امریکا، اپنی بقاء کےلیے کوشاں

تصور حسین شہزاد  اتوار 10 فروری 2019
اب یہ وہ والے طالبان نہیں رہے جو 1992 کے بعد منظر عام پر آئے تھے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

اب یہ وہ والے طالبان نہیں رہے جو 1992 کے بعد منظر عام پر آئے تھے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

افغانستان میں منظر نامہ تبدیل ہونے جا رہا ہے۔ تیزی سے بدلتے حالات جہاں یہ بتا رہے ہیں کہ امریکا نے اپنا بوریا بستر گول کرلیا ہے وہیں یہ حقیقت بھی سامنے آرہی ہے کہ امریکا کی کٹھ پتلی حکومت بھی اقتدار میں نہیں رہے گی۔ افغان اپوزیشن ہو یا افغان طالبان، دونوں اس پر متفق ہیں کہ اقتدار میں وہ قوتیں آنی چاہئیں جنہیں افغان عوام کی حمایت حاصل ہو؛ جبکہ دونوں میں اس پر بھی اتفاق ہے کہ موجودہ افغان حکومت امریکا کی کٹھ پتلی ہے، جس کی عوام میں جڑیں نہیں۔ ماسکو میں ہونے والے طالبان کے مذاکرات اس بات کا واضح اعلان ہیں کہ افغانستان کا پورا منظر نامہ تبدیل ہونے جارہا ہے۔

طالبان، جو کبھی خواتین کی تعلیم اور معاشرے میں ان کی فعالیت کے مخالف تھے، اب اپنی پالیسی تبدیل کرچکے ہیں۔ ماسکو مذاکرات میں شریک طالبان رہنما شیر عباس ستانکزئی نے کہا کہ طالبان کے بڑھتے اثرات سے خواتین کو خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ وہ خواتین کو شریعت اور افغان ثقافت کے تحت ان کے سارے حقوق دینے کی کوشش کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اسکول جا سکتی ہیں، یونیورسٹی جاسکتی ہیں، اور ملازمت بھی کرسکتی ہیں۔

ماسکو مذاکرات میں موجود دو خواتین میں سے ایک فوزیہ کوفی نے (جو افغانستان میں رکن پارلیمان بھی ہیں) بتایا کہ یہ ایک مثبت قدم ہے کہ وہ طالبان جو اب تک افغانستان کے عوام اور بطور خاص خواتین کے خلاف گولیوں کی زبان استعمال کر رہے تھے، وہ اب مائیکرو فون کا استعمال کر رہے ہیں اور خواتین کی آواز سن رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ طالبان کے ایک رکن نے ان سے کہا ہے کہ خواتین صدر نہیں ہوسکتیں لیکن سیاسی دفتر میں خدمات انجام دے سکتی ہیں۔ فوزیہ کوفی نے مزید کہا کہ ہمیں اس بات کی یقین دہانی کرنی ہے کہ جو وہ کہہ رہے ہیں ان کی واقعی وہی نیت بھی ہے جبکہ طالبان کے رہنماؤں نے انہیں یقین دلایا کہ ایسا ہی ہوگا۔

عباس ستانکزئی نے کہا کہ طالبان اقتدار پر اپنی اجارہ داری نہیں چاہتے لیکن افغانستان کا آئین، جو مغرب سے درآمدہ ہے، امن کی راہ میں رخنہ ہے۔ دوسرے لفظوں میں طالبان افغانستان کے موجودہ آئین کو تسلیم نہیں کرتے۔ اپوزیشن جماعتیں بھی اس حوالے سے ان کی تائید کرتی ہیں۔

اگر امریکا افغانستان سے چلا جاتا ہے تو اس کے بعد طالبان پہلا کام یہی کریں گے کہ آئین کو بھی دیس نکالا دے دیا جائے گا، جس کے بعد، بقول طالبان، شریعت نافذ ہوگی اور اس میں انسانی حقوق کا خیال رکھا جائے گا۔ یہ بھی طے ہے کہ اب یہ وہ والے طالبان نہیں رہے جو 1992 کے بعد منظر عام پر آئے تھے۔ تب ان کی ابتداء تھی اور اب سیاسی حوالے سے یہ خاصے پختہ ہوچکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے خواتین کے جائز حقوق کو تسلیم کیا ہے اور مستقبل میں انہیں رعایتیں دینے کےلیے تیار بھی ہیں۔

دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی کانگریس میں ایک گھنٹے سے زیادہ دیر تک جاری رہنے والے اپنے دوسرے سالانہ ’’اسٹیٹ آف دی یونین‘‘ خطاب میں اعلان کیا کہ وہ شام اور افغانستان میں جاری لڑائی میں امریکی مداخلت کے خاتمے کے منصوبوں پر کام جاری رکھیں گے۔ امریکی صدر کا کہنا تھا کہ عظیم قومیں نہ ختم ہونے والی جنگیں نہیں لڑتیں۔ افغانستان کے حوالے سے ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ افغانستان میں 7 ہزار امریکی فوجیوں نے جانیں دیں جبکہ مشرق وسطی میں دو دہائیوں سے جاری جنگ پر سات کھرب امریکی ڈالر خرچ ہوئے۔ امریکی صدر کو اپنے 7 ہزار فوجی مروانے اور 7 کھرب امریکی ڈالر جنگ کی آگ میں جھونکنے کے بعد احساس ہوگیا ہے کہ امریکا کی مشرق وسطیٰ میں مداخلت کا فیصلہ غلط تھا۔

اب جبکہ اسی مداخلت کی پاداش میں امریکی معیشت کا بیڑہ غرق ہو چکا ہے، امریکی صدر اپنی قوم کو پھر گمراہ کر رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ امریکی معیشت بہتری کی جانب گامزن ہے۔ دنیا کی بڑی بڑی کمپنیاں امریکا آرہی ہیں۔ اگر معیشت بہتری کی جانب جارہی ہوتی تو امریکا مشرق وسطیٰ سے اپنی بساط کبھی نہ لپیٹتا۔ یہ اندرونی دباؤ ہی تھا جس سے مجبور ہو کر وائٹ ہاؤس نے مشرق وسطی سے نکلنے کا فیصلہ کیا ہے۔ دوسری جانب ایران کا خوف بھی امریکا کی نیندیں خراب کیے ہوئے ہے۔ اب صورتحال یہ تھی کہ اگر امریکا مشرق وسطیٰ میں مزید قیام کرتا ہے تو آگے ایران کا خطرناک ’’اسپیڈ بریکر‘‘ آرہا تھا جس سے امریکی سپر پاور کا دعویٰ ریت کی دیوار ثابت ہوجاتا۔ امریکی صدر کا اپنے اداروں کی ایران کے حوالے سے رپورٹس کے برعکس غُصیلی پالیسی اختیار کرنا ٹرمپ کے اندر کے خوف کی علامت ہے کہ پُرامن ایران بھی اسے ڈریکولا دکھائی دے رہا ہے۔

اپنے خطاب میں ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ افغانستان میں ان کی انتظامیہ نے بہت سے گروپوں بشمول طالبان کے ساتھ تعمیری بات چیت شروع کی ہے اور امن معاہدے کےلیے کوششیں کرنے کا یہی وقت ہے۔ افغان طالبان کے ساتھ جاری مذاکرات کا حوالہ دیتے ہوئے امریکی صدر کا کہنا تھا: ہم نہیں جانتے کہ ہم کسی معاہدے تک پہنچیں گے یا نہیں، تاہم دو دہائیوں سے جاری جنگ کے بعد اب وقت آ گیا ہے کہ ہم کم از کم امن کی کوشش کریں۔ یعنی 7 ہزار امریکی فوجی مروانے کے بعد امن کی خواہش جاگی ہے۔ یہ وہ شکست ہے جسے ڈونلڈ ٹرمپ نے بڑی خوش دلی سے تسلیم کر لیا ہے۔ کل تک طالبان کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کے دعوے کرنے والا امریکا آج ’’امن معاہدے‘‘ کی بھیک مانگ کر فرار کا راستہ ڈھونڈ رہا ہے۔

دنیا میں کسی بھی معاملے کا حل جنگ نہیں ہوتی، ہمیشہ مذاکرات سے ہی معاملات حل ہوا کرتے ہیں۔ جب امریکا طالبان سمیت شمالی کوریا اور اپنے دیگر مخالفین کے ساتھ مذاکرات کر رہا ہے تو وہیں ایران سے بھی خوفزدہ ہونے کے بجائے مذاکرات کے ذریعے معاملات کو سلجھایا جاسکتا ہے۔ ایران پر عائد بے جا اقتصادی پابندیاں امن نہیں بلکہ بغاوت کا راستہ ہیں اور اس راستے کا انجام جنگ پر ہی ہوتا ہے۔ امریکا اگر اپنی سلامتی کا سوچنے ہی لگا ہے تو اسے ایران کے ساتھ بھی بات چیت کا عمل آگے بڑھانا چاہیے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تصور حسین شہزاد

تصور حسین شہزاد

بلاگر پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اردو کرچکے ہیں۔ آج کل لاہور کے ایک مقامی ٹی وی چینل سے وابستہ ہیں اور متواتر بلاگ لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔