مجسمہ شیطان کا نہیں، زینب کے قاتل کے ’’وحشی پن‘‘ کا تھا

توقیر کھرل  ہفتہ 9 فروری 2019
’میں ضروری نہیں سمجھتا کہ قاتل کا ہی مجسمہ بنایا جائے البتہ زینب کے قاتل کی حالت، مجسمے سے دکھانے کی کوشش کی ہے،‘ مجسمہ ساز ارتباط الحسن چیمہ۔ (فوٹو: سوشل میڈیا)

’میں ضروری نہیں سمجھتا کہ قاتل کا ہی مجسمہ بنایا جائے البتہ زینب کے قاتل کی حالت، مجسمے سے دکھانے کی کوشش کی ہے،‘ مجسمہ ساز ارتباط الحسن چیمہ۔ (فوٹو: سوشل میڈیا)

لاہور کے عجائب گھر کے داخلی راستے پر نصب سرمئی رنگ کے مخلوط انسانی و حیوانی ساخت کے حامل 16 فٹ اونچے مجسمے کو عوامی احتجاج اور ہائیکورٹ کے حکم پر ہٹا دیا گیا۔ اس مجسمے کو سوشل میڈیا پر ’’الیومناتی، ڈرٹو، شیطانیت‘‘ کے تصور سے تشبیہ بھی دی گئی۔ یہ مجسمہ لاہور میں فنون لطیفہ کے ایک طالب علم ارتباط الحسن چیمہ کی تخلیق ہے، جس کی اونچائی 16 فٹ ہے اور فائبرگلاس سے اس کی تیاری میں پانچ ماہ صرف ہوئے۔ یہ مجسمہ ان کی گریجویشن کا فائنل تھیسس ورک تھا۔

حال ہی میں پنجاب یونیورسٹی کے کالج آف آرٹس اینڈ ڈیزائن سے گریجویشن مکمل کرنے والے مجسمہ ساز ارتباط الحسن نے بتایا کہ میں آرٹ کا نہیں سائنس کا طالبعلم تھا، ’’تاہم آرٹ میں میری دلچسپی خاصی زیادہ تھی بالخصوص مجسمہ سازی کی طرف رجحان زیادہ تھا۔ فائن آرٹس اور مجسمہ سازی کے فن کو سیکھنے سے بے پناہ محبت تھی۔ پہلے پنجاب یونیورسٹی میں آئی ٹی کی تعلیم حاصل کی لیکن رغبت کی وجہ سے مجسمہ سازی کی طرف آیا اور آرٹ کی تعلیم مکمل کی۔‘‘

’’اگر مجسمہ ساز میں کام کرنے کی بات کی جائے تو میں نے بہت سا کام کیا ہے۔ مختلف مالز، ہوٹلز، ملکی سطح کی نمائشوں کے ساتھ ساتھ اپنے اسائنمنٹ کےلیے بھی کام کرچکا ہوں۔ انسان اور جانور کے ملاپ یا مخلوط النسل صورتوں کو فن کی صورت میں پیش کیا۔ گریجویشن کے اختتام پر میرے تھیسس کا عنوان ’’فیروسٹی‘‘ یعنی درندگی یا وحشی پن تھا۔ جن دنوں میں اسکیچنگ کر رہا تھا، ان ہی دنوں زینب قتل کیس چل رہا تھا۔ مجسمہ بنانے سے قبل یا بناتے وقت میرے ذہن میں کوئی شیطان نہیں تھا۔ ہاں! قصور میں زینب قتل کیس ایسا واقعہ تھا جس نے میری راتوں کی نیندیں اڑا دیں تھیں اور میں سوچ رہا تھا کیا انسان واقعی اتنا وحشی ہوسکتا ہے؟

’’مجھے تھیسس کےلیے دیا گیا موضوع بھی وحشی پن تھا۔ میں نے اس ہیبت ناک وحشی پن کو مجسمے میں دکھانے کی کوشش کی ہے۔ تھیسس کےلیے کسی ایک موضوع کا انتخاب کرنا ضروری ہوتا ہے۔ مجھے آئیڈیا کی آزادی تھی اور اس کے بعد اس کے اسکیچ پر کام شروع کیا تھا۔ جہاں تک وحشی پن کی بات ہے تو اس مجسمے سے میں نے زینب کے قاتل کو دکھانے کی کوشش کی ہے۔ میں یہ ضروری نہیں سمجھتا تھا کہ قاتل کا ہی مجسمہ بنایا جائے۔ البتہ قاتل (یا جب کوئی انسان وحشی ہوجاتا ہے تو اس) کی حالت کو مجسمے سے دکھانے کی کوشش کی ہے۔ ہم انسانوں میں یہ رویہ ضرور ہوتا ہے جسے پہچاننے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر وہ اپنی درندگی کو تلاش نہیں کر پاتا تو ختم کرنے کی کوشش بھی نہیں کرتا۔

’’جب کسی انسان کی نفی کرنی ہو تو ہم اسے کسی جانور سے تشبیہ دیتے ہیں۔ جسے لوگ شیطان کا مجسمہ قرار دے رہے ہیں، سوال یہ ہے کہ کیا آپ نے شیطان کو دیکھا ہوا ہے؟ میں نے تو نہیں دیکھا! تو پھر اسے کیوں شیطان کا نام دیا جا رہا ہے؟ اورجہاں تک شیطانیت کی بات ہے تو میں نے انسان کی اصلیت دکھانے کی کوشش کی ہے کہ انسان اتنا وحشی بھی ہوسکتا ہے۔

مجسمہ ساز ارتباط الحسن کہتے ہیں، ’’جہاں لوگوں نے اس فن پارے کو شیطان کا مجسمہ کہا ہے وہاں بہت سے افراد نے اس فن پارے کی تخلیق کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ آپ نے اس مجسمہ سے جو پیغام دینے کی کوشش کی ہے، سماج کی اس کی ضرورت تھی۔ انسانی درندگی، جو میں دکھانا چاہ رہا تھا، وہ اس مجسمے میں نظر آرہی ہے۔ جب کوئی شخص اس مجسمے کے سامنے کھڑا ہوتا ہے تو اسے وہ درندگی یا وحشی پن نظر آتا ہے جو مجسمہ بنانے کا مقصد تھا۔‘‘

’’سماج میں ایسے لوگ ضرور ہوتے ہیں جو مثبت پہلو کو بھی منفی بنانا چاہتے ہیں۔ ان کی سوچ اور فکر کا تعلق ہمارے اس تعلیمی ڈھانچے سے ہے جو اسکول سے لے کر جامعہ تک ایک خاص قسم کا غلام پیدا کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں کررہا اور ہماری نسلیں تباہ کی جا رہی ہیں۔ ایسے افراد کو ایسی تخلیقات کے بارے سمجھانا محال ہوتا ہے۔‘‘

بقول ارتباط ’’ہر چیز کے بہت سے پہلو ہوتے ہیں۔ ہر ایک چیز کا ایک ہی مطلب نہیں ہوتا بلکہ اس کے بہت سے دیگر چہرے یا معانی ہوسکتے ہیں۔ میں نے یہ مجسمہ کس پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے بنایا، یہ پہلے بتاچکا ہوں۔ لیکن سماج میں رہنے والے لوگوں نے اس کو اپنی سوچ یا خیال سے شیطان کا مجسمہ قرار دیا۔‘‘

مجسمہ سازی کے مستقبل سے پریشان مجسمہ ساز ارتباط کے مطابق انسانی تاریخ، رہن سہن اور بود و باش کے بارے میں نہ ختم ہونے والے مطالعے اور معلومات نسل در نسل منتقل کرنے میں مجسمہ سازی نے بنیادی کردار ادا کیا ہے، لیکن یہ فن شدت پسندی کی نذر ہوا۔ مجسمہ سازوں نے نہ صرف اپنے فن کو چھپائے رکھا بلکہ کئی افراد نے اسے خیرباد کہہ کر ہمیشہ کےلیے اس سے منہ موڑ لیا۔ پاکستان میں مجسمہ سازی کا مستقبل شاندار نظر نہیں آتا، ’’مجھے نہیں لگتا کہ کوئی آرٹسٹ یہاں آزادی سے کام کرسکتا ہے اور اپنی تخلیقات سے سماج کو کوئی میسج آزادی سے دے سکتا ہے۔ کوئی بھی تخلیق کار دباﺅ میں کام نہیں کرسکتا۔ فن پارہ تب ہی تخلیق پاتا ہے جب آرٹسٹ آزاد ہوتا ہے۔ یعنی مصور خیال و تصورات کا قیدی نہیں ہوتا، وہ آزاد ہوتا ہے اور یہی آزادی اسے بہترین فن پاروں کی تخلیق میں معاونت کرتی ہے۔

’’ہمارے ملک میں آرٹ کےلیے ماحول سازگار نہیں۔ میرے خیال میں آرٹ کے فروغ کےلیے لوگوں کو اپنی سوچ بدلنی ہوگی جس سے نئے تخلیق کاروں کےلیے مواقع کے ساتھ ساتھ معاشرے کی اصلاح بھی جاسکتی ہے۔‘‘

اس بارے میں صحافت کے طالب علم اکمل سومرو کہتے ہیں کہ اس فن پارے کے خلاف مخصوص ذہنیت کے حامل افراد نے طوفان بدتمیزی برپا کیا۔ یہ وہی ذہنیت ہے جس نے گیلیلیو کو سائنسی نظریات پیش کرنے پر معتوب کیا، جس نے سقراط کو زہر کا پیالہ پلوایا۔ اس ذہنیت کو شکست دیئے بغیر سماج سے بالاتر طبقات کی اجارہ داری کو شکست دینا آسان نہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

توقیر کھرل

توقیر کھرل

بلاگر، فیچر رائٹر اور صحافی توقیر کھرل، پاک افواج میں دخترانِ وطن کی خدمات و کردار پر مبنی کتاب ’’دھرتی سے افق‘‘ کے مدوّن بھی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔