- سونے کی قیمتوں میں معمولی اضافہ
- عمران خان، بشریٰ بی بی کو ریاستی اداروں کیخلاف بیان بازی سے روک دیا گیا
- ویمنز ٹیم کی سابق کپتان بسمہ معروف نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا
- امریکی یونیورسٹیز میں ہونے والے مظاہروں پر اسرائیلی وزیراعظم کی چیخیں نکل گئیں
- پولیس یونیفارم پہننے پر مریم نواز کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے، یاسمین راشد
- قصور ویڈیو اسکینڈل میں سزا پانے والے 2 ملزمان بری کردیے گئے
- سپریم کورٹ نے اسپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالخالق اچکزئی کو بحال کر دیا
- مرغی کی قیمت میں کمی کیلیے اقدامات کر رہے ہیں، وزیر خوراک پنجاب
- عوام کو کچھ نہیں مل رہا، سارا پیسہ سرکاری تنخواہوں میں دیتے رہیں گے؟ چیف جسٹس
- وزیراعلیٰ بننے کیلئے خود کو ثابت کرنا پڑا، آگ کے دریا سے گزر کر پہنچی ہوں، مریم نواز
- کلین سوئپ شکست؛ ویمنز ٹیم کی سلیکشن کمیٹی میں بڑی تبدیلیاں
- قومی اسمبلی کمیٹیاں؛ حکومت اور اپوزیشن میں پاور شیئرنگ کا فریم ورک تیار
- ٹرین میں تاریں کاٹ کر تانبہ چوری کرنے والا شخص پکڑا گیا
- غزہ کے اسپتالوں میں اجتماعی قبریں، امریکا نے اسرائیل سے جواب طلب کرلیا
- وزارتِ صنعت و پیداوار نے یوریا کھاد درآمد کرنے کی سفارش کردی
- ٹی20 ورلڈکپ؛ 8 بار کے اولمپک گولڈ میڈلسٹ یوسین بولٹ سفیر نامزد
- کہوٹہ؛ بس میں ڈکیتی کے دوران ڈاکو کی فائرنگ سے سرکاری اہلکار جاں بحق
- نوجوان نسل قوم کا سرمایہ
- اسلام آباد میں روٹی کی قیمت میں کمی کا نوٹیفکیشن معطل
- کیا رضوان آئرلینڈ کیخلاف سیریز میں اسکواڈ کا حصہ ہوں گے؟ بابر نے بتادیا
ہائے اس کا کمر توڑ بستہ
وہ پرائمری جماعت کا طالب علم ہے ، اس کی عمر اور جسمانی قوت کے لحاظ اس کا بستہ بہت بھاری ہے جو اس کے نازک کندھوں پر نشان ڈال دیتا ہے اورکمر توڑنے والا ہوتا ہے ۔ وہ اسے ہانپتے کانپتے اٹھا کر اسکول پہنچتا ہے اور اسی حالت میں گھر لوٹتا ہے ۔ یہ بھاری بستہ اس کے لیے ذہنی اور جسمانی لحاظ سے تکلیف دہ ہوتا ہے ۔ اس کی عمرکا اگر کوئی بچہ مزدوری کرتا ہوا نظر آئے تو سب کو بڑا ترس آتا ہے ۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی جاگ اٹھتی ہیں ۔
اخباروں میں خبریں بھی لگ جاتی ہیں ، عالمی سطح پر اس کے حقوق کی بابت کانفرنسیں بھی منعقد ہوتی ہیں، بچوں کے عالمی دن بھی منائے جاتے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ جیسے پوری دنیا، اس کے مسائل حل کرنے کے لیے متحرک ہوگئی ہے ، مگرکسی کو اس کا بستہ چھوٹا اور آسان کرنے کی فکر نہیں ہے۔ یہ بھی آخرگوشت پوست کا انسان ہے، اس کے سینے میں بھی بڑوں کی طرح ایک دھڑکتا دل ہے ۔ آخرکب تک اس کے اس مسئلے پر صرف نظرکیا جاتا رہے گا ؟ جب کہ طبی ماہرین نے بھی اس کے بھاری بستے کو اس کی عمر سے بڑا وزنی اور اس کی ذہنی وجسمانی صحت کے لیے نقصان دہ قرار دیا ہے، ہسپانوی ماہرین کاکہنا ہے کہ زیادہ وزنی اسکول بیگ بچوں میں کمر دردکی تکلیف کا سبب بنتے ہیں۔ تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ مسلسل وزنی بیگ اٹھانے کا عمل ان کی کمرکے لیے نقصان دہ ہوسکتا ہے۔
اس سے بچنے کے لیے وزن کے 10فیصد سے کم وزنی بیگ اٹھانے سے کئی مسائل ختم ہوسکتے ہیں ۔ اسپین کے طبی ماہرین نے اپنی تحقیق کی بنیاد پرکہا ہے کہ اسکول جانے والے بچوں کو اپنے وزن سے 10فیصد کم اسکول بیگ اٹھانے چاہئیں۔
وہ بچے جو اپنے ذاتی وزن سے 10فیصد زائدکا اسکول بیگ اٹھاتے ہیں انھیں کمر درد کی تکلیف ہوسکتی ہے۔ برطانوی نشریاتی ادا رے کی رپورٹ کے مطابق اسپین کے ماہرین نے 1403طلباء پر تحقیق کی جن میں سے 12سال سے 17سال کی عمرکے11اسکولوں کے بچوں کو شامل کیا گیا ۔ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ جن بچوں کے اسکول بیگ کا وزن ان کے اپنے وزن کے 10فیصد سے زائد تھا ان میں سے 66 فیصد بچے کمر درد کی تکلیف میں مبتلا پائے گئے ۔ تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کوکمر درد کی زیادہ شکایت تھی ۔ پھر بھی کوئی نہیں سنتا ۔ تعلیمی میدان میں بڑے بڑے کارنامے انجام دینے والے اگر اس کے بستے کو چھوٹا اور آسان نہیں بناسکتے تو پھر اس کے پاس کیا دلیل ہے کہ جس کی بنیاد پر یہ ان کی صلاحیتوں کو تسلیم کرے گا ؟
یہ جلی کٹی باتیں نہیں ہیں ، پرائمری اسکول کا یہ معصوم بچہ تعلیمی پالیسی کا ستایا ہوا ہے ۔ روزانہ ذہنی اذیت کا شکار یہ چھوٹا طالب علم ان دانشوروں کی جان کو روتا ہے جو اس کی مشکل کو مانتے ہیں مگر حل نہیں کرتے ۔ اپنے بھاری بستے کے بوجھ تلے دبے ہوئے بچے کی چیخیں کیا کان دھرنے کے لائق نہیں؟ سچ یہ ہے کہ اس معصوم طالب علم کا بستہ بڑا ہونے میں اس کے لیے نصاب سازی کرنے والوں کی سطحی سوچ اور ذہنی فراغت کا بڑا دخل ہے ۔ دنیا میں بڑے بڑے مسائل کی بابت لوگ گہرائی کے ساتھ سوچتے ہیں اور ان کے حل نکال لیتے ہیں مگر معصوم طالب علم کا بستہ چھوٹا کرنے کے لیے کسی کے پاس کوئی حل نہیں نظر آتا ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اپنی کاروں ، کوٹھیوں اور بنگلوں کو بڑی سرعت کے ساتھ بڑا کرنے والے بستے کو بھی اسی رو میں بہتے ہوئے بڑا کرنے میں مگن ہیں ۔ معصوم طالب علم کا بستہ اب تک کتابوں کی غذا کھا کھا کر موٹا ہوتا جارہا ہے غالبا یہ موٹے دماغوں والے کی کار ستانی ہے ۔
کسی زمانے میں انگریزی چھٹی جماعت سے شروع ہوتی تھی اور چھٹی جماعت کا بچہ قدرے بڑا ہوتا ہے اور بستے کا جسمانی اور ذہنی بوجھ کس قدر آسانی سے اٹھا سکتا ہے ۔ پہلے کم از کم ایک انگریزی کی کتاب اور اس کے ساتھ چار کاپیوں کا بوجھ تھا ۔ اب اس معصوم بچے کے بستے میں ایک انگریزی کی کتاب ، ایک الفاظ معانی کی کاپی ، ایک سبق کے آخر میں موجود مشقوں کے لیے اور ایک انگریزی خوشخطی کے لیے ہے جو کتابوں کے وزن اٹھانے کی بات ہے ۔ ایک دفعہ اسکول جاتے ہوئے اور ایک دفعہ واپس آتے ہوئے انھیں اٹھانا پڑتا ہے ۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں ہوسکتا کہ پرائمری کے اس معصوم طالب علم کو جتنی محنت اور جتنی توانائی دوسرے تمام مضامین پر خرچ کرنی پڑتی ہے اتنی ہی توانائی انگریزی کے مضمون پر خرچ ہوتی ہے ۔
پھر بھی اسے انگریزی نہیں آتی ہے ۔رٹے کی چکی میں پس پس کر اس کا دماغ تھک جاتا ہے ۔ اس پر طرہ یہ کہ اس کی سائنس کو بھی اتنا پچیدہ اور غیر فطری بنا دیا گیا ہے کہ معصوم طالب علم اسکول سے بھاگنے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ بستہ ساز اسے پڑھنے نہیں دینا چاہتے ۔ اخبارات میں کروڑوں روپے خرچ کرکے مہم چلائی جاتی ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو اسکول میں داخل کروائیں ، مگر اسکول میں ایک غیر ملکی زبان اور غیر فطری سائنسی نصاب کا بوجھ ڈال کر معصوم طالب علم کی تمام دلچپسیوں کو ختم کر رہے ہیں ان حالات میں ایک معصوم طالب علم کا اسکول میں کیسے دل لگ سکتا ہے ؟ ایسا لگتا ہے کہ بستہ سازوں اور نصاب سازوں نے مل کر معصوم طالب علموں سے خاموش جنگ چھیڑ رکھی ہے اور ملک کے کروڑوں بچوں کو بطور بیگار اس جنگ میں سپاہی کے فرائض انجام دینے کے لیے مجبور کیا جا رہا ہے ۔
خدارا ! معصوم طالب علموں کے ماتھے پر پریشانیوں کی شکنوں میں چھپے ان کے دل کے درد کو محسوس کیا جائے ، کیا یہ جبری مشقت نہیں جو ہر روز ان سے لی جاتی ہے ؟ کیا یہ ان کا حق نہیں کہ ان کا بستہ ان کی عمر، جسمانی صحت اور ذہنی سطح کے مطابق ہو؟ کیا انسانی حقوق کی تنظیموں کو اس مسئلے کو اپنے ایجنڈے میں شامل نہیں کرنا چاہیے؟ یہ وہ معصوم طالب علموں کے سوالات ہیں ،جن کے جواب تعلیم سازوں کو دینے ہیں ۔ قارئین کرام ! آپ کا کیا خیال ہے ؟ اپنی رائے کا اظہار کریں تاکہ معصوم طالب علم بچوں کی صدا ارباب اختیارات تک بھر پور انداز میں پہنچ سکے ۔ اللہ تبارک تعالیٰ اس کار نیک کی جزا دینے والا ہے ۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔