی دلچسپ کہانی موجود ہے اور اس کہانی کا ایک دلچسپ موڑ وہ دن تھا جب موصوف ایوان صدر میں سلمان فاروقی کے پاس کافی دیر تک بیٹھے رہے لیکن اپنے دل کی مراد پوری نہ ہونے پر وہاں سے مایوس واپس آئے۔ اس فہرست کا اعلان کرتے ہوئے وہ بھول گئے کہ پاکستان میں ایک خود مختارعدلیہ موجود ہے اور فہرست میں موجود کئی حضرات پاکستان کی عدالتوں میں اپنے خلاف الزامات کا سامنا کرچکے ہیں۔

شاید یہی وجہ تھی کہ مذکورہ صحافی نے اپنے کالم کی ابتدا میں واضح کردیا کہ وہ جن لوگوں کے نام لینے جارہے ہیں ان لوگوں کے خلاف ابھی کوئی الزام نہیں ہے اور اگر کچھ لوگوں کے خلاف ہے بھی تو وہ کسی عدالت میں ثابت نہیں ہوا ہے یعنی یہ لوگ ابھی تک بے قصور ہیں۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ کالم کے آغاز میں قارئین کو بتایا گیا کہ وہ ایک ایسی فہرست بیان کرنے والے ہیں جس میں سب بے قصور شامل ہیں۔ آگے چل کر کہتے ہیں کہ میں نے فہرست میں جو نام شامل کیے ہیں ان لوگوں کو کم از کم ایک بار پوری تفتیش کے لیے ضرور بلانا چاہیے۔ آخر میں جاکر کہا کہ یہی لوگ بتائیںگے کہ اوگرا میں 83 ارب روپے کس نے لوٹے؟

ذرا سوچیے اور غور کیجیے! ایک صحافی پہلے خود ہی کچھ لوگوں کو بے قصور قرار دیتا ہے لیکن پھر کہتا ہے کہ ان سب کو پکڑلو اور ان سے پچھلے پانچ سال کی کرپشن کا حساب لو۔ یہ کہاں کی صحافت ہے؟ یہ کون سی صحافت ہے؟ موصوف نے ’’چلتے چلتے‘‘ بھارتی فلم پاکیزہ کے ایک اور گانے کا ذکر کیا ہے جس میں فلم کی ہیروئن نے کہا تھا ’’ان ہی لوگوں نے لے لیا دوپٹہ میرا‘‘۔ ذرا اس صحافی کے ماضی پر نظر ڈالیں اور دیکھیں کہ انھوں نے پاکستانی صحافت کے سر سے صرف ایک دوپٹہ نہیں اتارا بلکہ اپنے قلم کو خنجر بنا کر صحافت کے بدن پر موجود تمام کپڑوں کو تار تار کرنے کی کئی مرتبہ کوشش کی۔

موصوف کی حق پرستی کا یہ عالم ہے کہ جنرل پرویز مشروف کے دور میں ایک خاندانی جھگڑے کے باعث وہ پاکستان سے امریکا بھاگ گئے تھے۔ امریکا میں ان کے ایک بہت پرانے دوست منصور اعجاز موجود تھے جن کے ساتھ مل کر انھوں نے آسمان صحافت سے کئی تارے توڑنے کی کوشش کی۔ انھوں نے سائوتھ ایشیا ٹریبیون کے نام سے ایک ویب میگزین جاری کیا لیکن اسے جاری نہ رکھ سکے کیونکہ امریکا میں بیٹھ کر پاکستان کے اہل سیاست و صحافت کی پگڑیاں امریکا میں اچھالنا مشکل ہے البتہ پاکستانی میڈیا میں یہ کام آسان تھا۔ موصوف نے اپنا ویب پیپر بند کیا اور ایک انگریزی اخبار کے گروپ ایڈیٹر بن گئے۔

مشرف دور میں یہ صاحب امریکا میں بیٹھے رہے۔ 2008 کے انتخابات کے بعد پاکستان آگئے اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرپرسن جناب آصف علی زرداری کو بتایا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے درمیان جس میثاق جمہوریت پر دستخط ہوئے تھے اس کا خاکہ کسی اور نے نہیں بلکہ میں نے تیار کیا تھا۔ جناب آصف علی زرداری کو موصوف کے اس کارنامے سے کوئی آگاہی نہیں تھی کیونکہ ان کے سامنے لندن میں 2006 میں میثاق جمہوریت کا ڈرافٹ محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نے رضا ربانی، صفدر عباسی، احسن اقبال اور اسحاق ڈار کی مدد سے تیار کیا تھا۔

اسلام آباد میں آصف علی زرداری کے ساتھ ان کی ملاقاتوں کا کوئی نتیجہ نہ نکلا لہٰذا موصوف واپس امریکا چلے گئے اور پھر انھوں نے صدر آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف پروپیگنڈے کا ایک طوفان کھڑا کرنے کی کوشش کی۔ آج ہم آپ کو ان کی ماضی کی کچھ تحریروں کی جھلکیاں دکھاتے ہیں۔ خود فیصلہ کیجیے کہ ان صاحب نے کتنا سچ لکھا اور کتنا جھوٹ لکھا؟

6 اگست 2010 کو موصوف صحافی نے اپنے اخبار میں لکھا کہ ایوان صدر اور جی ایچ کیو میں سرد جنگ شروع ہوچکی ہے اور حکومت کی رخصتی قریب ہے۔ 17 ستمبر 2010 کو انھوں نے اپنے تخیل کی پرواز سے حکومت کی تبدیلی کا ایک روڈ میپ دیا اور لکھا کہ ایم کیو ایم حکومت چھوڑ دے گی، مسلم لیگ (ن) حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائے گی، صدر کا مواخذہ ہوگا، سپریم کورٹ وزیر اعظم کو نااہل کردے گی اور پھر ملک بچانے کے لیے فوری تبدیلی لائی جائے گی۔

وہ اپنی تحریروں میں مسلسل فوج اور عدلیہ کو سیاست میں مداخلت کے لیے اکساتے رہے لیکن جب ان کے خوابوں کی کوئی تعبیر سامنے نہ آئی تو 4 فروری 2011 کو انھوں نے صدر آصف علی زرداری کی امریکا میں مقیم ایک خاتون سے خفیہ شادی کی بے بنیاد کہانی میں اپنی مرضی کے رنگ بھرنے کی ناکام کوشش کی۔ 25 جولائی 2011 کو موصوف نے قوم کو خبر دی کہ اسلام آباد میں 20 صاف ستھرے لوگوں کو اکٹھا کیا گیا ہے اور ٹیکنوکریٹس کی حکومت کا ظہور بہت قریب ہے۔ 25 ستمبر 2011 کو اپنے اخبار میں انھوں نے دعویٰ کیا کہ فوج حکومت کے خلاف حرکت میں آچکی ہے۔

8 دسمبر 2011 کو ان کے قلم کی جولانیاں اپنے عروج پر تھیں کیونکہ صدر آصف علی زرداری بیماری کے باعث دبئی کے ایک اسپتال میں داخل تھے۔ ان صاحب نے لکھا کہ بیمار زرداری کو گھیرا ڈال دیا گیا ہے اور اب وہ پاکستان واپس نہیں آئیں گے۔ لیکن صدر آصف علی زرداری پاکستان واپس آگئے۔ فوج نے کوئی بغاوت نہیں کی۔ یوسف رضا گیلانی کے خلاف عدالت کے فیصلے کو تسلیم کیا گیا اور اداروں میں تصادم کی سازش ناکام بنا دی گئی۔ 25 جولائی 2012 کو انھوں نے درفنطنی چھوڑی کہ صدر زرداری موجودہ اسمبلیوں سے خود کو دوبارہ منتخب کروائیں گے۔ حکومت نے اس افواہ کی بھی تردید کردی۔

اب وہ کچھ نامعلوم اداروں سے کہہ رہے ہیں کہ انتخابات سے پہلے پہلے 29 افراد کو پکڑ لیا جائے۔ پچھلے دو سال کے دوران ان کے قلم سے نکلنے والی کوئی خبر اور تجزیہ سچ ثابت نہیں ہوا۔ پاکستان میں کرپشن ضرور ہوتی ہے لیکن اسے بے نقاب کرنے کے لیے امریکا میں بیٹھ کر جہاد مناسب نہیں۔ آپ پاکستان آئیے اور یہاں آکر بھارتی فلمی گانوں کی دھنوں پر ناچیے۔ آخر میں ایک شعر عرض ہے

کچھ لوگ جو سوار ہیں کاغذ کی نائو پر
تہمت تراشتے ہیں ہوا کے دبائو پر

(مضمون نگار سندھ کے وزیر اطلاعات ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔