شیخ رشید احمد: عمران خان کا ایک متحرک وزیر

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 8 فروری 2019
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

کوئی خواہ کچھ کہے، وزیر ریلوے شیخ رشید احمد تحرک اور سرگرمیوں کی اساس پر اپنے وجود اور اپنی وزارت کا احساس دلا رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے بھی بجا طور پر اُن کی تحسین کی ہے۔ پچھلے اپوزیشنی دَور میں شیخ صاحب اپنے بلند آہنگ اور حکومت کے سخت ناقد و مخالف ہونے کے ناتے ہمارے میڈیا کی نمایاں آواز بن گئے تھے۔

اُن کاتو یہ دعویٰ بھی رہا ہے کہ اُنہیں کروڑوں روپے کی اینکر شپ بھی آفر کی گئی تھی۔ شیخ صاحب اگر یہ تجربہ کرلیتے تو غالباً سب سے زیادہ کامیاب رہتے۔کہنا پڑے گا کہ گزشتہ نون لیگی دَور میں شیخ رشید احمد ہمارے الیکٹرانک میڈیا پر چھائے رہے۔ اُنہوں نے نجی ٹی ویوں کو جتنے انٹرویوز دئیے، شائد وہ خود بھی اِن کا شمار نہ کر سکیں۔ نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی کے ادوار میں شیخ صاحب نے بطور اپوزیشن لیڈر جو نمایاں اور جاندار کردار ادا کیا، یہ تو پولیٹیکل سائنس کے طلبا کیلیے کئی تھیسس لکھے جانے کا متقاضی ہے۔

وہ شائد خانصاحب کی کابینہ میں کسی اور وزارت کے متمنی تھے لیکن خانصاحب نے اُنہیں وزارتِ ریلوے کا پورٹ فولیو دے کر اچھا ہی فیصلہ کیا کہ شیخ صاحب ماضی میں بھی ایک اچھے وزیرِ ریلوے ثابت ہو چکے ہیں۔

وزیر اعظم کو اُمید ہے کہ شیخ رشید احمد اِس بار بھی کامیاب وزیر ریلوے بن کر دکھائیں گے۔وزارت کا حلف اُٹھاتے ہی شیخ صاحب نے ریل کے ذریعے راولپنڈی تا لاہور جو سفر کیا تھا، یہ دراصل اِس امر کا بھی عندیہ تھا کہ وہ براہِ راست ریلوے کی کارکردگی کا خود مشاہدہ کرنا چاہتے ہیں ۔ سوشل میڈیا پر اِس سفر کی ویڈیو کلپ وائرل ہُوئی تھی۔ اِس سفرنے ریلوے حکام کو ایک نیا پیغام ضرور پہنچا دیا تھا کہ نئے وزیر ریلوے خود آرام سے بیٹھیں گے نہ ریلوے حکام کو آرام سے بیٹھنے دیں گے۔ ویسے ہمارے ریلوے حکام اور ریلوے کارکنان کی آرام خوری بہت مشہور بھی ہے۔ اب شیخ صاحب کا موٹو ہے: آرام نہیں، صرف کام۔ پچھلے چھ ماہ وہ خود بھی اس موٹو پر عمل کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔

شیخ رشید احمدکی پھرتیاں بھی نظر آرہی ہیں اور اُن کے اہداف بھی۔ اُنہوں نے وزارت سنبھالنے کے صرف تین ماہ کے اندر لاہور، کراچی، حیدر آباد، راولپنڈی، فیصل آباد میں کئی نئی ٹرینیں چلا کر شائد نیا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ کسی کا افتتاح صدرِ پاکستان نے کیا اور کسی کا وزیر اعظم نے۔ وزیر اعظم عمران خان نے اِن میں سے ایک ٹرین (کندیاں،میانوالی تا راولپنڈی) کا افتتاح کرتے ہُوئے شیخ صاحب کی کھلے دل سے تعریف بھی کی تھی۔ منتخب حکومت کا کپتان اگر اپنے کسی لفٹین کی تعریف و تحسین کرے تو یقیناً یہ امر کسی بھی وزیر کا سرمایہ اور اثاثہ بنتا ہے۔شیخ صاحب نے یہ اثاثہ بہت جلد سمیٹ لیا۔ اُن کی کارکردگی کے پیشِ نظر وزیر اعظم اُنہیں چین کے دَورے میں بھی ساتھ لے گئے تھے۔سیاسی نبض پر ہمیشہ شیخ صاحب کا ہاتھ رہتا ہے۔

(سابق) چیف جسٹس آف پاکستان کے ڈیم فند میںبھاری رقم جمع کروا کر اُنہوں نے چیف جج صاحب کی شاباش بھی حاصل کی۔اُن کا تو یہ دعویٰ بھی حیرانی کا باعث بنا ہے کہ وہ ہر سال 100ملین روپیہ یعنی دس کروڑ روپے ڈیم فنڈ میں جمع کروائیں گے اور ہر سال 10ارب روپے کا ریلوے منافع بھی دیں گے۔ نقاد کہتے تھے کہ یہ مبالغہ ہے لیکن شیخ صاحب کا کہنا ہے کہ یہ سب دعوے ممکن الحصول ہیں۔ اُنہوں نے 16جنوری 2019ء کو چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب ( جبکہ اُن کی ریٹائرمنٹ میں صرف ایک دن باقی رہ گیا تھا) کو ڈیم فنڈ کی مَد میں6کروڑ روپے کا چیک پیش کرکے اپنا ایک وعدہ تو پورا کر دیا ۔

وزارت سنبھالتے ہی اُنہوں نے فوری طور پر اپنے اہداف کا تعین کر لیا تھا: ریلوے کا خسارہ کم کرنا ہے، ملک بھر میںریلوے ٹریک کے ساتھ ساتھ کروڑوں کی شجر کاری،عمر رسیدہ مسافروں کو رعایتی ٹکٹوں کی فراہمی،ریل کمپارٹمنٹس پر نجی کمپنیوںکے اشتہاروںکی مَد میں ریلوے کی آمدنی میں اضافہ کرنا، اہم ریلوے اسٹیشنوں پر کاروباری حضرات کیلیے نئے ایونیوز کا کھولنا تاکہ پاکستان ریلوے کا ہاتھ کشادہ ہو سکے، مال گاڑیوں میں اضافہ تاکہ ریلوے کا ریونیو خاطر خواہ بڑھایا جا سکے۔

ریلوے کی زیر قبضہ زمینوں کی واگزاری، مسافروں کے لیے باسہولت ریل کی فراہمی، وائی فائی کا انتظام، ٹرینوں کی رفتار میں ممکنہ اضافہ ، کم تنخواہ پانے والے ریلوے ملازمین کی تنخواہیں بڑھانا، نچلے درجے کے ریلوے ملازمین کے لیے نئے گھروں کی تعمیر تاکہ وزیر اعظم کے 50لاکھ گھربنانے کے وعدے میں ریلوے کی طرف سے عملی حصہ ڈالا جا سکے۔وہ پاکستان آرمی کے ساتھ مل کر ریلوے کی زمین کو ایسے اسلوب میں بروئے کار لانا چاہتے ہیں کہ ریلوے کی آمدن میں اضافے کے ساتھ ساتھ ریلوے کے قرضوں اور خساروں کو کم کیا جاسکے۔

کہنے اور دیکھنے کو یہ اہداف اور اعلانات ریلوے کے پوٹینشنل قد سے بلند تر بھی ہیں اور بظاہر ناممکن الحصول بھی۔ وزیر ریلوے شیخ رشید احمد مگر جس طرح کی توانائی اور کام کرنے کی ہمت رکھتے ہیں، کوئی بعید نہیں کہ وہ اپنے اعلان کردہ وعدوں اور اہداف میں عمل کے سارے رنگ بھرنے میں کامیاب ہو جائیں۔ اُن کی کامیابی درحقیقت وزیر اعظم عمران خان کی کامیابی ہو گی۔وہ ریلوے کی خراب گاڑیوں اور انجنوں کو ملک کے اندر ہی ریلوے کی ورکشاپوں میں مرمت کرکے دوبارہ استعمال میں لانا چاہتے ہیں۔

یہ ایک مستحسن اقدام ہے۔ شیخ رشید احمد کا کہنا ہے: رواں لمحوں میں ہمیں فوری طور پر ریلوے میں23ہزار کاریگروں، ہنر مند افراد کی فوری ضرورت ہے ، وزیر اعظم صاحب سے گزارش کروں گا کہ وہ اِن ملازمتوں کی منظوری دیں ، اگر 23ہزار کی فراہمی  فوری ممکن نہیں ہے تو ہمیں 10ہزار ہنر مند اور اہل افراد کی تو فوری اور اشد ضرورت ہے۔ شنید ہے کہ دوہزار افراد کو بھرتی کرنے کی اُنہیں منظوری بھی مل گئی ہے۔ اُنہیں اگر مطلوبہ ہنر مند افراد دستیاب ہو جائیں تو اِس کا فائدہ ملٹی ڈائمنشنل ہوگا۔ وزیر ریلوے کی خوش قسمتی ہے کہ وہ پاکستان بھر کے اخبار نویسوں کا اعتماد بھی رکھتے ہیں اور اُن سے ذاتی تعلقات بھی۔ وہ خانصاحب کی کابینہ کے دوسرے وزیر ہیں جنہوں نے وزارت کا قلمدان سنبھالنے کے بعد سب سے زیادہ پریس کانفرنسیں کی ہیں ۔

بعض اطراف سے شکایات اُبھری ہیں کہ شیخ صاحب میڈیا ٹاکس میں کبھی کبھار غیر محتاط ہو جاتے ہیں۔ یہ شکایات شائد اتنی بے بنیاد بھی نہیں ہیں۔ توقع یہی ہے کہ فرزندِ راولپنڈی مبینہ شکایات کی طرف متوجہ ہوں گے۔ شیخ رشید احمد کی ریل گاڑی اگر میڈیا کی ریل گاڑی کے ساتھ ہم آہنگ ہو جائے تو اُنہیں اہداف کے حصول میں کئی آسانیاں ہوں گی۔ وہ ’’سی پیک‘‘ کے بھی بڑے حامی ہیں۔ یہ بھی مگر کہتے ہیں کہ اِس اقتصادی منصوبے کی قدرو اہمیت اپنی جگہ لیکن ’’ہماری آنکھیں اور کان کھلے ہیں۔‘‘شائد اِسی وجہ سے اُنہوں نے ’’سی پیک‘‘ کے تحت ریلوے کی بہتری کیلیے مختص فنڈز (8.2ارب ڈالر)میں سے 2ارب ڈالر کی  کمی کر دی ہے۔یہ بڑا جرأتمندانہ فیصلہ ہے ۔

شیخ صاحب بوجوہ شہباز شریف کے چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی بنائے جانے پر سخت برافروختہ ہیں۔ شائد اِسی لیے اب خود بھی اس کمیٹی کے رکن بننا چاہتے ہیں۔اُن کے بعض بیانات سے سابق وزیر ریلوے، خواجہ سعد رفیق، کا دل دُکھتا ہے، لیکن لوگ کہتے ہیں کہ وہ شیخ رشید تو نہ ہوںگے جو چھیڑ خوباں سے باز آجائیں۔ بلاول بھٹو بھی اُن کے بیانات کی زَد میں ہیں۔ دونوں میں ہونے والی حالیہ نوک جھونک افسوسناک کہی گئی ہے۔

شیخ صاحب کے خلاف بلاول بھٹو زرداری نے اپنے الفاظ پر اظہارِ معذرت کرکے مہذب شخص ہونے کا ثبوت دیا ہے ۔سُنا ہے دونوں میں ا ب صلح ہو گئی ہے ۔نواز شریف کے مبینہ عوارض کے بارے میں شیخ صاحب جو لہجہ اختیار کیے ہُوئے ہیں ، یہ دل آزاری سمجھی جا رہی ہے ۔ ہم سب اُن کے 8 فروری کو کیے جانے والے اعلان کے منتظر ہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔