مناسب امیدوار کی تلاش

نصرت جاوید  بدھ 24 جولائی 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ پاکستان میں جب بھی کسی آرمی چیف کو ریٹائر ہونا ہوتا ہے تو وقتِ معینہ سے کئی ماہ پہلے ہمارے صحافی اس عہدے کے لیے ’’سب سے مناسب امیدوار‘‘ کی تلاش میں کیوں مصروف ہوجاتے ہیں۔ صحافت کو اپنا پیشہ بنانے کے بعد میں نے جنرل اسلم بیگ کی ریٹائرمنٹ سے لے کر جہانگیر کرامت کی تعیناتی تک اس ضمن میں ہونے والی ’’ہل جل‘‘ کو بہت قریب سے دیکھا۔ سب سے زیادہ افراتفری 1991ء میں دیکھنا پڑی جب بیگ صاحب کو ریٹائر ہونا تھا۔ موصوف کو بڑا زعم تھا کہ ضیاء الحق کی حادثاتی موت کے بعد انھوں نے مارشل لاء نہ لگاکر ہم لوگوں پر بہت احسان کیا تھا۔ 1988ء میں انتخابات ہوئے تو محترمہ بے نظیر بھٹو کو اکثریت مل گئی۔ انھوں نے اس بات کو بڑی مشکل سے ہضم کیا۔ محترمہ کو اقتدار سونپنے سے پہلے کئی شرائط منوائیں۔ جن میں سب سے اہم غلام اسحاق خان کا بطور صدرِ پاکستان باقاعدہ انتخاب بھی شامل تھا۔

محترمہ نے ’’بابائے جمہوریت‘‘ نوابزادہ نصراللہ خان کو نظرانداز کرتے ہوئے یہ کڑوی گولی بھی نگل لی۔ مگر اس کے جواب میں غلام اسحاق اور بیگ صاحب نے یکجا ہوکر وزیر اعظم کو بے بس بنانے کے ہر ہتھکنڈے استعمال کیے۔ حتیٰ کہ ان کے وزیر اعظم بن جانے کے صرف چند ماہ بعد ان کے خلاف ایک تحریکِ عدم اعتماد بھی پیش کردی گئی۔ چوہدری نثار علی خان نے مجھے ایک آن دی ریکارڈ انٹرویو میں خود بتایا تھا کہ اس تحریکِ عدم اعتماد کو کامیاب کروانے کے لیے ایک خاص جماعت کی حمایت ان کے لیے بیگ صاحب نے میسر فرمائی تھی۔ پھر 6اگست1990ء کے دن محترمہ کی پہلی حکومت کو کرپشن وغیرہ کے الزامات لگاکر گھر بھیج دیا گیا۔

اب تو سپریم کورٹ بھی یہ طے کر چکا ہے کہ 1990ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کی شکست کو یقینی بنوانے کے لیے اسلم بیگ نے IJIبنوائی تھی۔ وہ ’’جیت‘‘ گئی تو بیگ صاحب غلام مصطفیٰ جتوئی مرحوم کو وزیر اعظم بنوانے پر بضد ہوگئے۔ غلام اسحاق خان نے مگر ان کا ساتھ نہ دیا۔ نواز شریف کے خلاف ایک حوالے سے تقریباََ اعلانیہ مزاحمت فرمانے کے باوجود وہ اپنے عہدے میں توسیع کے خواب دیکھتے رہے۔ وہ پورے ہوتے نظر نہ آئے تو عراق کے کویت پر قبضے کے بعد ہونے والے امریکی حملے کے خلاف ’’انقلابی بیانات‘‘ دینا شروع ہوگئے۔

سیاستدانوں میں موجود ان کے حواریوں نے بھی نواز شریف کے ’’امریکا نواز‘‘ رویے کی مذمت شروع کردی اور تاثر کچھ اس طرح کا اُبھرنا شروع ہوگیا کہ اس وقت کے وزیر اعظم کی کسی بھی وقت چھٹی کروائی جاسکتی ہے۔ اس تاثر کو دور کرنے کے لیے نواز شریف کے ان دنوں والے پانچ پیارے وزیر کسی زبردست چال کی تلاش میں مصروف ہوگئے۔ ملک نعیم بھی ان وزراء میں سے ایک تھے اور ان سے میری بڑی دوستی تھی۔ زیادہ تفصیلات میں جائے بغیر بس اتنا کہنا کافی ہوگاکہ ملک نعیم کے پنجاب ہائوس کے ایک کمرے میں ،جوان دنوں F-7کے ایک گھر میں ہوا کرتا تھا۔بیگ صاحب کی ریٹائرمنٹ سے تین ماہ پہلے مرحوم آصف نواز جنجوعہ کو ان کا جانشین نامزد کروانے کا منصوبہ تیار ہوا اور بالآخر کامیاب بھی ہوگیا۔

آصف جنجوعہ مرحوم کے ساتھ بھی لیکن نواز شریف کے تعلقات زیادہ دیر تک خوش گوار نہ رہے۔ ان کا اچانک انتقال ہوگیا تو ایک بار پھر اسلام آباد کے سازشی ڈرائنگ روم اور ان سے وابستہ صحافی ’’نیا چیف بنانا‘‘ شروع ہوگئے۔ اس ضمن میں جنرل فرخ ان سب کے پسندیدہ ترین آدمی تھے۔ مگر اس وقت کے صدر نے انتخاب جنرل وحید کاکڑ کا کیا۔ جنرل وحید کی نامزدگی کی خبر سب سے پہلے مجھے جنرل مجیب مرحوم نے دی تھی۔ انھیں اس وقت کے چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل شمیم عالم نے اس سلسلے میں صلاح مشورے کے لیے بلایا تھا۔ مجھے جنرل مجیب مرحوم نے یہ بھی بتایا تھا کہ انھوں نے جنرل کاکڑ کا نام صرف اس لیے تجویز کیا تھا ’’کیونکہ میرے حساب سے غلام اسحاق ان جیسے شخص کو تعینات کرنا چاہتے تھے‘‘۔

یہ الگ بات ہے کہ آرمی چیف کا عہدہ سنبھالنے کے چند ہفتے بعد انھیں جنرل وحید کاکڑ نے صدر اسحاق اور نواز شریف سے استعفیٰ لے کر 1993ء میں نئے انتخابات کی راہ ہموار کردی جس کے نتیجے میں محترمہ دوبارہ اس ملک کی وزیر اعظم بنیں۔ ان کے دوسرے دور میں آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کا وقت قریب آیا تو اس وقت کے صدر اور ان کے پیارے صحافی جاوید اشرف قاضی کو نیا آرمی چیف بنوانا چاہ رہے تھے۔ وحید کاکڑ نے جہانگیر کرامت کی تعیناتی پر اصرار کیا اور بالآخر وہ اپنی بات منوانے میں کامیاب بھی رہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے بطور وزیر اعظم ان کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس بھرپور تعاون کے باوجود جہانگیر کرامت ان کی دوسری حکومت کی ’’فاروق بھائی‘‘ کے ہاتھوں برطرفی سے بچانے کے لیے کچھ بھی کہنے اور کرنے پر آمادہ نہ ہوئے۔

نواز شریف دوبارہ وزیر اعظم بنے تو جہانگیر کرامت کو استعفیٰ کیوں دینا پڑا۔ اس کی ساری کہانی بھی میں جانتا ہوں۔ مگر جن لوگوں کی وجہ سے یہ سب کچھ ہوا ان میں سے ایک صاحب آج کل نواز شریف کے بہت قریب ہیں۔ ان کا اپنا جہاز بھی ہے مگر نام ان کا میاں منشاء نہیں ہے۔ بہرحال جنرل مشرف کو نواز شریف نے بہت سوچ بچار کے بعد لگایا تھا۔ انجام مگر کیا ہوا۔ ہم سب جانتے ہیں۔

اصل بات یہ ہے کہ آرمی چیف، آرمی چیف ہوتا ہے۔کسی وزیر اعظم کا ’’بندہ‘‘ نہیں۔ کچھ حالات ہوتے ہیں جن میں آرمی چیف کو مجبوراََ وہی کچھ کرنا ہوتا ہے جو اس کا ادارہ چاہتا ہے۔ سیاستدانوں کو جرنیلوں میں ’’اپنا بندہ‘‘ ڈھونڈنے کے بجائے پوری توجہ اس امر پر مرکوز رکھنا چاہیے کہ ایسے حالات پیدا ہی نہ ہوں۔ اس کے علاوہ سب کہانیاں ہیں اور وقت کا زیاں۔ چلتے چلتے یہ بات بھی کہہ دوں کہ صحافی کسی آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کے قریبی دنوں میں شاید پنجابی محاورے کی بیوہ کی طرح ایک کونے میں دبکے بیٹھے رہیں۔

مگر راولپنڈی کے ’’اونترے منڈے‘‘ جو زیادہ تر ریٹائرڈ کرنیلوں اور بریگیڈئروں پر مشتمل ہوتے ہیں انھیں چین سے نہیں بیٹھنے دیتے۔ صحافی بھی ان سے تفصیلات لے کر ’’نیا چیف بنانا‘‘ شروع ہوجاتے ہیں۔ وہ جو کالم یا خبریں وغیرہ لکھتے ہیں ان میں ممکنہ ’’آرمی چیف‘‘ کی ساری ’’اچھائیاںاور برائیاں‘‘ گنوادی جاتی ہیں۔ ’’بلڈی سویلین‘‘ ایسی تفصیلات پڑھ کر اس صحافی کی فوج اور دفاعی امور کے بارے میں معلومات سے بڑے متاثر ہوتے ہیں۔ میں اب ایسی تفصیلات سے لوگوں کو متاثر کرنے کی خواہش سے محروم ہوکر ایک کونے میں بیٹھ گیا ہوں۔ نومبر تک خاموشی سے انتظار کروں گا۔ نیا آرمی چیف وہی ہوگا جو نواز شریف کے من کو بھائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔