نجی تعلیمی ادارے اور سپریم کورٹ

ڈاکٹر توصیف احمد خان  بدھ 6 فروری 2019
tauceeph@gmail.com

[email protected]

جامعہ کراچی کی ایک استاد سخت پریشان ہیں۔ ان کے بچے سوئٹزرلینڈکے جدید تعلیمی نظام سے منسلک اسکول میں زیر تعلیم ہیں۔ اس اسکول میں طلبہ کی تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارنے پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔

سوئٹزر لینڈ کے امتحانی طریقے کے مطابق انفارمیشن ٹیکنالوجی کی جدید تکنیک کو استعمال کیا جاتاہے۔ اس اسکول میں متوسط طبقے سے زیادہ امراء کے بچے زیر تعلیم ہیں جن کے بچوں کے پاس روزانہ خرچ کرنے والی رقم کا حساب رکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ نجی اسکول اپنی فیسوں میں ہر سال اضافہ کرتا ہے۔ عمومی طور پر اتنا اضافہ ہوتا ہے کہ متوسط طبقے کے والدین پر تھوڑا سا بوجھ پڑتا ہے۔ ملازمتوں پر انحصار کرنے والے والدین کچھ احتجاج کرتے ہیں اور خاموشی کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس ثاقب نثار نے جب ازخود نوٹس کے اختیار کو استعمال کرنا شروع کیا تو ان کے تعلیم اور صحت کے شعبوں کو جاری کرنے والے نوٹسوں نے خاصا ہنگامہ برپا کیا۔ جسٹس ریٹائرڈ ثاقب نثارکا ایک اہم کارنامہ نجی اسکولوں کی فیسوں کے نظام کو متوازن کرنے کی کوشش ہے۔ انھوں نے سپریم کورٹ کا ایک سال سے زائد وقت ملک کے بڑے اسکولوں کے اداروں کو فیسوں میں کمی کے لیے دستاویزات جمع کرانے پر صرف کیا ۔

جسٹس ثاقب نثارکی مسلسل توجہ کے نتیجے میں ورلڈ بینک کی امداد سے اپنے کیمپس تعمیر کرنے والے اسکولوں کوکچھ حقائق پیش کرنے پڑے۔ جسٹس ثاقب نثارکی عدالت میں ایک دن سماعت کے دوران انکشاف ہوا کہ لاہور کے ایک اسکول کے ڈائریکٹر کی تنخواہ 85 لاکھ روپے کے قریب ہے اور یہ تنخواہیں والدین کی جیبوں سے ادا کی جاتی ہیں۔ بہرحال سابق چیف جسٹس نے متعدد بار سماعت کے بعد ایک جامع فیصلہ سنایا کہ 5 ہزار سے زائد فیسیں لینے والے اسکول فیسوں میں 20 فیصد کمی کریں ۔

پاکستان میں نجی اسکولوں کی مافیا کی جڑیں بہت گہری ہیں، یوں سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی دھجیاں اڑانے کے لیے نئے نئے طریقے استعمال کیے گئے۔ بڑے بڑے اسکولوں نے والدین پر دباؤ ڈالا کہ فیسیں کم کرنے سے معیار تعلیم کو برقرار رکھنا مشکل ہوجائے گا۔ یہ مؤقف اختیارکیا گیا کہ اسکول سوئٹزرلینڈاورکیمبرج کے بجائے پاکستانی سسٹم کو اختیارکریںگے ،کئی اسکولوں نے اساتذہ کی برطرفیاں شروع کر دیں۔ اساتذہ کو بتایا گیا کہ فیسیں کم ہونے سے وہ تنخواہوں کا بوجھ برداشت نہیں کرسکیں گے۔ کئی اسکولوں میں اساتذہ اور دیگر عملے کی تنخواہیں کم کر دی گئیں۔ بعض والدین نے متعلقہ ہائی کورٹ میں توہین عدالت کی درخواستیں دائرکیں۔ سپریم کورٹ کے حکم پر ایف بی آر اور ایف آئی اے کے اہلکار متحرک ہوئے۔ کچھ اسکولوں کا ریکارڈ ضبط ہوا مگر پھر خاموشی چھا گئی۔ اس صورتحال کا سب سے منفی پہلو یہ ہے کہ تینوں صوبوں کی تعلیم کی وزارتوں اور وفاقی وزارت نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کے لیے کچھ نہیں کیا۔

صورتحال اتنی خراب ہے کہ سندھ ہائی کورٹ کے ایک فاضل جج نے کراچی کے پرائیوٹ اسکول کے ڈائریکٹر کی ناقص کارکردگی کا نوٹس لیتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ڈائریکٹر صاحب پرائیویٹ اداروں کے خلاف کارروائی پر تیار نہیں۔ وہ اس عہدے پر رہنے کے اہل نہیں ہیں۔ وزارت تعلیم کی عدم دلچسپی سے نجی تعلیمی اداروں کو خاصا موقع مل گیا اور والدین میںفرسٹریشن بڑھ گئی۔اسکولوںکی انتظامیہ نے والدین کو یہ پیشکش کی کہ اگر وہ اضافہ شدہ فیسوں کو قبول کریں تو نظام جوں کا توں چلتا رہے گا۔ جن والدین کے پاس اپنی دولت گننے کے لیے وقت نہیں ہے انھوں نے انتظامیہ کی ہدایات پر عمل شروع کردیا۔

بھارت ہمارا پڑوسی ملک ہے جہاں کا تعلیمی نظام بھارتی قوم کو ترقی کی طرف لے جارہا ہے۔ جب بھارت آزاد ہوا تو وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے مولانا عبد الکلام آزاد کو وزیر تعلیم مقرر کیا۔ مولانا عبد الکلام آزاد کی قیادت میں ایک جامع تعلیمی پالیسی تیار کی گئی۔ اس تعلیمی پالیسی کے تحت ریاست نے ہر شہری کے تعلیم کے حق کو تسلیم کیا۔ بھارت کی وفاقی حکومت اور ریاستی حکومتوں نے ملک بھر میں اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں قائم کیں۔ جب وزیر اعظم راجیو گاندھی کے دور میں ملٹی نیشنل کمپنیاں بھارت میں داخل ہوئیں تو تعلیم کے شعبے میں بھی سرمایہ کاری ہوئی مگر حکومت نے نجی تعلیمی اداروں کو کاروبار بننے سے روکنے کے لیے ایک جامع قانون نافذ کیا۔ اس قانون کے تحت ہر قائم ہونے والے ادارے کو بینک اکاؤنٹس میں جمع رقوم اوپن کرنا ہوتی ہے، اساتذہ کی تنخواہوں کا معیار برقرار رکھنا ضروری ہوتا ہے۔

اس کے ساتھ ہر اسکول میں غریبوں کے لیے میرٹ کی بنیاد پر نشستیں مختص کی گئیں۔ کہا جاتا ہے کہ میرٹ پر داخلہ لینے والے بچوں سے اسکول انتظامیہ کوئی رقم وصول نہیں کرتی، یوں فیسوں میں یکطرفہ اضافہ کا حق بھی حاصل نہیں ہے۔ چند سال قبل سندھ حکومت نے ایسا ہی ایک قانون سندھ اسمبلی سے منظور کرایا مگر نجی اسکولوں نے سندھ ہائی کورٹ میں اس قانون کو چیلنج کیا۔ نجی تعلیمی اداروں کی یونین کے ایک وکیل جو 50لاکھ سے کم فیس نہیں لیتے ہیں، انھوں نے اپنے دلائل میں اس قانون کو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا۔ حکومت سندھ کے وکلاء نے شاید اس مقدمہ میں خاطرخواہ دلچسپی نہیں لی، یوں اس قانون پر کبھی عملدرآمد نہیں ہوا۔

پیپلز پارٹی ملک کی پہلی جماعت ہے جس نے اپنے منشور میں تحریرکیا کہ ریاست ہر شہری کو تعلیم فراہم کرے گی۔ 1972ء میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے نجی تعلیمی اداروں کو قومیانے کا فیصلہ کیا ، تعلیم آسان اور سستی ہوگئی مگر تاریخ کی ستم ظریفی ہے کہ پیپلز پارٹی نے اپنے اساسی منشور سے انحراف کیا ۔ اب پیپلز پارٹی بھی عوام کو سستی اور معیاری تعلیم دینے کی اہمیت کو محسوس نہیں کرتی۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ میں بھی نجی تعلیمی اداروں کے منافعے کو روکنے کے لیے کوئی معیاری قانون موجود نہیں ہے۔ حتیٰ کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں کسی قانون کا سوچا نہیں گیا۔

اب پھر محسوس ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو عملی طور پر بے اثرکرنے کی حکمت عملی اختیار کی گئی ہے۔ عوام کے حقوق کے نام پر ووٹ لینے والی سیاسی جماعتیں تعلیم کے اس اہم مسئلے پر مجرمانہ خا موشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان روز تبدیلی کا نعرہ لگاتے ہیں مگر ان کی توجہ کہیں اور ہے۔ ان کی حکومت متوسط اور نچلے طبقے کے ان مسائل پر توجہ دینے کو تیار نہیں ہے۔ ایک استاد کا سوال ہے کہ کیا ملک کی انتظامیہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کرانے کی پابند نہیں ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔