پاکستانی روپے کی بے قدری

ایم آئی خلیل  بدھ 24 جولائی 2013
ikhalil2012@hotmail.com

[email protected]

پاکستانی روپے کی قدر میں تیزی سے کمی اس وقت بھی دیکھنے میں آئی تھی جب 2008ء میں نئی حکومت کا قیام عمل میں آیا تھا۔ ان دنوں 60 روپے کا ڈالر بڑھتے بڑھتے چند ماہ میں 75 روپے کا ہو چکا تھا۔ ڈالر کی شدید قلت ڈالرز کی اسمگلنگ، قرضوں کی ادائیگی بمع سود۔ درآمدات میں تیزی سے اضافہ اور برآمدات میں کمی، دہشت گردی جیسے مسائل کے سبب پاکستانی روپیہ شدید دباؤ میں آ چکا تھا۔ دیگر وجوہات کی بنا پر روپے کی بے قدری میں تیزی سے اضافہ ہوتا رہا ہے۔ موجودہ نئی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی ڈالر نے پھر رنگ دکھایا اس کی زورآوری سے روپے کی جان پر بن آئی ہے۔ اسی دوران بڑی تعداد میں ڈالرز بیرون ملک بھیجا جا رہا تھا۔ اس بات کے بھی انکشافات ہوتے رہے کہ ملک میں ناجائز ذرایع سے حاصل ہونے والی اربوں روپے کی آمدنی کو غیرملکی کرنسی میں تبدیل کرنے کے باعث ڈالرز کی بھی قلت پیدا ہو رہی ہے اور روپے کی قدر میں مزید کمی ہوتی چلی جا رہی ہے اور اسمگلرز مختلف ذرایع سے ڈالر اور دیگر غیرملکی کرنسیاں ملک سے باہر بھیج رہے ہیں۔

کسی بھی ملک کے کرنسی ریٹ میں کمی کی صورت میں وہاں کا مرکزی بینک کرنسی مارکیٹ میں مداخلت کرتا ہے اور اس مداخلت کے باعث بعض اوقات چند گھنٹوں میں ہی صورت حال بدل جاتی ہے۔ پاکستانی روپیہ دراصل ملکی معیشت کی شناخت ہے۔ اس کی قدر میں اضافے یا کمی سے ملکی معیشت کی کیفیت معلوم کی جا سکتی ہے۔ دیگر کرنسیوں کے مقابلے میں اس کی قدر میں کمی واقع ہو رہی ہو  تو اس کا مطلب ہے کہ معیشت کمزور ہوتی چلی جا رہی ہے۔ معیشت بے حال ہو رہی ہے۔ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ روپے کی بے قدری بنا ہوا ہے۔ ڈالر کی قدر میں تیزی سے اضافے سے عالمی سرمایہ کاروں کو یہ پیغام پہنچ رہا ہے کہ پاکستان میں سرمایہ کاری سے اجتناب کیا جائے۔ چند عشرے قبل پاکستانی کرنسی مضبوط کرنسی سمجھی جاتی تھی۔ لیکن اب خطے کے دیگر ممالک کی نسبت پاکستانی روپیہ انتہائی کمزور ترین کرنسی ہے۔ جب دیگر ممالک کی کرنسی مضبوط ہوتی چلی جا رہی ہے، روپے کی قدر میں اضافہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ برآمدات میں اضافہ کیا جائے اور غیر ضروری درآمدات، پاکستانی اشیاء کے متبادل درآمدات، اشیائے تعیشات اور غذائی اشیاء کی درآمدات کو انتہائی کم کیا جائے تا کہ تجارتی خسارے میں کمی واقع ہو۔

ماہرین کے مطابق چند یوم میں جب ڈالر کی قیمت100 روپے سے 103 روپے تک پہنچی تھی پاکستان کو تقریباً350 ارب روپے کا مزید بوجھ برداشت کرنا پڑ گیا۔ روپے کی قدر میں مزید کمی اس وقت بھی واقع ہوئی ہے جب پٹرولیم مصنوعات کی درآمدات پر ادائیگی کی جاتی ہے۔ پاکستان کو اس وقت پٹرولیم گروپ کی درآمدات کی خاطر 15 ارب ڈالر کی ضرورت ہوتی ہے۔ نیز ملک میں تیل اور گیس کی ضروریات پوری کرنے کے لیے توانائی کے نئے ذخائر کی تلاش اور پیداوار میں اضافہ کرنا بھی ضروری ہو گا۔ پاکستان نے مالی سال 2012-13ء کے دوران 14 ارب 91 کروڑ 72 لاکھ ڈالر کی پٹرولیم گروپ کی درآمدات کیں، پاکستانی روپے میں جس کی مالیت 14 کھرب 42 ارب ساڑھے چار کروڑ روپے بنتی ہے۔ اس دوران پٹرولیم پروڈکٹ کی مقدار کا تخمینہ ایک کروڑ22 لاکھ 76 ہزار میٹرک ٹن اور پٹرولیم کروڈ  69 لاکھ 39 ہزار میٹرک ٹن تھا۔ جب کہ مالی سال 2011-12 کے دوران پٹرولیم کروڈ کی درآمدات کی مقدار 59 لاکھ 71 ہزار میٹرک ٹن تھی۔ اس طرح 16 فی صد اضافہ دیکھا گیا ہے۔

پاکستان، عرب دوست ممالک سے ہی تیل درآمد کرتا ہے۔ اس سلسلے میں کچھ سال مال کے بدلے مال اور مقامی کرنسی کے بھی معاہدے کیے جا سکتے ہیں۔ جیساکہ پاکستان اور چین کے درمیان مقامی کرنسی میں تجارت کا آغاز ہو چکا ہے۔  مئی 2012ء میں چین اور جاپان نے اپنی کرنسی میں تجارت کا معاہدہ کر لیا تھا۔ عالمی مالیاتی بحران کے بعد چین نے ڈالر کی جگہ عالمی کرنسی متعارف کرانے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ کیونکہ ڈالر کی اجارہ داری کے باعث موجودہ مانیٹری سسٹم میں خامیاں پائی جاتی ہیں۔ کچھ عرصے سے ڈالر پر عدم اعتماد کا بھی اظہار کیا جا رہا ہے۔ دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک اور تیل کے ذخائر رکھنے والے ممالک بھی ڈالر کے بارے میں یکساں رائے رکھتے ہیں۔ عالمی کرنسی کے طور پر چینی کرنسی کا نام لیا جا رہا ہے۔ دوسری جنگ عظیم سے قبل دنیا بھر میں برطانوی پونڈ کی حکمرانی تھی۔ جنگ عظیم دوم کے بعد ڈالرکی حکمرانی کا آغاز ہو ا۔ لیکن عالمی مالیاتی بحران کے رونما ہونے سے ڈالر کی کمزوریاں سامنے آ چکی ہیں۔

امریکا کئی ٹریلین ڈالر کے قرضوں میں ڈوب چکا ہے۔ دوسری طرف چینی کرنسی مضبوط ہوتی چلی جا رہی ہے کیونکہ چینی برآمدات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ شنگھائی عالمی تجارتی مرکز بن کر ابھر رہا ہے۔ ایسے میں گوادر کاشغر راہداری کی تعمیر سے دنیا کو عالمی تجارتی مرکز سے نزدیک ہونے کا موقع مل جائے گا۔ پاکستان کو بھی تجارتی راہداری کے طور پر اچھا خاصا زرمبادلہ حاصل ہو گا۔ جس سے ڈالر کی قلت پر قابو پایا جا سکے گا  اور روپے کی قدر بحال کی جاسکے گی۔ G-20 اجلاس کے موقعے پر اس عزم کا اظہار کیا گیا ہے کہ عالمی معیشت کی بحالی کے لیے کام کیا جائے بیروزگاری کے خاتمے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ روس اور دیگر ممالک بھی گوادر کی اہمیت سے آگاہ ہیں۔ لیکن بعض طاقتیں پاکستان کو معاشی اور دیگر طریقوں سے کمزور کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔ ایسے میں کراچی جو کہ پاکستان کا معاشی ہب ہے اسے شدید زک پہنچائی جا رہی ہے۔ وہاں کی معاشی سرگرمیاں جمود کا شکار ہو رہی ہیں۔ G-20 کے اجلاس میں عالمی معیشت کی بحالی کے لیے جس عزم کا اظہار کیا گیا ہے پاکستان اور چین نے مل کر اس کے لیے عملی اقدامات کا آغاز کر دیا ہے۔ دنیا کے اس خطے کے تین ارب سے زائد انسانوں کا مستقبل سنوارنے کی نوید دی ہے۔ جس سے عالمی معیشت کی بحالی کو مضبوط سہارا ملے گا۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ عالمی طاقتیں بھی اس بات کو سمجھیں کہ مضبوط اور معاشی طور پر توانا پاکستان عالمی معیشت کے لیے کتنا ضروری ہے۔

عالمی مارکیٹ میں چینی کرنسی ڈالر کے مقابلے پر ہے۔ چینی مصنوعات کے عالمی منڈی پر چھا جانے کے باعث چینی کرنسی ایک مضبوط کرنسی کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہے۔ اگر چین دیگر ممالک کے ساتھ بھی مقامی کرنسی میں تجارت کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو ڈالر پر انحصار کم ہو جائے گا۔ آخر یورپی ممالک بھی آپس میں یورو میں لین دین کرتے ہیں۔ البتہ چین اور روس کی بھی یہی کوشش ہے کہ اپنے زیر اثر ممالک کے ساتھ ان کے اپنے ملکوں کی کرنسی پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ اس وقت ڈالر کے علاوہ یورو بھی بڑے پیمانے پر استعمال ہو رہا ہے۔ کیونکہ اس کرنسی کے ساتھ یورپ کے بیشتر ممالک منسلک ہیں اور آپس میں یورو میں ہی تجارت کرتے ہیں۔

پاکستان کو روپیہ مضبوط کرنے کے لیے ڈالر اور دیگر کرنسیوں کی اسمگلنگ کے خلاف بھرپور کارروائی کرنا ہو گی۔ اس سلسلے میں مئی کے مہینے میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور ایف بی آر میں اتفاق کر لیا گیا تھا کہ کرنسی اسمگلروں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ اگرچہ اس سلسلے میں بعض کامیاب چھاپے بھی مارے گئے لیکن اس کے باوجود غالباً اسمگلرز دیگر طریقے بھی استعمال کر رہے ہیں۔ روپے کی قدر مضبوط کرنے کے لیے اب وقت آ گیا ہے کہ ہر حال میں تجارتی خسارے کو کنٹرول کیا جائے۔ برآمدات میں اضافے کے لیے ضروری ہے کہ صنعتی پہیہ تیزی سے چلتا رہے۔ درآمدی مالیت میں بے ہنگم اضافے سے ملکی مصنوعات اور اشیاء کی قیمتوں میں بھی تیزی سے اضافہ ہوتا ہے جس سے مہنگائی کے باعث عوام کا جینا دو بھر ہو جاتا ہے۔ مضبوط کرنسی ہی غیرملکی سرمایہ کاروں کو اعتماد کی راہ دکھاتی ہے۔ روپے کی قدر میں تیزی سے کمی کے باعث غیرملکی قرضوں کا بوجھ بڑھ جاتا ہے۔ حکومت ایک طرف توانائی کے بحران، زبردست تجارتی خسارہ، بد امنی اور دیگر مسائل کے گرداب میں پھنسی ہوئی ہے۔ حالانکہ روپے کی قدر میں تیزی سے کمی کا مسئلہ بھی بھرپور توجہ طلب ہے۔ لہٰذا اسٹیٹ بینک، ایف بی آر، تاجر برادری اور حکومت مل کر ایسے بھرپور مالیاتی اقدامات اٹھائے تا کہ روپے کی قدر میں تیزی سے کمی کے بجائے روپے کی قدر میں اضافے کا آغاز ہو جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔