فیصل آباد میں پاور لومز انڈسٹری زوال کا شکار

غلام دستگیر  بدھ 6 فروری 2019
فیصل آباد میں پاورلومز فیکٹریاں 1960 کی دہائی میں قائم ہوئیں، فوٹو: ایکسپریس

فیصل آباد میں پاورلومز فیکٹریاں 1960 کی دہائی میں قائم ہوئیں، فوٹو: ایکسپریس

فیصل آباد کی پہنچان ٹیکسٹائل انڈسٹری کے اہم شعبے پاورلومز انڈسٹری میں شدید بحران کے باعث فیکٹری مالکان لومز مشینری کو کوڑیوں کے دام فروخت کرنے لگے۔

فیصل آباد میں پاورلومز فیکٹریاں 1960 کی دہائی میں قائم ہوئیں، ان فیکٹریوں کے قیام سے بے روزگار،مزدور طبقہ اورناخواندہ افراد کیلئے روز گار کے مواقع پیدا ہوئے۔

ابتدائی دنوں میں کاروباری افراد نے غلام محمد آبادکے مختلف محلوں میں پاورلومز مشینری لگائی اور محدود طبقے کو روز گار میسر آیا اور مشینی کپڑے کی پیدوار شروع ہوگئی، کاروباری افراد کے لئے یہ شعبہ منافع بخش بن گیا جس کی وجہ سے اس شعبے میں وسعت آئی اور آہستہ آہستہ یہ شعبہ ترقی کرتا گیا ۔

کپڑے کے تاجروں نے غلام محمد آباد کے بعد پاورلومز فیکٹریاں جھنگ روڈ پر لکڑی منڈی ،باؤ والا ،سدھار ،ٹھیکری والا اور جڑانوالہ روڈ کے علاقوں میں قائم کرلیں ۔ پاورلومز مشینری کی تعداد بڑھنے کے سا تھ ساتھ ان مشینوں پر کام کرنیوالے مزدوروں کیلئے بھی روزگار کے مواقع بڑھتے گئے ۔

سن 8-2007 میں پاورلومز مشینری کی تعداد 3 لاکھ سے تجاوز کرگئی اور ان کے ساتھ براہ راست کام کرنیوالے مزدوروں کی تعداد 70ہزار ہوگئی ،2008 سے2013 کے  درمیان بجلی کی لوڈشیڈنگ کے باعث اس شعبے میں پیدواری کام متاثر رہا،مزدوروں نے شہر بھر کی سڑکیں بلاک کرکے احتجاج کئے جبکہ مالکان بھی کئی احتجاجی تحریکیں چلائیں جن کے بعد اس انڈسٹری کو کسی حدتک ریلیف دیا گیا ۔

سن 2013 میں مسلم لیگ ن کی حکومت آئی تو بجلی کی لوڈشیڈ نگ میں کمی واقع ہونا شروع ہوگئی لیکن اس دو رحکومت میں پاورلومز انڈسٹری کو دیگر کئی چیلنجز درپیش ہوگئے ،مختلف مدتوں کے دوران حکومت کی جانب سے پاورلومز کی مشینری میں استعمال ہونے والے دھاگے پر امپورٹ 17 فیصد ڈیوٹی ،ریگولیٹر ی ڈیوٹی اور کسٹم ڈیوٹی عائد کردی گئیں ۔

توانائی بحران سے چھٹکارا پانے کے بعد سر اٹھاتی یہ صنعت ایک بار پھر مسائل کے بھنور میں پھنسنا شرو ع ہوگئی  اورچند ماہ کے وقفے کے بعد ہی رہی سہی کسر پولیسٹر پر عائد کی جانیوالی 36 فیصد امپورٹ ڈیوٹیوں نے نکالی ۔

پاور لومز انڈسٹری بھاری ٹیکسوں کی زد میں آگئی جس کے باعث کاروباری افراد کیلئے کام کرنا مشکل ہوگیا ،مزدوروں کی تنخواہوں ،پیدواری لاگت کے ساتھ ساتھ ٹیکسوں نے فیکٹری مالکان کو امتحان میں ڈال دیا ،صرف یہی نہیں فیکٹری مالکان کیلئے پہلے سے عائد موٹر ٹیکس ،پروفیشنل ٹیکس ،پراپرٹی ٹیکس ،شہری دفاع اور سوشل سکیورٹی کی فیسیں دینے کا عمل بھی مشکل ہوگیا ۔

منافع کم اور اخراجات زیادہ ہوئے تو فیکٹری مالکان کیلئے طلب اور رسد میں توازن برقرار رکھنا مشکل ہوگیا ،نومبر 2018 میں فیکٹریوں کو تالے لگنے شروع ہوگئے ، تالے لگنے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

آل پاکستان پاورلومز اونرز ایسوسی ایشن نے احتجاجی تحریک شروع کردی یہ تحریک اب بھی جاری ہے ،کئی مالکان نے اپنی فیکٹریاں کباڑ لوہے کے بھاؤ بیچنا شروع کردی ہیں۔فیکٹری مالکان نے شہر کے مختلف مقامات پر بینر زآویزا ں کردیئے ہیں جن پر لکھا ہے کہ پاورلومز مشینری ٹماٹروں سے بھی فی کلو سستی ہے ۔

پاورلومز اورنز ایسوسی ایشن کے چیئرمین اور فیکٹری مالک وحید خالق رامے کا کہناہے کہ اب تک تین سو سے زائد فیکٹریاں بند ہوگئی ہیں اور ان میں کا م کرنیوالے ہزاروں مزدوروں کو نوکریوں سے فارغ کردیا گیا ہے ۔ٹیکسوں کا بوجھ کم نہیں ہوا تھا کہ کاٹن کی پیدوار میں کمی اور ری ایکسپورٹ کی سہولت کے غلط استعمال نے مسائل بڑھا دیئے ہیں،وحید خالق رامے کا کہناہے پاکستان میں اس وقت 14 ملین گانٹھ کاٹن کی ضرورت ہے جبکہ پیدوار10 ملین گانٹھ ہے ،4 ملین گانٹھ ضرورت کو پورا کرنے کیلئے دوسروں ملک سے کاٹن منگوانا پڑتی ہے ۔

غلام محمد آباد فیکٹری ایریا سیکٹر میں کام کرنے والے مزدور ابوزر غفاری سے بات ہوئی جس کا کہناہے مزدور گزشتہ 20 سے 25 سالوں سے پاورلومز پر کام کررہے ہیں جو نوکری سے فارغ ہوئے اب تو وہ کوئی اور کام نہیں جانتے اب وہ کہاں جائیں جبکہ جو مزدور کام کررہے ہیں ان کی آمدن اتنی کم ہے کہ گھر کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتے۔

پاورلومز سیکٹر میں جتنے گھنٹے کام کریں اس حساب سے پیسے ملتے ہیں ،دیہاڑی دار مزدور دکانوں سے چند کلو آٹا اور دیگر کھانے پینے کی اشیاء ادھار لیتے ہیں اور پھر پیسے ملنے پر ادھار ادا کرتے ہیں کئی مزدور تومقروض ہوچکے ہیں اور گھروں کی اشیاء بیچ بیچ کر گزار ا کررہے ہیں ۔

مزدور لیڈر بابا لطیف انصاری سے بات ہوئی تو ان کا کہناہے کہ مزدوروں کے حقوق کیلئے تحریک چلا رہے ہیں اور نئی حکومت سے امیدیں لگا کر بیٹھے ہیں یہ حکومت گزشتہ حکومتوں کے لگائے گئے بے جا ٹیکسوں کا خاتمہ کرے گی ۔ان ٹیکسوں کے خاتمے سے یہ انڈسٹری اپنے پاوں پر کھڑی ہوسکتی ہے ۔۔کلاتھ مارکیٹ ایسوسی ایشن کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ پاورلومز کی بندش اور کام متاثر ہونے سے کپڑ ے کے ریٹس بڑھے ہیں اور اس کا بوجھ عام آدمی پر پڑا ہے ۔

اگر پاورلومز انڈسٹری میں کام چلے تو کپڑے کی قیمتیں کم ہوسکتی ہیں اس معاملے پر صنعتکاروں اور فیکٹری مالکان کے اہم پلیٹ فارم چیمبر آف کامرس کے صدر سید علمدار شاہ سے بات ہوئی، انہوں نے کہا چیمبر آف کامرس کے پلیٹ فارم سے پاورلومز فیکٹریوں کے ایشوپر آواز اٹھائی جارہی ہے گزشتہ دنوں اس حوالے سے میڈیا کانفرنس کی جس میں بتایا گیا تھا کہ اس انڈسٹری پر سب سے زیادہ ٹیکس لگائے گئے ہیں ۔حکومت سے مطالبہ کررہے ہیں کہ ٹیکسوں میں کمی کی جائے تاکہ یہ فیکٹریان چلیں ۔روز گار کے مواقع پیدا ہوں ۔اور بے روزگار کم ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔