اوپر والے اور نیچے والے

سعد اللہ جان برق  بدھ 6 فروری 2019
barq@email.com

[email protected]

ایک انڈین مزاحیہ ڈرامے کا ایک سین پیش خدمت ہے، ایک ماتحت پولیس افسر اپنے بڑے افسر کے بلاوے پر صبح سویرے حاضر ہو کر کہتا ہے،

ماتحت: کیا بات ہے سر۔ اتنے سویرے ۔ ابھی تو ’’اوپر والا‘‘ بھی دو تین گھنٹے کا الارم لگا کر سو رہا ہو گا۔

افسر: ہاں مگر ہم ’’اوپر والے‘‘ نہیں ’’نیچے والے‘‘ ہیں۔

اب اس ’’اوپروالے، نیچے والے‘‘سے آپ جو مطلب نکالنا چاہیں، نکال سکتے ہیں لیکن ہمارا مشورہ یہی ہے کہ اپنے ملک کی اونچ اور نیچ کو دھیان میں لا کر اس پر غور کیجیے ۔

ہم آئے روز پولیس یا اس سے جڑے ہوئے کچھ اور اداروں پر لعن طعن کرتے رہتے ہیں لیکن کیا واقعی اس قسم کے سانحات کے ذمے دار پولیس اہلکار یا وہ لوگ ہوتے ہیں جو ان میں براہ راست ملوث ہوتے ہیں، خدا لگتی کہیں کہ یہ لوگ بھی اتنے ذمے دار نہیں ہوتے اور اگر ہوتے ہیں تو صرف اتنے جتنا ان کے ہاتھ کا ’’ہتھیار‘‘ ہوتا ہے کیوں کہ یہ لوگ بھی اگرچہ بظاہر گوشت پوست کے انسان ہوتے ہیں لیکن اصل میں ہتھیار یامشین ہوتے ہیں جن کے ٹرائیگر یا بٹن پر ’’انگلی‘‘ کسی اور کی ہوتی ہے اور یہ ٹرائیگر یا بٹن ان کے ’’دماغ‘‘ میں فٹ کی ہوتی ہے جو ’’آواز یا حکم ‘‘ سے متحرک ہوتے ہیں۔

ہم کسی کے طرف دار نہیں ہیں بلکہ پولیس اور اس سے جڑے ہوئے ’’قانون نافذ‘‘ کرنے والوں سے ہم بھی اتنے شاکی اور چوٹ کھائے ہوئے ہیں جتنا کوئی اور ہو سکتا ہے، لیکن ہمیں بزرگوں نے سکھایا ہے کہ تلوار چلائو تو دوست یا عزیز کے لیے ۔ لیکن جب بات کرو تو صرف خدا کے لیے اور اسے حاضر ناظر جان کر کرو۔ اپنی بات کو واضح کرنے اور اوپر والوں، نیچے والوں کی پہچان کرنے کے لیے ہم ذرا تاریخ میں پیچھے کی صرف جائیں گے۔

’’پولیس‘‘ یونانی لفظ ہے بلکہ ہند آریائی کہیں تو زیادہ بہتر ہے کیوں کہ ایران میں بھی اس کا مطب وہی تھا جو یونان میں تھا۔ ’’شہر یا بستی‘‘ کو پہلے پہل پولیس کہا گیا تھا۔یونانی تحریروں میں پولیس کا یہی مفہوم ہے، ایتھنز سپارٹا، مقدونیہ سب پولیس تھے، اسی طرح ایران میں بھی کورش اپنے قبیلے پارسو (اکمیندے )کے نام پر جو شہر ’’پارساگرد‘‘ تھا اس کا نام ’’پر سٹی پولیس‘‘ کر دیا تھا ۔

شہر کے نام کی وجہ سے شہری انتظامیہ بھی پولیس سے موسوم ہوئی اور پھر آہستہ آہستہ شہری کا نام صرف امن و امان سے متعلق ادارے کا ہو گیا، یہ تو اس کا نام ہوا۔ کام مختلف ملکوں، حکومتوں اور مقتدروں نے اپنی اپنی ضرورت اور پسند کے لیے مختلف رہا، لیکن بنیادی مفہوم اس کا رہا تو وہی یعنی شہری انتظامیہ، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ جب حکمرانوں ہی نے خود کو ریاست، ملک، قوم قراردیا، پچیس فی صد عوامیہ کو کالانعام بنایا اور خود ہی سب کچھ ہو گئے تو اس ادارے کو بھی صرف اپنی حفاظت اپنے مفادات اور خواہشات کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا اور اپنے سب سے بڑے دشمن ’’عوامیہ‘‘ کے خلاف کھڑا کر دیا، مختلف ممالک اور ادوار میں پولیس کے اندر تبدیلیاں ہوتی رہیں اس کے لیے قوانین وضع ہوتے رہے، آخرکار برطانیہ کا دور حکمرانی آیا تو اس نے پولیس میں نئی ’’اصلاحات‘‘ کر کے دو اقسام کی پولیس بنائی، ایک اپنے وطن کے لیے جو واقعی پولیس تھی، لیکن اپنی مقبوضات کے لیے ایک الگ قسم کی پولیس اور اس کے قوانین بنائے جو پولیس پینل کوڈ وغیرہ بنائے گئے، وہ دکھانے کے دانت ہیں، عملی طور پر پولیس کی بنیاد ہی میں خرابی رکھ دی اور وہ بنیادی خرابی بہت زیادہ اوقات کار اور بہت کم بلکہ مفلسانہ مراعات۔ تاکہ پولیس اپنی محرومیوں اور مفلسی کی وجہ سے اپنے اختیارات کو اپنا ذریعہ آمدن بنائے اور اس میں حکومت کے لیے سراسر فائدہ ہی تھا کیوں کہ پولیس کے اس فرسٹریشن کا نشانہ عوام ہی ہوتے تھے اور عوام کون سے ان کے سگے تھے۔۔۔بلکہ ایک طرح سے غیر سگے پر غیر سگے یا سگ پرسگ چھوڑ دیے گئے،

انگریز چلے گئے لیکن صرف جسمانی طور پر۔ باقی ان کا سب کچھ یہیں رہ گیا۔ پھر یہاں حکومتوں کا تسلسل اسی کے جانشینوں، پیروکاروں اور ذہنی مریدوں ہی کا رہا جن کا واحد کام خود کو زیادہ سے زیادہ مقدس اور عوام کو زیادہ سے زیادہ بدحال بنانا رہا، چنانچہ کسی بھی ادارے میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں کی گئی اور خرابیاں جتنی ڈالی جا سکتی تھیں وہ ڈال دی گئیں، ہاں ایک تبدیلی البتہ آ گئی کہ اس قسم کے اداروں میں سب سے نچلے درجے کو ان تمام غلطیوں کا کوڑے دان بنایا گیا، جو حکم ران کرتے تھے اور کرتے ہیں، اب ہوتا یہ ہے کہ ’’اوپر‘‘ سے دبائو ڈال کر ’’ناپسندیدہ‘‘ عناصر کو ختم کرنے کا حکم آتا ہے لیکن اگر کسی بھول چوک میں نشانہ غلط ہو جاتا ہے یا بھانڈا پھوٹ جاتا ہے تو زنجیر کی اوپر والی کڑیاں نہایت معصومانہ راگ بجاتی ہیں، اور پھر کڑی در کڑی ہوتی ہوئی یہ ارتعاش آخری نچلی کڑیوں تک پہنچتی ہے، دو چار سپاہیوں یا ناپسندیدہ و بیکار مینڈھوں کو قربان کر دیا جاتا ہے، اوپر والے اوپر اور نیچے والے نیچے رہ جاتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔