تباہی کے زاویے

سید نور اظہر جعفری  جمعرات 7 فروری 2019

اس اگست میں پاکستان صدی مکمل کرنے سے اٹھائیس سال کی مسافت پر رہ جائے گا۔ خوش قسمت نسل 2047ء دیکھے گی۔ اب تک کے تمام عرصے میں اس خطہ اراضی پر بسنے والے جو قدیم ہند کا ٹوٹا ہوا سیارہ ہے جس کو قائد اعظم محمد علی جناح اور ان کے ساتھیوں نے بہت مشکل سے زنجیر غلامی پگھلا کر توڑا اور ان علاقوں کے کئی ’’گاندھی‘‘ مزاحم رہے۔ یہاں کے ’’باشندے‘‘ یقین نہیں دلاسکے کہ ایسا کیوں ہوا۔ پاکستان کیوں بنا۔

سونار بنگلہ دیش، سندھو دیش پہلے افغانی پھر ہو سکے تو پاکستانی، نواز شریف کا غیر ملکی نشریاتی انٹرویواور بلوچستان کی تنظیمیں، غیر ملکی امداد سیاسی انتشار یہ سب درست یوں ہے کہ میں ان زمانوں اور حالات کا گواہ ہوں۔ کراچی خصوصاً اور ملک کی یہ حالت آسانی سے نہیں ہوئی ہے بلکہ اشتراک باہمی نے یہ دن دکھایا ہے جس میں ہر لسانی گروہ کے تن آسان مفاد پرست شامل ہیں اب تک بزرگ سیاستدان (انھیں کیوں یہ الزام دیا جاتا ہے آج تک میں سمجھ نہیں سکا کیونکہ بزرگوں کا کام تو بنانا، تعمیرکرنا ہوتا ہے) نظریہ پاکستان پر متفق نہیں، جو نعرے میں نے اوپر تحریر کیے ان پر ان سب کی ’’مجرمانہ خاموشی‘‘ کیا بتاتی ہے؟

کسی نے ایک عظیم لیڈر کی نقل کرتے ہوئے پاکستان کی نفی کر کے کابل آباد کیا قیامت تک کے لیے، اس عظیم لیڈر نے جس کی نقل کی گئی تحریک پاکستان کے دوران غلام ہندوستان میں دفن ہونا پسند نہیں کیا تھا اور برطانیہ میں مدفون ہیں، زمین آسمان کا فرق ہے سوچ میں، ارادے میں اور فیصلے میں سفید اور سیاہ کا فرق، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کابل کا فیصلہ کرنے والوں کے وارثان خود بھی یہ فیصلہ کر کے وہاں چلے جاتے اور دنیا میں نام پیدا کرتے مگر وہ فوائد کہاں ملتے جو پاکستان میں ملے اور ان کو چیک کرنے کی کس میں ہمت ہے۔

چیک تو اب تک ’’کشمیر کمیٹی‘‘ نہیں ہو سکی، ’’بالائی احتساب‘‘ ہو گا تو شاید ہو سکے۔ اسی طرح بقیہ جگہوں پر قیام پاکستان کے نتیجے میں ملک، چوہدری، وڈیرے، سردار وجود میں آگئے، آنے والوں میں ’’زرپرست‘‘ اعلیٰ اور وطن پرست ادنیٰ ہو گئے اس کو ہی انقلاب کہتے ہیں زیر زبر اور زبر زیر ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں کچھ زیادہ ہی ہوا۔ ہر جگہ ہندوؤں کی چھوڑی ہوئی جائیدادوں پر حسب توفیق سب نے قبضہ کر کے ’’ بڑے خاندان ‘‘ کا تصور پیدا کیا تاکہ سیاسی میدان پر قبضہ کیا جائے جو اب ہے۔ بعض ہندوؤں نے شعور کا مظاہرہ کیا اور اسلام قبول کر کے ’’شاہ‘‘ کا تاج پہن لیا۔

’’پاکستانی بڑے لڑیا‘‘ ہی نہیں ’’بڑے کاری گر‘‘ بھی ہیں۔ ایک جماعت اسلام کا نام لیتے نہیں تھکتی اس کے بیانات سے لگتا ہے کہ پاکستان کو وہ ’’اسلام‘‘ ابھی تک نہیں ملا جس کے نام پر بقول ان کے پاکستان بنا تھا۔ حالانکہ قائد اعظم نے ان سے خاص طور پر کوئی وعدہ نہیں کیا تھا۔

صوبہ سرحد کے ایک لیڈر کا بیان موجود ہے کہ ’’اسلام خطرے میں ہے‘‘ اور ان کے مسائل کو وسائل فراہم کر دیے جاتے تھے اور اسلام خطرے سے باہر نکل آتا تھا۔ اس بار ان کے اپنے لوگوں نے یعنی ووٹرز نے ان کو آئینہ تھما دیا۔ لہٰذا دال گل نہیں رہی بلکہ ڈیڑھ جوڑی خطرے سے دوچار ہے۔ احتساب شاید دو چار قدم ہے۔ چربی کھانے کا معاوضہ وزیر اعظم نے ادا کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ صرف جیل میں سہولتیں دی جا سکتی ہیں۔ اور جیل جانے کا سودا مہنگا ہے۔ 25 دسمبر کو ایک فیس بک فرینڈ نے پوسٹ بھیجی جس میں بابائے قوم اور نواز شریف کی تصویریں ساتھ لگائی گئی تھیں۔ میں نے ان صاحب کو کہا ’’25 دسمبر مخصوص یوں ہو گیا ہے کہ اس دن بابائے قوم پیدا ہوئے‘‘ ورنہ اس دن دنیا میں بہت لوگ پیدا ہوئے ہوں گے اچھے برے۔ فساد پیدا نہ کرو یہ دن اس وقت بھی ان کا تھا جب یہ ’’قومی مجرم‘‘ پیدا نہیں ہوا تھا۔ سوشل میڈیا نفرت کا کاروبار کرنے کے لیے بہترین ہے کم ازکم پاکستان میں تو ایسا ہی ہے۔

اسلام کے نام پر پاکستان کا ذکر میں کر رہا تھا تو ایک اور پوسٹ نظر سے گزری جس میں کہا گیا تھا کہ ’’پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا اور اس میں غیر مسلموں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے‘‘ یہ مذہبی انتہا پسندی اس جانب ہی اشارہ کر رہی ہے جس کا میں نے ذکر کیا تھا۔ قائد اعظم محمد علی جناح حضورؐ کے امتی تھے اور ہیں انھوں نے بھی وہی راستہ اختیار کیا جو ان کے محبوب رسولؐ نے اختیار کیا تھا۔ حضورؐ نے اعلان کردیا تھا کہ گورے کالے کی، رنگ نسل کی کوئی قید نہیں صرف تقویٰ معیار ہو گا۔

قائد اعظم کی تقاریر دیکھ لیجیے وہ تمام طبقوں کے ساتھ مساویانہ سلوک کی بات کرتے ہیں جس میں مسلم اور غیر مسلم کا فرق نہیں ہے بلکہ غیر مسلموں کے حقوق کا تحفظ مسلمانوں کی ذمے داری قرار دیا گیا ہے۔ کسی نے ان دو پوسٹوں پر کوئی کارروائی نہیں کی حالانکہ وزیر اطلاعات کو ’’کیمرہ پیشی‘‘ کی عادت ہو گئی ہے۔ اسلام کا نام لے کر غیر مسلموں کو خوفزدہ کرنے کی مذموم کوشش بھی قابل گرفت اور قابل مذمت ہے ہر صورت، اطلاعات کا شعبہ ٹھیک کام نہیں کر رہا یہ نوٹس لینا اور کارروائی کرنا ان کا کام ہے۔

صبح تا شام حزب اختلاف کو دھمکانے سے ملک ترقی نہیں کرتا، ملک کے لیے کام کرنا ضروری ہے ہر سطح پر اور اس میں اطلاعات کا شعبہ ہراول ہے۔ وزیر اعظم صاحب ذاتی توجہ دیں۔ ریڈیو کو بحال کریں اس کو ایک قابل ڈی جی دیں ۔ ریڈیو کا ڈی جی ریڈیو سے ہونا چاہیے باہر سے نہیں ان لوگوں نے ریڈیو تباہ کر دیا ہے۔ اچھے کاموں کی درست تشہیر کریں صرف وزیر اطلاعات کی تشہیر نہ ہو۔

ریڈیو سے قابل لوگوں کو عمر کے تمام ہونے پر الگ کیا جا رہا ہے جو ریڈیو کی بربادی ہے۔ اگر جنگل سے پرانے درخت کاٹ دیے جائیں تو اس کا کیا حال ہو گا یا شہروں سے درخت ختم کر دیں تو کیا حال ہوگا۔ ریڈیو کے پرانے لوگ یہی درخت ہیں۔ اور ان کو الگ کرنا سب کچھ تباہ کرنا ہے اس پر توجہ دیں ایسے احکام واپس لیں یہ ناتجربہ کار افسروں کے احکامات ہیں اور ان کی نااہلی کا ثبوت کیونکہ ان کا ریڈیو سے تعلق نہیں تھا نہ ہے۔

قائد اعظم کی حیثیت ملک کے دشمنوں کے لیے متنازعہ ہو سکتی ہے، ملک کے دوستوں کے لیے نہیں اور یہ بھی ایک پیمانہ ہے وطن دوستوں کی شناخت کا۔ ن۔ک۔گ کی مسلم لیگ ملک کی اصل مسلم لیگ نہیں ہو سکتیں۔ صرف قائد اعظم کی مسلم لیگ ہی ملک کی نمایندہ ہے، کل بھی تھی اور ہمیشہ رہے گی اور اس کا مقام اور دفتر پاکستانیوں کا دل ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔